“اگر مجھے ریٹائر کر دیا گیا “/وقاص آفتاب

 زیر نظر کتاب” اگر مجھے ریٹائر کر دیا گیا “  جسٹس بابا رحمت کی خود نوشت رودادِ حیات، عدالتی زندگی کی گواہ اور ان کے رشحاتِ  فکر کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ  جج صاحب کو ظاہری طور پرریٹائر ہوۓ چار سال سے بھی کچھ زائد کا عرصہ گزر چکا ۔ مگر عوام الناس ،  سرکاری وکلاء اور محب وطن حلقوں میں  اس کتاب کی شہرہ آفاقی اور لاثانی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔  چنانچہ ایک نہایت ہی مختصر مدت میں اس ادبی شہ پارہ کے تین ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بِک چکے ہیں ۔  جیسا کہ ٹائٹل سے ظاہر ہے کہ یہ قیمتی تصنیف مصنف کی دائمی عدالتی رخصتی سے کچھ عرصہ قبل ہی منصہ شہود پر آئی تھی اور اس کی وجہء  تالیف مصنف کی طرف سے ان خطرات و حالات کی نشاندہی تھی جو آپکی ریٹائرمنٹ کے مضمرات کے طور پر خود رو پودوں کی طرح جنم لے سکتے تھے۔ گویا یہ ایک صاحب ِ بصیرت کی طرف سے ایک ایسی قوم کو وارننگ تھی جو آنے والے خطرات سے آگاہ نہ ہو اور جس کی اپنی کوئی کل سیدھی نہ ہو۔

 آپ لکھتے ہیں کہ من آنم کہ من دانم اس فقیر کی ہستی کی ویسے تو کچھ حقیقت نہیں مگر اس نردوش  کو محض پیکر خاکی نہ سمجھا جاۓ بلکہ اس قوم میں میری حیثیت اس لال رنگ کے سیفٹی والو کی سی ہے جو گیس اور پانی کی پائپوں کے آگے  لگا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ اس والو میں خفیف سی بھی جھری آگئی یا یہ ٹوٹ گیا یعنی ریٹائر ہو گیا تو اس ملک میں گیس اور پانی کی مانند  کئی طرح کی لیکس ہوں گی اور بہت سے راز افشاء ہوں گے۔ بلکہ لیکوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو جاۓ کا جس کی یہ قوم کبھی متحمل نہ ہوسکے گی ۔ جج صاحب کی اس بات کو پہلے ایڈیشن کی طباعت کے موقع پر بہت سے لبرل ذہنیت کے مادہ پرست لوگوں نے خود فریبی ، پراگندہ خیالی اور دیوانے کی بڑ وغیرہ قرار دیا تھا۔ مگر حالیہ دنوں میں ہونے والی آڈیو اور وڈیو لیکس کے تناظر میں دیکھا جائے تو جسٹس صاحب کی پیش بینی اور دور نظری کی داد دینا پڑے گی۔

 یہی وجہ ہے کہ حالیہ واقعات سے اٹھنے والی گرد کو بٹھانے کے لئے  اس جدید چوتھے ایڈیشن میں مصنف نے آڈیو لیکس پر اپنا مطمع نظر  مزیدواضح کر دیا ہے اور اس ضمن میں چند احباب کی تمام تر مخالفت کے باوجود” خود را کردہ علاج نیست “  کے عنوان سے ایک مستقل الگ باب بھی باندھ دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ” بچپن سے ہی میری یہ محبوب عادت رہی ہے کہ گاہے گاہے، وقتا فوقتا اپنی آواز ریکارڈ کرتا رہتا ہوں اور موقع محل کی نسبت سے یا اکثر رات کو سونے سے پہلے طمانیتِ  قلب کی خاطر ان ریکارڈوں کو سُن کے محظوظ بھی ہوتا ہوں ۔ ان ٹیپوں میں کسی خاص صنف یا نوع کی تخصیص نہیں ۔ تقریر  ، عرضی، قوالی ، گیت ، ماہیا،بھجن، ٹھمری وغیرہ  سب ہی پر اس حدی خواں کو دسترس ہے۔ لیکن نہ تو میں نے کبھی  اس فن سے شکم پروری کا سوچا اور نہ ہی اس کو وجہء  عزت یا شہرت گردانا۔ اگر کسی فن شناس دوست یا محرم راز نے کسی ٹیپ کی بہت  فرمائش کی تو معمولی رینٹ پر اسے دو چار دن کے لئے رعایتاً  دے دی۔ آج بھی گھر کے تہہ خانے میں ہزاروں ریکارڈ اس عاجز کے موجود ہیں ۔ لیک ہونے والی آڈیو بھی ایسی ہی کسی ٹیپ کا حصہ ہے جو غا لباً کوئی دغا باز رینٹ پر لے گیا۔اس کے بعد نہ تو اس نے کرایہ دیا اور نہ ہی ٹیپ واپس کی۔ بلکہ الٹا اس کو دنیا کے سامنے لاکر مجھے میرے گوشہ ءعزلت سے محروم کر دیا۔ دکھ تو یہ ہے کہ جس دن سے یہ آڈیو لیک ہوئی ہے اس وقت سے اب تک اس کو کئی لاکھ دفعہ مختلف لوگ اپنے یو ٹیوب چینل پر چلا چکے ہیں ۔ قریہ قریہ نگر نگر میرا نام بھی بحیثیت ایک” فنکار “ کے مشہور ہو چکا ہے۔  مگر حرام ہے کہ کسی نے مجھے ایک دھیلہ بھی رائلٹی دی ہو یا کم ازکم پوچھا ہی ہو! یہ وہ اصل المیہ اور انصاف کا قتل ہے جس پر اس قوم اور موجودہ عدلیہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے “۔

  کتاب کے پہلے دو ابواب میں مصنف نے قانون کی پیچیدہ راہداریوں میں اپنے طویل سفر کا بیان کیا ہے۔ وطن عزیز کے ہر مشہور اور بڑے آدمی کی طرح آپکا سفر بھی روحانیت سے شروع ہوا ۔  اگرچہ محیرالعقول واقعات کا آغاز آپ کی صغیر سنی میں ہی ہو گیا تھا مگر اوائل عمری کی  ان گم گشتہ  باتوں  کو لکھتے ہوۓ آپ نے کسی درجہ اخفاء سے کام لیا  ہے۔ جس کی ایک وجہ شاید مخالفین کے ناجائز استہزا اور خندہ استحقار سے اپنی حفاظت ہو۔جج صاحب لکھتے ہیں کہ خدا جانے یہ مکتب کی کرامت تھی یا کسی کا فیضان نظر  کہ اپنے بچپن سے ہی مجھے صادق و امین بننے کا ذوق و شوق تھا۔ اپنے طبعی میلان کے باعث مجھ کو ہمیشہ ہی قانون کی بالا تری اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نفاذ کا خیال رہتا تھا ۔ لکھتے ہیں کہ ابھی میری مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں مگر میرے اوپر اس کیفیت کا  اثر اس قدر شدید تھا کہ میں اکثر حالت کشف میں رہتا اور عدالتی کاروائی میں حاضر رہتا ۔

 مغلوب الحالی کے اس دور میں نے ایک خواب دیکھا کہ جیسے میں لاہور ہائی کورٹ کے باہر با ادب کھڑا ہوں اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں ۔ ہم سب گویا کسی بہت بزرگ ہستی کے لئے سراپا انتظار ہیں ۔ ایسے میں  ایک نورانی صورت بزرگ جن کا نام خواب میں  جسٹس منیر رحمت اللہ علیہ معلوم پڑتا ہے  ججوں والا کالا چوغا پہن کر تشریف لاتے ہیں ۔اس صاحب کرامت کو دیکھ کر کئی لوگوں کی مسرت سے چیخ نکل جاتی ہے۔ مگر وہ تمام سرکاری وکلاء اور ججوں کے جم ِ غفیر کو نظر انداز کرکے سیدھا میری طرف آتے ہیں اور میرا ہاتھ پکڑ کر بھرے مجمع میں اعلان کرتے ہیں کہ” یہ میرا روحانی بیٹا ہے۔ جو کچھ میرے پاس تھا، میں نے اسے عطا کردیا “۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک مختلف قسم کے روحانی خواب آتے رہے۔ کبھی دیکھتا کہ مرحوم جسٹس شیخ انوارالحق اپنے ہاتھ سے مجھے دودھ پلا رہے ہیں ۔ کبھی شریف الدین پیرزادہ نام کے ایک بزرگ خواب میں آجاتے اور دیر تک اس عاجز کے سینے پر دم کرتے رہے۔   پھر یکلخت خوابوں کا یہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ کئی دن حیرانی اور پریشانی میں گزر گئے ۔  اور میں اپنی زندگی سے تقریباً مایوس ہوگیا۔پھر ایک دن اردو ڈائجسٹ میں الطاف گوہر نام کے ایک بزرگ کی تصویر کے بالمقابل لاء کالج میں داخلے کا اشتہار دیکھا تو میری نگاہوں کے سامنے بجلی سی پھر گئی اور میں نے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر فوراً داخلہ لے لیا۔

 اس دور کا مختصر ذکر کر کے بابا رحمت نے اپنی طویل جدو جہد اور تعلیمی معرکوں کاذ کر کیا ہے ۔ پھر بتاتے ہیں کہ کس طرح اس وقت کے خلیفہ اور امیر المومنین  نے اپنی مومنا نہ فراست اور مردم شناسی کے ذریعے ان کے اندر کے ہیرے کو پہچانا اور تمام قواعد بالائے طاق رکھتے ہوۓ پہلے  لاء سیکریٹی اور پھر ہائی کورٹ کا جج مقرر کیا۔ بعض حاسدوں نے آپ کی اس ترقی اور قدرتی سرفرازی کو سفارش ، چاپلوسی اور رشوت کے معاملات سے جوڑنے کی جو مذموم کوشش کی ہے۔ آپ نے اس کا جواب بھی مدلل دیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امیرالمومنین  کے اس احسان کا بدلہ آپ کی عدالت نے ۲۰۱۷ میں دیا جب خلیفہ صاحب کو پانامہ کے مقدمے میں اقامہ کی سزا دی گئی اور تا حیات نا اہل قرار دیا گیا۔حالانکہ اس مقدمے کے تحت خلیفہ کو سات آٹھ سو دفعہ سزائے موت بھی ہو سکتی تھی مگر آپ نے کمال شفقت اور نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ یہ احسان بھی اتار دیا اور صرف نا اہلی پر اکتفا کیا۔ اس پر آپ کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

 اس کے بعد والے دو ابواب میں مصنف نے ججوں کی ایمانداری اور احتساب پر اپنا نقطہ نظر واضح کیا ہے۔ مزید یہ کہ اپنی عدالتی زندگی کے اہم مقدمات کاذ کر بھی کیا ہے۔ججوں کے ضابطہ اخلاق کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ کسی جج کو رشوت لینا یا سفارش ماننا حرام ہے مگر  کسی زیر سماعت مقدمہ میں اگر کوئی ایسا تحفہ یا ہدیہ ہو جس سے جج کے ضمیر پر اخلاقی بوجھ نہ پڑتا ہو اور جو صرف متعلقہ سائل کی تالیف قلب کرتا ہو اس کے لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔چنانچہ ساری زندگی آپ نے اسی اصول پرستی میں گزار دی اور جو کوئی پیسہ آپ نے اس اعلیٰ  اخلاقی قدر پر عمل پیرا ہو کر کمایا اس پر سال کے سال بغرض تقویٰ  زکوۃ  بھی دیتے رہے حالا نکہ تحفے اور ہدیے پر زکوۃ پر عام گناہ گار انسان تو ایک طرف رہے ،مختلف فقہا میں بھی اختلاف ہے۔ جج صاحب کی اس وضاحت سے ان لوگوں کو اپنی زبانیں بند کر لینی چاہئیں  جنہوں نے آپ پر پیسے لے کر کام نہ کرنے کا بھونڈا اور رقیق الزام  لگایا ہے۔ ان لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہیے اور ایک شریف انسان پر ایسے بے ہودہ الزامات سے گریز کرنا چاہیے ۔ 

اپنی عدالتی زندگی کے اہم مقدمات کا ذکر کرتے ہوۓ آپ نے ایک غیر ملکی سازش کے تحت لاہور میں بننے والے جگر اور گردہ کی پیوند کاری مرکز کے مقدمہ کا ذکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ یہ عاجز دوسرے بہت سارے ظاہری اور باطنی علوم کی طرح علم طب و حکمت اور ہومیوپیتھی کا ماہر بھی ہے بلکہ خاکسار کو میٹر یا میڈیا  کا حافظ کہا جاۓ تو غلط نہ ہو گا۔ میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ گردہ یا جگر کی پیوند کاری ایک وقتی سہارا تو ہے کسی مرض کا شافی علاج ہرگز نہیں بلکہ ان امراض کا حتمی علاج یونانی طب اور ہومیو نسخوں میں ہی ملتا ہے۔ چنانچہ جب میری  عدالت میں جگر اور گردہ کی پیوند کاری کے مہنگے علاج کا مقدمہ پیش ہواء تو میں نے اس پر فوراً  قدغن لگا کر عوام الناس کو  اس غیر ضروری علاج سے بچا لیا۔ بلکہ جو غیر ملکی تربیت یافتہ ڈاکٹر ایک سازش کے تحت ایسا سینٹر یہاں کھولنا چاہتے تھے ان کی سخت تادیب بھی کی۔ ان میں سے بہت سوں نے تو کان پکڑے اور ڈر کے بھاگ گئے۔ دو ایک نے ایلوپیتھک عقائد سے توبہ کی اور اب ہومیو کالج میں تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ اس معاملے میں میرا دل صاف اور ظرف کشادہ ہے ۔ چناچہ کوئی وجہ نہیں کہ جب یہ ڈاکٹر ہومیو کالج سے فارغ ا تحصیل  ہوں، میں ان کے تقریب تقسیم انعامات میں نہ جاؤں۔

اس ملک میں احتساب کس کا ہو اور کیسے ہو؟احتساب بیورو کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے؟ یہ پیچیدہ مسلۂ بھی آپ نے اپنی جنبش فکر سے آسان کر دیا ہے۔   آپ فرماتے ہیں کہ  میں ذاتی طور پر احتساب بیورو کے قیام کے خلاف ہوں۔مگر اب یہ ادارہ بن گیا ہے تو اسے کام کرنے دیا جاۓ۔ اس ضمن میں آپ نے” نانی نے خصم کیا  بُرا کیا ، کر کے چھوڑ دیا اور بُرا کیا “ کی مثال دی ہے۔ آپ مزید لکھتے ہیں کہ اس ملک میں طویل عرصے سے امیر اور صاحبِ  حیثیت لوگوں کی ہی پوچھ پریت ہو رہی ہے۔ چھوٹے افسروں اور غریبوں کا حساب کوئی نہیں کرتا۔ان لوگوں نے جو دھما چوکڑی مچائی ہوئی ہے اس کو کون روکے؟آخر یہ ملک کیسے ترقی کرے؟ چنانچہ آپکی عدالت میں چھوٹے سے چھوٹے عہدے دار کو بھی اپنے اعمال کا حساب دینا پڑتا تھا۔عہدہ جتنا چھوٹا ہوتا،غربت جتنی زیادہ ہوتی۔۔ سزا اتنی ہی سخت ہوتی۔

 لکھتے ہیں کبھی سبزی ترکاری دینے والا پیسوں میں ڈنڈی مارتا یا اس کی دی ہوئی سبزی سے  اپھارہ ہوتا تو میں اس سے منی ٹریل مانگ لیتا۔دو ایک بار اس نے چوں چراں کی مگر پھر بل مانگنا ہی چھوڑ دیا۔ دودھ اور چاۓ والے کا انجام بھی یہی ہوا ۔حال ہی میں بیٹے کی شادی میں ایک بینڈ ماسٹر تین دن تک ڈی جے بنا رہا اور بالاصرار  مختلف النوع کے گانے اور ساز بجاتا رہا۔ میں نے بھی کچھ تعرض نہ کیا۔ اگر کوئی آپکی خوشیوں میں شامل ہونا چاہے تو آپ اس کو کیسے روک سکتے ہیں؟ ۔ مگر  اس وقت میرا ماتھا ٹھنکا  جب اس نے  مجھے لمبا چوڑا بل بھیج دیا۔  میں نے بھی جواباً ڈھول ، باجے اور دیگر مزامیر کی منی ٹریل مانگ لی۔ وہ بیچارہ بے حد شرمندہ ہوا اور یہی کہتا رہا کہ ہم خاندانی ہیں اور یہ  باپ دادا کا چھوڑا ترکہ ہے اس کی منی ٹریل کہاں سے لائیں مگر میں نہ مانا۔ اس نے بہت ڈھول پیٹا اور شور شرابا کیا تو میں نے اسے نا اہل قرار دے دیا اور اسکے باجا وغیرہ بجانے پر تا حیات پابندی لگا دی۔ آخرش اس  نےمطالبہ چھوڑ ہی دیا۔ اب سنا ہے کہ تارک دنیا ہو گیا ۔ بعض کہتے ہیں کہ تبلیغی جماعت میں شامل ہو گیا۔ بہرحال جو بھی ہوا  اس کے حال میں  اچھا ہی ہوا ۔

جسٹس بابا رحمت نے اس صخیم کتاب میں بہت سے اہم ملکی رازوں سے پردہ بھی اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح تبدیلی کے آنےاور عدل وانصاف کی بے مہر حکومت قائم ہونے پر  پر ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ  ان کو جیم سے شروع ہونے والے کسی ملک کا صدر بنوایا جائے گا۔  آپ کا خیال تھا کہ جیم سے شروع ہونے والے یہ ممالک جرمنی یا جاپان ہو سکتے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ تبدیلی سرکار کا جغرافیہ تھا جس میں جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملتی دکھائی دیں تھیں۔ اسی لیے آپ نے ان ممالک کی امیگریشن اور نیچرالائزیشن قوانین پر خوب غور وخوص بھی کیا تھا اور استخارہ بھی ۔مگر افسوس بُرا ہو چرخ کج رفتار کا کہ یہ وعدہ پورا نہ  ہوا اورآپ کو خاموشی سے ریٹائر کر دیا گیا۔ اس زیادتی پر آپ ہرگز کبیدہ خاطر نہ ہوۓ بلکہ اپنے انداز شکیبائی سے عوام کا دل موہ لیتے رہے۔ اسی عوامی مقبولیت کے باعث بعد از ریٹائرمنٹ آپ کو “ جو ہر ٹاؤن ویلفئر سوسائٹی “ کی تا حیات صدارت کی پیش کش ہوئی تو آپ نے  فوراً اس لئے قبول کر لی کہ اس کا نام نامی بھی جیم سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ خدا کے گھر سے مایوس ہونا مومن کی شان کے خلاف بلکہ اپنی اصل میں کفر ہے ۔ وہ جب چاہے جوہر ٹاؤن کو جرمن کا یا جرمنی کو جوہر ٹاؤن کا حصہ بنا دے۔ یا پھر جرمنی ، جاپان اور جوہر ٹاؤن کی سرحدیں ملا دے۔

کتاب میں اسی مقام پر آپ نے ڈیم فنڈ کا بھی ذکر کیا ہے اور کتاب کی اشاعت سے صرف ایک ماہ قبل اپنے ذاتی دورہ ڈیم کے مشاہدات و نظارات بھی نقل کئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ڈیم فنڈ سے اب تک وہاں ایک عدد موٹر اور ایک نلکا   لگ چکے ہیں  جبکہ کھرا زیر تعمیر ہے۔ مصنف نے ہر پاکستانی سے اس مقدس فریضہ میں شریک ہونے کی اپیل کی ہے۔ 

   کتاب کے بالکل آخر میں میں مصنف نے “ از خود نوٹس”  یا سوو موٹو کا بھی دفاع کیا ہے۔ اس ضمن میں آپ نے شہنشاہ جہانگیر اور شیر افگن کی حکایت پیش کی ہے۔  آپ لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس مقدمے کا نتیجہ بادشاہ، سائل، جج، وکیل ، منشی، محرر ، ٹائپسٹ سمیت سب کو معلوم تھا مگر جہانگیر پھر بھی سکیورٹی اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود عدالت میں پیش ہوا اور اپنے حق میں فیصلہ لے کر رخصت ہوا جو اس کی عظمت کی دلیل ہے۔بعد ازاں شیر افگن اسی عدل جہانگیری کی محبت میں مغلوب حال ہو گیا اور سلطنت مغلیہ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوۓ جاں بحق ہوا ۔ حالانکہ بادشاہ نے اس کو چیئرمین پبلک سروس کمیشن، لینڈ ریوینیو سمیت بہت سے دوسرے عہدے پیش کئے تھے اور حج پر بھیجنے کی پیشکش بھی کی تھی مگر  وہ نہ مانا ۔

جہانگیر نے کمال مہربانی سے اس کے کنبے پر احسان کرتے ہوۓ نہ صرف اس کے تمام اخراجات کو اپنے ذمہ لے لیا بلکہ اس کی بیوہ سے شادی کر کے اس کو ملکہ بھی بنا دیا۔ بعض ناقدین نے  جہانگیر کے بارے میں یہ شک کیا ہے کہ بادشاہ نے محض شیرافگن کی بیوی ہتھیانے کے لئے یہ سب ناٹک رچایا ۔ حالانکہ اس نے صاف کہا تھا کہ وہ خاندانی آدمی ہے اور کسی کو ایسے مروانا اس کی تربیت میں نہیں۔عجیب تاریخی اتفاق ہے کہ تقریباً یہی فقرہ جنرل مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگنے کے جواب میں کہا تھا۔

یہ حکایت درج کرنے کے بعد جج صاحب فرماتے ہیں کہ جو بھی ہو شیر افگن کی موت کی تحقیقات ضرور ہونا چا ہیے تھیں۔   آپ لکھتے ہیں کہ اگر آپ جہانگیر کے زمانے میں چیف جسٹس یعنی قاضی القضاہ ہوتے تو شیر افگن کی موت کا از خود نوٹس لیتے ، بادشاہ کے سیکرٹری اور خزانچی کو لائن حاضر کرنے کے بعد جوڈیشیل انکوائری کا حکم دیتے ۔ پھر مزید از خود نوٹس لے کر بادشاہ اور نور جہاں کی شادی خانہ آبادی کے خلاف حکم امتناعی بھی جاری کرتے بلکہ اس ضمن میں پکنے والی دیگیں، چھوارے اور مکھانے وغیرہ بھی بحق عدالت  ضبط کر کے کسی مدرسہ کے طالب علموں میں بانٹ دیتے یا ڈیم فنڈ میں جمع کرا دیتے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بادشاہ جہانگیر اور نور جہاں کے قضیہ میں بہت سے لوگوں نے جسٹس صاحب کو بادشاہ کے خلاف معاندانہ رویہ رکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے بلکہ بعض نے تو اسے اولامر کی مخالفت اور سلف صالحین سے استمداد کی روایات کے منافی قرار دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اس وقت کے اکثر علما ، صلحا، امرا ، اور شعرا نے  جہانگیر کے حق میں کثرت سے قصیدے، سہرے اور فتاوی ٰ شائع کئے ہیں ۔ مزید یہ کہ اس زمانے کے سلیم اطبع مفکرین نے شیر افگن کے راہ سے ہٹنے کے بعد شہنشاہ کے نور جہاں کے ساتھ نکاح کو مبارک اور رد ِ فساد  قرار دیا ہے۔ بعض نے یہاں تک لکھا ہے کہ جہانگیر کا نور جہاں کو بیوی بنانا صرف دنیاوی غرض سے نہ تھا بلکہ وہ حقیقت میں اس کو اپنی پیرنی بھی مانتا تھا۔ اس کا پروگرام یہی تھا کہ ہند کو بالعموم اور شمالی ہند کو بالخصوص ریاست مدینہ کے طرز پر ڈویلپ کرے۔ لیکن بنگالے کی مہم ، چند دیگر واقعات اور بادشاہ کی بد عات کے باعث ایسا نہ ہوا۔ جسٹس صاحب پیش گوئی کے انداز میں لکھتے ہیں کہ جس ریاست کا بیج نورالدین جہانگیر نے سترھویں صدی میں بویا تھا اس کی تکمیل چار سو سال بعد ایک اور حکمران کے ہاتھوں اکیسویں صدی میں ہوگی۔  اور جب ایسا ہوگا تو اس میں میرے کردار پر بھی دنیا رشک کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غرض یہ کتاب اپنے اندر ایک جہان کو سموۓ ہوۓ ہے۔ پڑھ کر لطف اندوز ہوں۔

Facebook Comments

Waqas Aftab
Intensivist and Nephrologist St. Agnes Hospital Fresno, CA, USA

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply