بے موسمی موسم/انجینئر ظفر وٹو

ناران اور اس کے شمال میں اپریل کے مہینے میں کل برف باری ہوئی ہے۔ اس سے پہلے اس سال پوری سردیوں میں ناران سمیت شمالی علاقوں میں  برف باری نہیں ہوئی۔ فروری کے آخر میں جاکر برف گرنا شروع ہوئی تھی۔

ادھر پنجاب میں اپریل گندم کٹائی کا مہینہ ہوتا ہے جب زمین تپ جاتی ہے اور گندم کی بالیاں سونا بن جاتی ہیں۔ گندم کاٹنے والوں کا گرمی اور پسینے سے بُرا حال ہوتا ہے۔ لیکن اس اپریل میں ژالہ باری اور موسلا دھار بارشوں کا ابھی تک بھی تیسرا دور چل رہا ہے۔

بلوچستان جہاں مغربی ہوا ؤں  کے سلسلے سردیوں کی بارش اور برف باری لاتے تھے وہاں اس سال اپریل تک بھی ایسی بارشیں ہورہی ہیں کہ مون سون کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔

کے پی میں بارشوں سے اپریل میں دریائے سوات اور دریائے کابل اونچے درجے کے سیلاب کے نشان پر پہنچے ہیں جو اس سے پہلے صرف مون سون کی طوفانی بارشوں میں ہوتا تھا۔ بارش سے کشمیر اور کے پی میں لینڈ سلائیڈنگ کا عمل ابھی تک جاری ہے۔ کل ہی ایک مسافر کار اس سے حادثے کا شکار ہوئی ہے۔

سندھ مئی میں گرمی کی ایک جان لیوا لہر سے نپٹنے کی تیاری میں ہے جو کہ انڈین گجرات کے راستے پاکستان میں مئی کے پہلے ہفتے میں وارد ہوگی اور سارے ساحلی علاقوں سمیت تھر اور چولستان تک پہنچے گی۔

یہ بے موسمی کے موسم نہیں تو اور کیا ہے۔

موسمی سائنسدان، موسمیات کی ویب سائٹس اور فیس بُک گروپس اس سال مون سون میں ایک بڑے سیلابی خطرے کی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ابتدائی اندازے ہیں جوکہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر یا تبدیل ہوتے رہیں گے لیکن ابھی تک ہمارے موسم کا پیٹرن سنہ 2022 کے جناتی سیلاب کو دہراتا نظر آرہا ہے۔ انڈیا میں بھی اس سال مون سون میں معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں اور ظاہر ہے ہمارے ہاں مون سون انڈیا کی طرف سے ہی آتا ہے۔

تاہم ابھی ہمارے پاس کچھ وقت ہے۔ اس طرح کے موسمی حالات سے گھبرانے کی بجائے پچھلے تباہ کن مون سون کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عملی حکمت عملی تشکیل دی جاسکتی ہے جس سے نا  صرف جانی و مالی نقصانات کم کئے جا سکتے ہیں بلکہ بحالی بھی جلد ہو سکتی ہے۔ مثلاً

1- سیلابی علاقوں کی نشاندہی اور خطرے کی زد میں آئی آبادیوں کے لوگوں کی بلند زمینوں پر تیزی سے منتقلی کے پیشگی اقدامات اور منصوبے بناکر رکھنا تاکہ ضرورت کے وقت یہ سب کچھ خودکار طریقے سے ہوجائے اور جانی، مالی اوت مویشیوں کا نقصان کم ہو۔

2- فولڈنگ کشتیوں کا بندوبست کرنا۔

3- موبائل ڈسپنسریوں کی منصوبہ بندی جو پانی میں گھرے لوگوں کو ملیریا، ڈائیریا کا علاج کرے، حاملہ خواتین اور بزرگوں کا موقع پر خیال رکھے اور بروقت دوائیاں پہنچائے۔

4- سیلابی پانی کو صاف کرکے پینے کے قابل بنانے والے کرنے والے واٹر فلٹرز کا انتظام کرکے رکھنا۔

5- عارضی خیموں، کھانے اور ٹوائلٹس کا بندوبست کرنا۔

6۔ اندرونی علاقوں میں زیادہ مدد بنسبت روڈ کنارے

7- چولستان اور تھر کے ٹوبوں کو پانی سے بھرنے کی پلاننگ کرنا۔

8- صحرائی علاقوں کے ٹوبوں یا پانی کے تالابوں میں پلاسٹک شیٹس کا استعمال تاکہ پانی زیرزمین ضائع نہ ہو۔

9- الخدمت کا ایک ہزار ٹوبوں کی بہتری کےپراجیکٹ کی طرز پر تیزی سے کام کرنا۔

10۔ ڈیم سیفٹی کی چیکنگ کرنا اور وقت سے پہلے خطرے کو بھانپتے کر دفاعی اقدامات کرنا۔

11- سیلابی راستوں سے رکاوٹوں کا خاتمہ کرنا جو کہ بہت زیادہ فلڈنگ کا باعث بنتی ہیں۔

12- سیلاب کی پیش گوئی اور وارننگ سسٹم کو بہتر بنانا۔

13۔ موسمیاتی صورت حال کی مسلسل نگرانی کے لئے جنگی بنیادوں پر کنٹرول روم قائم کرنا۔

14- محکموں کا ایک دوسرے سے تعاون اور ہم آہنگی بڑھانا تاکہ نہ صرف موسم کی صورت حال پر معلومات کا بروقت تبادلہ ہو بلکہ حفاظتی اقدامات میں دہرا وقت اور پیسہ بھی ضائع نہ ہو۔

15- فلڈ ایپس بنانا اور ان کا م استعمال عام کرنا۔

16۔ این جی اوز کا مشترکہ پلیٹ فارم بنانا تاکہ کوششوں کی دُہرائی کی بجائے ان میں ہم آہنگی پیدا کرکے نتائج کو کئی گنا بہتر کرنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان معلومات کا مقصد خوف وہراس یا مایوسی پھیلانا ہرگز نہیں بلکہ اس بات پر زور دینا ہے کہ ابھی ہمارے پاس وقت ہے کچھ احتیاطی اور حفاظتی تدابیر کی سوچ بچار اور تیاری کرلیں۔ یہ تحریر اب تک کی دستیاب موسمی صورتِ حال کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اور کسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ موسمی آپ ڈیٹس کے ساتھ ساتھ صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply