میڈیا اور ظلِ الٰہی۔۔۔۔نور الامین

سبھی چراغ میری تاریکیوں سے واقف تھے،
شب  کٹی  کہ  بجھا  دیئے  میں  نے۔
نورالامین
محسوسات جب تک ساتھ دیں زندگی کا احساس جاگزیں رہتا ہے، ورنہ تو ایک پل اور صدیوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ حسیات کے بغیر وقت، ذائقے، رویے، تاثرات، نظارے اور ماحول سب یکساں نظر آتے ہیں، اور یکسانیت کو اب تک تو زندگی قرار نہیں دیا جا سکا۔ تبدیلی، نیا پن، تازگی اور اختلاف کو جو زندگی کے بنیادی عناصر تسلیم کر لیا جائے تو اسی سوچ میں گم ہوں کہ موجودہ صورتحال کو کس درجے کی تبدیلی، تازگی، نئے پن کے زاوئیے پر رکھ کر دیکھا جائے؟ کیوں کہ “یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار دنوں کی بات نہیں”
کچھ عرصہ گزرا ہو گا کہ وطن عجائبات میں بادشاہ نے اعلان کیا کہ منادی کرنے والوں کو بادشاہ اور مصاحبین کی طرف سے معقول اعزازیہ دیا جائے گا، اور ان کے آقاوں کو اشرفیوں سے لاد دیا جائے گا، بشرطیکہ وہ بادشاہ کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملائے رکھیں۔ بصورت دیگر سکیم سےفائدہ نہ اٹھانے والے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور گزرےوقت کو یاد کر کے روئیں گے۔ ایسے میں زیادہ تر منادی کرنے والوں کے ہجوم نے بادشاہ کے حکم کو حکم الہی سمجھا اور چل دیئے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے۔ لیکن شہر والوں میں سے ایک پاگل، دیوانہ جو عجیب حالت بنا کر بازاروں میں گھومتا پھرتا رہتا اور لوگوں کو بتایا کرتا کہ عنقریب وہ بھی بادشاہ بنے گا، تب بادشاہ اور اس کے حواریوں پر زندگی تنگ کر دی جائے گی۔ رعایا خوشحال ہو گی، کسی کو دو وقت کی روٹی کے بدلے عزت نفس گروی نہیں رکھنی  پڑے گی۔ غرض وہ بادشاہ کے ہر اس اعلان کو جس میں اس کی تعریف و توصیف کا پہلو نکلتا، ظلم کہتا اور رعایا کے مفادات کی باتوں کو اس کی لوٹ کھسوٹ کا مال چھپانے کے طریقے قرار دیتا۔ ایسے میں جو بھی منادی کرنے والا اس پاگل کی بات رعایا تک پہنچانے کی کوشش کرتا بادشاہ کے خاص لوگ اس کی آواز دبا دیتے، اور دوبارہ ایسی ہی جرات پر قید میں ڈال دیئے جاتے۔ جب کہ وہ دیوانہ لوگوں کو امید دلاتا کہ وہ بادشاہ بنے گا تو ایسے مظالم نہیں ڈھائے گا۔ لوگ اس کی باتیں سنتے اور ہنس کر ٹال دیتے۔ اس دوران کئی بادشاہ آئے اور گئے لیکن سال ہا سال سے گلیوں میں “میں بادشاہ بنوں گا” کی صدا لگانے والے دیوانے کی قسمت دیکھیے کہ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ظل الہی ٹائپ کے بادشاہ کی امور سلطنت سنبھالنے والے کچھ ہر فن مولا قسم کے لوگوں سے اَن بن ہو گئی اور ان کے سردار کی قاضی کی معاونت سے کی گئی بغاوت نے بادشاہ کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن رعایا نے بغاوت کو لا یعنی قرار دیتے ہوئے شرف قبولیت بخشنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں باغی سردار جس کے پاس طاقت بھی تھی، اسے وہ دیوانہ یاد آیا اور اس کی سب باتیں بھی۔ سو اس نے دیوانے کو بلا بھیجا اور منادی کرنے والوں کے لیے نیا اعلان جاری کیا گیا کہ جو بھی منادی کرنے والا معزول بادشاہ کی تعریف کرتا پایا گیا اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور جو بھی اسے چور ڈاکو اور جھوٹا کہے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اور یہ بھی کہ وہ دیوانہ عنقریب ان کا بادشاہ بننے والا ہے۔
دیوانے پر باغی سردار کی نظر کیا پڑی، کہ اس پر قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی، مہربان بھی ایسا ہوئی کہ سرخاب کا پر اس کے تاج میں جڑ دیا۔  وقت بدلا اور باغی مگر طاقتور سردار کی معاونت سے دیوانے کو مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کا موقع مل گیا، جہاں بقول شاعر الگ جہاں آباد تھا۔ جہاں سے ہر طرف جنت کے مناظر تھے، دیوانے نے دیکھا کہ اس محل کے سب دروازے جنت میں کھلتے تھے سوائے ایک دروازے کے جو عوامی مسائل کے جہنم میں کھلتا، سو دیوانہ بھی رعایا سے کیے گئے وعدے بھول، آنکھیں موند، اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ پہلے پہل تو رعایا دیوانے کی عدم توجہ کو وقتی مصروفیت اور سخت محنت سے تعبیر کرتے رہے لیکن کچھ مزید وقت گزرا تو رعایا نے دیوانے کو عہد و پیمان یاد دلانے شروع کر دیئے، اور بات منادی کرنے والوں کے لبوں تک بھی پہنچ گئی۔ دیوانہ جو کہ چوتھائی صدی سے میں بادشاہ بنوں گا کا راگ الاپتا بمشکل کسی کے کندھوں پر سوار ہو کر  یہاں تک پہنچا تھا، اس صورتحال نے اس کے اعصاب پر بُرا اثر ڈالا اور جلد ہی وہ عوام کی ان فرمائشوں سے تنگ آ گیا۔ ایسے میں وہ بہکی بہکی باتیں کرتا حتی کہ مسائل کی بات کرنے والوں کے ساتھ الٹے سیدھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر تیار ہو گیا۔ ایسے میں باغی سردار نے خاص اندر کی خبر نکالی اور دیوانے بادشاہ تک پہنچا دی کہ منادی کرنے والے ہی مسائل کی جڑ ہیں اور رعایا کو بادشاہ کے خلاف بغاوت پر بھی اُکساتے ہیں۔ پھر کیا تھا دیوانہ شاہ لٹھ لے کر منادی کرنے والوں کے پیچھے پڑ گیا، کبھی منادی کرنے والوں کا دانہ پانی بند کیا، کبھی انہیں قید کرنے کی دھمکی دی، ایسے میں باغی سردار کے خاص کارندے مددگاروں کی صورت میں پھر ساتھ دینے پہنچے اور دیوانے کو پرانے بادشاہ کا قصہ بیان کیا کہ کیسے وہ مخالفین کی آواز رعایا کی سماعتوں سے دور رکھتا تھا۔ مددگار دیوانے کے مصاحب بن کر اس کے ساتھ رہتے اور سردار کے اشاروں پر دیوانے کو مدد فراہم کرتے۔ ایک روز انہی  میں سے ایک نے مناسب موقع دیکھ کر دیوانے کو سردار کا پیغام دیا کہ اب وقت بدل چکا اور سائنس کافی ترقی کر چکی ہے، اس لیے دیوانے کو جب بھی کسی منادی کرنے والے سے شکایت ہو وہ طاقتور سردار کے بھیجے گئے مددگاروں سے اس کا گلا کٹوا بھی سکتا ہے اور دبا بھی۔ چونکہ یہی منادی کرنے والے تھے جنہوں نے اس دیوانے کی باتوں پر یقین کیا اور اس کی آواز رعایا کے کانوں تک پہنچائی تھی، جو دیوانے کے حال سے زیادہ ماضی سے واقف تھے اور وقت بے وقت اس کی دیوانگی میں کی گئی باتوں کو عقلمندی سمجھ بیٹھے اور اب گاہے گاہے ان پر عملدرآمد کا تقاضا بھی کرتے رہتے، نیز وہ باغی سردار کے لَتے لینے سے بھی باز نہ رہتے، اس لیے دیوانے کو منادی کرنے والوں کے بندوبست کی تجویز بہت پسند آئی اور اس نے سردار کی خواہش کے مطابق شاہی فرمان جاری کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن منادی کرنے والے چھپتے پھر رہے ہیں، اکثر تو فاقوں سے تنگ آ کر پیشہ بدل گئے، کئی ایک نے اطاعت قبول کر لی اور باقی بھی جان بچانے کی خاطر عارضی طور پر کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ اس لیے کہ طاقتور باغی سردار کے ایماء پر دیوانے بادشاہ نے ایسے تمام دیے بجھانے کی ٹھان رکھی ہے جو ان کے حال، ماضی اور مستقبل سے واقف ہیں۔
سبھی چراغ میری تاریکیوں سے واقف تھے،
شب کٹی کہ بجھا دیئے میں نے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply