کشمیر کی ملکہ۔۔۔بنت الہدیٰ

آج رات بھی وہ کمرے میں موجود ایک چھوٹی سی کھڑکی کے ساتھ کھڑی تھی۔
بہت دور سامنے والا پہاڑ، جو یہاں سے ایک چھوٹا سا ٹکرا دکھائی دے رہا تھا،اس پار وہ بھی ایسی ہی کسی کھڑکی میں، رات کے اندھیرے میں دیکھتا تو ہو گا اور سوچتا ہو گا شاید اس پار کوئی ایسے ہی اس کا منتظر ہے.
وہ خود سے مخاطب تھی۔

منتظر تو ہے…..اس نے اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو دیکھا۔۔۔

جنت نذیر وادی کے دونوں ٹکڑے اس کی آنکھوں میں یکساں سمائے ہوئے تھے۔آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر تک کا سفر طویل نہیں مگر دشوار ضرور تھا،لیکن وہ جاننا چاہتی تھی،کہ اس کا مستقبل بھی اسی پُرکیف وادی سے وابستہ تھا۔۔۔

پچھلے برس ہی ملکہ کا نکاح اپنے خالہ زاد سراج کے ساتھ ہوا تھا۔ اور اگلے ماہ اس کی رخصتی تھی۔۔نکاح پر سرحد کے اس پار مقبوضہ کشمیر سے اسکی خالہ کے پورے خاندان نے شرکت کی تھی۔
مگر رخصتی کے دن قریب آتے ہی لائن آف کنٹرول پر حالات کافی بگڑ چکے تھے۔۔

سراج اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ چھپتے چھپاتے رات کی تاریکی میں رستہ ناپتے اس کے گھر اسے لینے آیا تھا۔۔۔اس کھڑکی سے نظر آنے والے پہاڑوں اور ان سے بہتے ٹھنڈے پانی کے آبشاروں کے درمیان سے گزرتی ایک خوبصورت وادی میں ہی سراج کا بسیرا تھا۔

وہ رات کے وقت ایک عام سے جوڑے میں اپنے گھر سے رخصت ہوئی تھی۔ سراج رات کے گہرے اندھیرے میں پہاڑی راستوں سے گزر کر اپنی منزل کی طرف اپنی ہمسفر ملکہ کا ہاتھ تھامے چلتا جارہا تھا۔ اور ملکہ اس کے قدموں کے نشان کے ساتھ ہی اپنے قدموں کے نشان بناتی ہوئی چل رہی تھی ۔

سفر طویل نہ ہوتا مگر مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجیوں کے خوف سے وہ ملکہ کو ایک دشوار چٹان کے راستے سے گزارتا ہوا اپنے گھر لے گیا تھا۔۔رخصتی ایسے بھی ہوتی ہے اسے علم نہ تھا۔ اس نے تو اپنی سہیلیوں کو دلہن بنے پھولوں سے سجی گاڑی میں شان سے سوار ہوکر پیا گھر سدھارتے ہوئے ہی دیکھا تھا۔۔یہ سب اس کے لئے نیا تھا اور شاید عجیب بھی مگر وہ بہت پہلے ہی خود کو ان سب کے لئے تیار کرچکی تھی۔

نکاح کے وقت قبول ہے کہنے سے پہلے اس کے کانوں میں سراج کا کہا ہر ہر لفظ گونج رہا تھا۔

“میں آزادی کے لئے لڑنے والا ایک مجاہد ہوں۔۔ میرے ساتھ رہنا سخت مصائب و آلام کا باعث ہوسکتا ہے۔ مجھ پر قرض ہے اپنی زمین کا اور اس میں آئے دن بہائے جانے والے ناحق لہو کا۔۔۔
میں چاہتے ہوئے بھی تمہیں وہ آسائش نہ دے سکوں گا جو تم اپنی نو بیاہتا سہیلیوں کے پاس دیکھتی ہو۔
کہ مجھے قبول کرتے ہی تمہیں آزاد سرزمین سے دور ایک ایسی بستی میں زندگی گزارنی ہوگی جو پابند سلاسل ہے۔۔۔ جس کی زنجیریں نادیدہ ہیں۔
لیکن ایک بات جس کا وعدہ میں تم سے کرسکتا ہوں وہ محبت اور مان کا ہے۔۔۔ تم ہمیشہ میری عزت بن کر رہو گی میری طرف سے تمہارے مان میں کوئی کمی نہ ہوگی میں تمہیں اپنی محبت دوں گا اور بدلے میں تم مجھے اپنے سارے خواب دے دینا۔۔۔
میں انہیں اپنی محبت سے تعبیر دوں گا۔”

آسمان پر چاند مکمل تھا۔ بالکل اسی رات کی طرح جب وہ پھولوں بھری سیج پر بیٹھی سراج کی منتظر تھی،کہ اچانک گولیوں کی آواز سے وادی لرز اٹھی۔
وہ گھبرا کر کمرے سے باہر آئی۔ سراج وہیں موجود تھا۔
اس کے تیزی سے دھڑکتے ہوئے دل کو تسلی ہوئی، کہ وہ ٹھیک ہے ،اس کے سامنے صحیح سلامت  موجود ہے۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔
فائرنگ کی آواز تھمتے ہی سراج نے اسے کمرے میں جانے کو کہا اور خود کپڑے تبدیل کرکے اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے روانہ ہوگیا۔

اس رات کے بعد سے یہ آئے دن کا معمول تھا۔ شام کے بعد ہی شہر میں کرفیوں لگ جاتا اور رات گئے کہیں بھی کسی پر بھی فائر کھول دیا جاتا۔ملکہ کے لئے یہ سب نیا تھا۔ شروع شروع میں وہ گھبرا کر رونے لگ جاتی تو خالہ جان، سراج کی والدہ اسے اپنے پاس بٹھا کر تسلی دیتیں ۔۔ اور سمجھاتیں  کہ آزادی کتنی بڑی قیمت وصولتی ہے۔ سراج کے ساتھ یہاں رہتے ہوئے اسے اپنے ملک پاکستان کی آزادی کی قدر و قیمت کا بخوبی احساس ہوچکا تھا۔

چند ماہ گزرے تو حالات کچھ بہتری کی طرف آنے لگے۔ اب دن کی طرح راتیں بھی پرسکون گزرتی تھیں۔ مگر جانے کیوں دل کو ہر وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا۔ شاید اس لئے کہ وہ اب بھی آزاد نہیں تھے وادی اب بھی چاروں جانب سے سیاہ اونچے بوٹ والے وحشی درندوں سے گھری ہوئی تھی۔

سراج کے گھر کے قریب ہی ایک بہتا ہوا ٹھنڈے پانی کا آبشار اسے اپنے گھر کی یاد دلاتا تھا۔ یہاں اور وہاں کچھ بھی تو منفرد نہیں تھا۔ سر پر وہی نیلا آسمان۔۔۔ہریالی۔۔ سبزے سے ڈھکے اونچے خوبصورت پہاڑ اور ان سے بہتے جھرنے، صاف شفاف میٹھے پانی کی جھیل۔۔۔

اِس پہاڑ کے اُس پار دور کہیں ایک ایسی ہی وادی ہے جہاں سے بہتے ہوئے چھوٹے چھوٹے چشموں کے ساتھ ہی ملکہ کا بچپن گزرا تھا۔۔ وہ جب بھی خود کو تنہا محسوس کرتی خود کو چشمے کے ساتھ موجود چھوٹی بڑی چٹانوں پر لے جاتی۔

وہ ننگے پیر ان اونچی نیچی چٹانوں پر چڑھ رہی تھی۔

سراج نے یہ دیکھا تو اپنی جوتیاں نکال کر ملکہ کی طرف بڑھائیں ۔
اسے پہن لو۔۔۔ بنا جوتے ان پتھریلی چٹانوں پر چلنے سے پیر زخمی ہو جائیں گے۔۔ اپنا خیال رکھا کرو۔

ملکہ نے جوتے لینے سے انکار کردیا۔
نہیں۔۔۔ مجھے سبزے سے ڈھکی ہوئی ان پتھریلی چٹانوں پر بنا جوتیوں کے چلنا پسند ہے۔۔

وہ مسکرانے لگا۔۔۔ یہ تو بچپنا ہے۔۔ کیا پہاڑ کے اس پار بنی وادی میں بھی تم اسی طرح بنا جوتیوں کے چلتی تھی۔۔

وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔۔ مگر ملکہ نے بےحد سنجیدگی سے کہا

ہاں کبھی کبھی۔۔ جب اپنے وجود کو محسوس کرنا چاہتی ہوں تب۔۔
کیا آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا۔۔۔؟

کیا اس سے اپنا وجود بہتر محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔؟
سراج نے آنکھوں کا زاویہ بدلتے ہوئے پوچھا

ہاں بالکل۔۔۔ مجھے تو اس سے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے کہ میں اپنا آپ رکھتی ہوں۔۔ زندہ ہوں ۔۔ متحرک۔۔ احساس کی حس رکھنے والی۔۔ اور آزاد ہوں۔۔۔

یقینا آزاد فضا میں پروان چڑھنے والے ہی آزادی کی خوش بختی کو محسوس کرسکتے ہیں۔۔ سراج اسے دیکھ کر دل ہی دل میں رشک کیا کرتا۔

ملکہ ان چٹانوں سے ہوتی ہوئی خود کو جھرنے سے قریب لے آئی تھی۔ سراج بھی اس کے پیچھے چلتا ہوا آبشار کے پاس آ پہنچا۔
ملکہ نے شرارت سے جھرنے کا پانی سراج کی طرف اڑایا۔
سراج کو ملکہ سے اس بچپنے کی بخوبی توقع تھی اس نے پہلے ہی اپنے بچاؤکے لئے ہاتھوں کو چہرے کی ڈھال بنالیا تھا۔

جنت نذیر وادی میں رہنے والا یہ جوڑا بھی دوسرے کشمیریوں کی طرح ہی ان چھوٹی چھوٹی یادوں کو سمیٹ کر انہی میں خوش رہتا۔ کہ وہاں خوشیوں کی عمر مختصر ہی ہوا کرتی ہے۔

ملکہ سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنی چادر درست کررہی تھی کہ سراج کا عکس آئینے میں نمودار ہوا۔دونوں میں خاموش مسکراہٹوں کے تبادلے کے بعد سراج کے چہرے پر سنجیدگی ابھر آئی۔ملکہ نے سراج کے چہرے کے بدلتے تاثر کو بھانپ لیا تھا۔

اس نے ملکہ کا رخ اپنی جانب کیا۔
“میں جانتا ہوں یہ جگہ وہاں سے بہت مختلف ہے جہاں سے تم آئی ہو۔۔۔ تمہیں وہ سب بہت یاد آتا ہوگا نا۔۔۔”

“نہیں۔۔ کچھ بھی تو مختلف نہیں ہے یہاں۔ جیسے پہاڑ اور آبشار یہاں ہیں ویسے ہی وہاں۔۔ نیلے پانی سے بھری ایک جھیل یہاں رہتی ہے تو ایک وہاں اس پار۔۔۔
سرسبز وادیاں دونوں ہی جانب ایک جیسی ہیں اور تو اور پہاڑوں پر بنے راستے بھی ایک سے ہیں۔۔۔” ملکہ نے اطمینان سے کہا۔

“ہمارے زمین اور آسمان تو ایک ہیں  مگر قسمت نہیں۔۔ وہاں آزادی ہے یہاں نہیں۔۔ وہاں امن ہے یہاں جنگ۔۔۔ تم اس آزادی کی کمی ہر لمحہ محسوس کرتی ہوگی۔”

“ہاں شاید۔۔ آزادی چیز ہی ایسی ہے کون اس کی خواہش نہیں رکھتا۔ مگر میں خوش ہوں کہ میں نے صرف آزادی کو نہیں دیکھا آزادی کے لئے کی جانے والی شب و روز کی جدوجہد کا حصہ بھی ہوں۔ جیسے کشمیر کا وہ حصہ آزاد ہے ویسے ہی یہ حصہ بھی آزاد ہوگا۔”

“انشاءاللہ ایسا ہی ہوگا۔۔۔ کشمیر مکمل ہوگا۔۔۔ اور آزاد بھی۔۔ مگر”
وہ کچھ کہتے ہوئے رکا۔۔

اس نے ملکہ کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر اپنی بات مکمل کی۔
“کچھ خبریں ملی ہیں کہ ایک بڑا سانحہ ہونے کو ہے۔۔۔ شاید ہماری قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔۔ لیکن یہ فیصلہ ہم نے خود لینا ہے جو ہمیں لینے نہیں دیا جائیگا۔۔۔ اور اب کی بار وہ ہوگا جس کے لئے ہم برسوں سے تیاری کررہے تھے۔۔ ہمیں میدان میں آنا ہوگا۔۔ بڑی سے بڑی قربانی دینی ہوگی۔۔ اور شاید اپنا سب کچھ دے کر ہی ہم آئندہ نسل کو مکمل آزاد کشمیر دے سکیں گے۔۔”

سراج کی بات مکمل ہوئی تو ملکہ نے اسکی ڈھارس بنتے ہوئے کہا
“آپ گھبرائیے گا نہیں۔ میں کشمیر کی آزادی کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہوں۔ میں مانتی ہوں میں نے اس سے پہلے ایسے حالات میں زندگی نہیں گزاری مگر ایک مجاہد کے ساتھ گزرے شب و روز نے مجھے بھی اتنی ہمت اور حوصلہ دے دیا ہے کہ آنے والی مشکلات کا سامنا بہادری سے کرسکوں۔”

“مجھے کوئی شک نہیں تمہاری بہادری پر۔۔۔ تم ایک نڈر اور شیر دل ملک کی بیٹی ہو۔۔۔ میں بس خوفزدہ ہوں کہ اب تمہیں وہ تحفظ نہیں دے سکوں گا جس کا وعدہ کرکے تمہیں یہاں لایا تھا۔”
یک لحظہ توقف کے بعد وہ گویا ہوا
“ملکہ۔۔۔ تمہاری عزت و وقار کی حفاظت میرے ذمے تھی۔۔ میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ اس پر کوئی حرف آئے۔۔۔
تمہیں واپس اپنے ملک جانا ہوگا۔ آزاد کشمیر کی طرف۔۔۔ تم محفوظ مقام پر ہوگی تب ہی میں اطمینان سے آگے جاسکوں گا۔۔ ورنہ تمہاری فکر میری راہ میں رکاوٹ حائل کردے گی۔۔۔”

ملکہ سراج کی بات سمجھ چکی تھی مگر وہ اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی اس کی شریک حیات بن کر جو ہر خوشی کے ساتھ ہر مشکل گھڑی میں بھی اس کے ساتھ ہو۔

“نہیں ہرگز نہیں۔۔ میں آپ کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی۔ میں بھی کشمیر کی بیٹی ہوں اور آزادی کے لئے دی جانیوالی ہر قربانی میں اپنا حصہ دوں گی۔” ملکہ پر عزم تھی مگر سراج کی آنکھوں میں ایک انجانا خوف تھا۔

“تم نے ان بے رحم بھیڑیوں کا سامنا نہیں کیا ہے کبھی اور میں چاہتا ہوں ایسا کبھی نہ ہو۔۔ تمہاری جان اور عزت کی حفاظت کی خاطر یہ ضروری ہے کہ میں تمہیں وادی کے اس پار تمہارے والدین کی طرف چھوڑ آوں۔”

وہ بولتا جارہا تھا اور ملکہ بت بنی سن رہی تھی۔

“ملکہ۔۔۔میں بے وفا ہرگز نہیں۔۔ تمہارا ساتھ میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر اس سے زیادہ اہم تمہاری آبرو ہے۔
اب حالات وہ نہیں رہے۔۔
میرے ساتھی میرے منتظر ہیں۔ اور میں تمہیں ان بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہرگز نہیں جاسکتا۔ تمہیں واپس جانا ہوگا۔
تم وہاں میرا انتظار کرنا۔ اگر زندگی رہی تو آزادی کا سورج طلوع ہوتے ہی دن کی روشنی میں تمہیں لینے آوں گا۔۔ اور اگر نہ آسکا تو میری طرف سے تم آزاد ہو۔۔۔”

سراج نے کھل کر تمام بات ملکہ سے کہ دی اور اس کے جانے کے انتطامات کرنے لگا۔

اس رات وہ بہت روئی تھی ملکہ نے اپنی خالہ سے بہت منتیں کی کہ وہ اسے سرحد کے اس پار نہ بھیجیں۔۔ وہ کشمیر کی بیٹیوں کی طرح آزادی کے لئے لڑنا چاہتی ہے۔۔۔
ملکہ کو اس طرح فریاد کرتا دیکھ ان کی آنکھوں میں اپنی اکلوتی بیٹی کی بےبسی کا منظر گردش کرنے لگا۔۔۔ جسے وہ ان درندوں کے شر سے نہ بچا سکی تھیں اور اسی خوف سے وہ چاہ کر بھی ملکہ کو اپنے پاس نہ روک سکیں۔

صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی ملکہ اپنے والدین کے گھر میں موجود تھی۔
ملکہ کے آزاد کشمیر آنے کے بعد دو روز تک تو اس کا رابطہ سراج اور اس کے گھر والوں سے فون اور انٹرنیٹ پر ہوتا رہا مگر پھر وہ بھی منقطع ہوگیا۔۔۔
خبریں ملنے لگی کہ مقبوضہ کشمیر میں مکمل کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔ وہاں بڑی تعداد میں فوجیں اتار دی گئی تھیں۔۔ کشمیریوں سے ان کی آزادی کا حق چھین کر انہیں ہندوستان کا حصہ بنانے کا اعلان کردیا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس دن سے ہر روز وہ اسی طرح رات گئے کھڑکی سے لگ کر نظر آنے والے پہاڑوں کو دیکھتی اور ماضی کی یادوں کا حصہ بن کر ہر دن ابھرنے والے سورج کا یہ سوچ کر خیر مقدم کرتی کہ ایک دن وہ سراج کے بتائے ہوئے آزادی کے سورج کی پہلی کرن کا استقبال کریگی۔

Facebook Comments

بنت الہدی
کراچی سے تعلق ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply