بدن (49) ۔ بدن/وہاراامباکر

اگر آپ کو آپریشن ٹیبل پر مردہ انسانی جسم کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملے تو جو احساس سب سے طاقتور ہو گا، وہ یہ جسم precise انجینرنگ نہیں لگتا۔ یہ صرف گوشت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ نے جسم کے ماڈل یا ڈایاگرام دیکھیں ہیں تو یہ ویسا بالکل نہیں۔ یہ ماڈل رنگین اور چمکدار ہوتے ہیں۔ اصل جسم پھیکے رنگ کا گوشت، نسوں اور بے رنگ و بے جان اعضا ہیں۔ اگر بازو پر سے جلد اتار دی جائے تو یہ مرغی کے گوشت سے مختلف نہیں لگے گا۔ اور اسے دیکھتے وقت اگر آپ ہاتھ کی طرف چلے جائیں تو صرف انگلیاں اور ناخن ہی بتائیں گے کہ یہ انسانی جسم ہے۔ اور یہ احساس آپ کی طبیعت خراب کر سکتا ہے۔
دِل بے شکلا لوتھڑا لگے گا۔ جگر، پتہ، گردے اور تلی ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے غبارے سے۔ رگوں، اعصاب اور ٹینڈن کے ریشے اور بہت سی آنتیں۔ یہ تصور محال ہو گا کہ یہ سب الجھے ہوئے بے ترتیب سے اعضا ملکر ایسے کام کیا کرتے تھے کہ جس سے یہ بے جان جسم اٹھ کر بیٹھ جاتا تھا۔ سوچ سکتا تھا۔ قہقہہ لگا سکتا تھا۔ اور اپنی زندگی بسر کرتا تھا۔
زندہ لوگ زندہ لگتے ہیں۔ لیکن جسم کے اندر جائیں تو زندہ اور مردہ کا فرق بہت ہے۔ کسی کے آپریشن کے وقت اعضا دھڑکتے اور چمکتے ہیں۔ یہ صاف طور پر زندہ اشیا لگتی ہیں لیکن مر جانے کے بعد یہ سب ختم ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر بین اولیور کی مہارت ٹراما سرجری میں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جسم کا کوئی بھی حصہ نہیں جو آپ کو مسحور نہ کر دے۔
“آپ ہتھیلیوں اور کلائیوں کا ہی ربط دیکھ لیں۔ بازو میں ٹینڈن کی حرکت سے ہونے والی انگلی کی حرکت کا تال میل ہی آپ کو حیران کر دے گا۔ ہاتھ کی چھوٹی سی جگہ میں اتنا کچھ پیک ہوا ہے کہ اسے دور سے ہلانا پڑتا ہے۔ جیسے دھاگوں سے کٹھ پتلی ہلائی جاتی ہے۔ اگر آپ مٹھی کو جکڑیں تو اپنے بازو میں کھچاوٗ محسوس کریں گے۔ یہ اس لئے ہے کہ زیادہ کام بازو کے مسلز نے کیا ہے۔
کلائی ایک خوبصورت شے ہے۔ ہر چیز کو یہاں سے گزرنا ہے۔ پٹھے، اعصاب، رگیں اور سب کچھ۔ اور ساتھ ہی ساتھ اسے متحرک بھی رہنا ہے۔ ذرا یہ سوچیں کہ آپ اس کی مدد سے کیا کچھ کرتے ہیں۔ جام کی شیشی کا ڈھکن کھولتے ہیں۔ کسی کو الواع کہنے کے لئے ہاتھ ہلاتے ہیں۔ تالے میں چابی گھماتے ہیں۔ بلب تبدیل کرتے ہیں۔ یہ شاندار انجینرنگ ہے۔
اور اگر آپ نرم ہڈی (cartilage) کو دیکھیں تو کیا ہی کمال کی شے ہے۔ یہ شیشے سے کہیں زیادہ سموتھ ہے۔ اس کی فرکشن برف کے مقابلے میں پانچواں حصہ ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اس پر کوئی سکیٹنگ کر رہا ہو۔ اس کی رفتار برف کے مقابلے میں سولہ گنا زیادہ ہو گی۔ لیکن برف کے برعکس یہ ٹوٹتی نہیں۔ پریشر کے نیچے اس میں دراڑ نہیں پڑتی۔ اور یہ ساکن شے نہیں۔ یہ بڑھتی ہے۔ یہ زندہ چیز ہے۔
اس جیسی کوئی بھی چیز نہیں جس کا مقابلہ انجیرنگ اورٹیکنالوجی کر سکے۔ اس زمین پر پائی جانے والی بہترین ٹیکنالوجی ہمارے اندر ہے۔ اور ہم اس کے کمال کو سراہتے نہیں ہیں”۔
ڈاکٹر بین کلائی کو مزید قریب سے دیکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ “اگر آپ خود کو مار دینا چاہیں تو اسے کاٹ لینا اچھی حکمت عملی نہیں ہو گی۔ یہ ایک حفاظتی میان میں ہے جو fascial sheath کہلاتا ہے۔ وہ لوگ جو ایسی کوشش کرتے ہیں، زیادہ تر ناکام رہتے ہیں۔ اور یہ اچھی چیز ہے۔
اور ہاں، اگر آپ کسی بلندی سے چھلانگ لگا کر ایسا کرنا چاہیں تو بھی یہ آسان نہیں۔ ٹانگیں ڈھیر ہو جائیں گی اور خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس بات کا اچھا امکان ہے کہ آپ بچ جائیں گے۔ خود کو مار لینا آسان نہیں۔ ہمارا ڈیزائن زندہ رہ جانے کے لئے ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ کچھ تضاد یہ تھا کہ ڈاکٹر بین اپنی باتیں جس جگہ پر کر رہے تھے، اس بڑے کمرے میں کئی ایسے جسم موجود تھے جو اب زندگی سے خالی تھے۔ لیکن ان کا نکتہ درست ہے۔ موت اٹل ہے لیکن اس سے پہلے کے برسوں کی زندگی ایک محیرالعقول شے ہے۔ اتنا عرصہ ہر قسم کے حالات میں مسلسل زندگی کا جاری رہنا اس بدن کے ڈیزائن کا معجزہ ہے۔
اس کمرے میں ان لوگوں کے جسم تھے جنہوں نے مرنے کے بعد انہیں تحقیق کے لئے عطیہ کیا تھا۔ وہ لوگ کبھی امیدیں، خواہشیں اور خواب رکھتے تھے۔ عزیز اور دوست رکھتے تھے۔ وہ سب کرتے تھے جو ہم کرتے ہیں۔ دہائیوں پر محیط زندگیاں گزار کر رخصت ہوئے تھے۔
اور یہاں پر اپنے جسموں کا عطیہ کرنے والے اور اس پر تحقیق کرنے والے اس زندگی کو ممکن بنانے والے بدن کی اسی گتھی کو سلجھا رہے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply