ریت میں کھلتے گلاب۔۔خنساء سعید

بچے پھولوں کی طرح نرم و نازک ہوتے ہیں پھولوں کی طرح ہی رنگین اور ہر طرف اپنی بھینی بھینی خوشبو بکھیرنے والے ۔ تتلیوں کے پروں پر لگے رنگوں کی مانند یہ بچےکہ اگر ذرا سی سختی سے پکڑو تو سارے رنگ اُتر جائیں ،ان کی چہکار سے گھر کا آنگن چہک اُٹھتا ہے ،ان میں سے کوئی تو اپنے بچپن کا زمانہ بڑاہی خوشگوار ہر وقت موج مستی میں گزاردیتا ہے مگرکچھ بچوں کو ایسا بچپن نصیب نہیں ہوتا،وہ بچپن میں ہی بڑے ہوجاتے ہیں اُن کو روزگارکی فکر ستانے لگتی ہے ایسے بچوں کو چائلڈ لیبر یعنی محنت کش بچے کہا جاتا ہے جو روزگا کے لیے گھر سے نکل پڑتےہیں اوراپنے نر م و نازک موم جیسے ہاتھوں پر حالات کا جلتا پھاہا رکھ لیتے ہیں ۔یہ ہی محنت کش بچے بھوک کے جلتے الاؤ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے نازک کندھے اینٹوں ، ریت ،اور سیمنٹ  کے وزن کی نذر کردیتے ہیں ۔

دنیا بھر میں محنت کش بچوں کا عالمی دن 12جون کو منایا جاتا ہے ۔اٹھارویں صدی کے آخر میں بر طانیہ میں صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی مزدوروں کے صنعتی استحصال میں اضافہ ہوا جس میں بچوں کی مزدوری بھی شامل تھی ۔برمنگھم ، مانچسٹر ، لیور پول میں بچوں سے ایک بھاری تعداد میں مزدوری کروائی جاتی جس کی وجہ سے بہت سے بچے موت کے گھاٹ اُتر جاتے ،وکٹورین دور بچوں سے مزدوری کروانے کے حوالے سے بدنام ہے۔اس دور میں بچوں سے سب سے زیادہ مزدوری کروائی گئی ۔چھ سال سے کم عمر بچے ایک طویل عرصے تک پیداواری فیکٹریوں اور بارودی سرنگوں میں اکثرخطرناک اور مہلک کام کرتے نظر آتے تھے کوئلوں کی کانوں میں بچے سرنگوں کے ذریعے رینگ کر جاتے تھے اس کے علاوہ بچوں سے جھاڑو لگوانے،جوتے پالش کروانے ، پھول بیچنے ،یا دیگر سستے داموں والے کام کروائے جانے لگے ۔اُنیسویں صدی کے عظیم برطانیہ میں غریب بچوں نے اپنے خاندان کی روٹی کمانے کے لیے مزدوری کی ۔انگلینڈ اور اسکاٹ لیند میں 1788میں پانی سے چلنے والی سوتی ملوں میں دو تہائی بچوں نے مزدوری کی ۔کارل مارکس بچوں سے مزدوری کروانے کے سخت خلاف تھا اُس کا کہنا تھا کہ” برطانوی صنعتیں بچوں کا خون چوس کر انھیں زندہ رکھنے کا ذریعہ بن رہی ہیں “۔1835میں لیٹیا الزبتھ لنڈن نے اپنی ایک نظم “فیکٹری “میں بچوں کی مزدوری کا جواز پیش کیا ۔بیسویں صدی کے آغاز میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں سے شیشہ بنانے والی فیکٹریوں میں کام لیا جانے لگا جس کی وجہ سے بچوں میں آنکھوں کی بیماریاں ، پھپھڑوں کی بیماریاں سامنے آنے لگیں جس کی وجہ سے ایک بھاری تعداد میں بچوں کی موت واقع ہونے لگی ۔اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کا دور آیا لیکن اس جدید دور میں بھی دنیا کے کئی ممالک میں چائلڈ لیبردیکھنے کو ملی جس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں محنت کش طبقے کے مسائل میں آج تک صرف اضافہ ہی ہوا ہے۔جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتاجارہا ہے ویسے ہی غربت ،مہنگائی اوربے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتاجا رہا ہے۔ محنت کش بچوں کا عالمی دن 2002میں باقاعدہ طور پر منایا گیا ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں دو کروڑ دس لاکھ سے زائد ننھے مزدور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔انسانی حقوق کمیشن کے مطابق سب سے زیادہ چائلڈ لیبرصوبہ پنجاب میں ہے جہاں 19 لاکھ سے زائد بچے محنت و مشقت کرتے پائے گئے اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بڑی تیزی کے ساتھ چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے یہ وہ بچے ہیں جن کے والدین دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے گئے حیدر آباداورملتان میں چائلڈ لیبر ایک نا سورکی طرح پھیلی ہوئی ہے جو ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔چائلڈ لیبر پر قابو پانے کے لیے پاکستان میں کئی قوانین بنائے گئے جن پرتا حال عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔

ہمارے ملک وملت کا مستقبل اور قیمتی اثاثہ ،چھوٹی چھوٹی خواہشوں میں گرفتار یہ معصوم چہرے، جب اپنے ننھے ہاتھوں سے محنت مزدوری کرتے ہیں تو ریاست کا دل پارہ پارہ کیوں نہیں ہوتا ؟ روشن مستقبل کے ضامن ان بچوں کے گلے میں غلامی کا طوق کیوں پہنایا جارہا ہے۔یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف تو بچے سکول جاتے ہیں تو دوسری طرف اُنھیں سکولوں کے باہر مزدور بچے فکر معاش میں مصروف دیکھائی دیتےہیں ۔اور المیہ تو دیکھیں کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان کے ہاتھوں سے کا غذ ،قلم ،دوات چھین کر اوزار تھما دیے گئے ہیں ۔80فیصد بچے ایسے ہیں جو گھروں اور کھیتوں میں کام کرتے ہیں جن کا سروے تک دستیاب نہیں ہے حکومتی عدم دلچسپی اورذمہ داران کی چشم پوشی کے باعث چائلڈ لیبرمیں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور قانون حرکت میں آنے کی بجائے خاموش ہے۔چائلڈ لیبر کی وجہ سے کروڑوں گھروں کے مستقبل تباہ ہو رہے ہیں۔جب تک بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو نہیں پایا جائے گا ،غربت اور مہنگائی کے بادل نہیں چھٹیں گے ،جب تک ہم طبقاتی تضاد سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائیں گے ،تب تک یہ نو نہال طفل مزدوری کرتے رہیں گے ،تب تک یہ گلاب کے پھول مرجھاتے رہیں گے ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ان بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دیں تا کہ ملک کی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے ۔

جون کی دھوپ میں تپتی ریت میں تیرے ننگے پاؤں

یا پل دو پل کو سر پر بس اڈے کی چھاؤں

آنکھوں میں حالات کی مٹی جیسے دھول میں موتی

دھات کے سکے اُس مٹھی میں جس میں تتلی ہوتی

اک ہی صدا یہ پنسل لے لو بھائیو ، بہنو ، ماؤں

مانگ رہا ہے تازہ ایندھن گھر کا سرد آلاؤ

کوئی نہ تجھ کو دیکھ پسیجے کار میں لیٹے لیٹے

اپنے پاس بلا کر پوچھے !اے اس شہر کے بیٹے

مکتب کو لے جانے والا رستہ کس نے چھینا

منے !تیری تختی تیرا بستہ کس نے چھینا

Advertisements
julia rana solicitors

(اعتبار ساجد)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply