خامہ بگوش غالب۔۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ساٹھ نظموں پر مشتمل یہ نیا تجربہ غالب کے اشعار کو رو پرو اور دو بدو مکالماتی فارمیٹ میں سمجھنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔ مرزا غالب اور یہ خاکسار پہلو بدل بدل کرالفاظ اور معانی کی ہاتھا پائی میں بلی ماران کے گلی کوچے میں بلیوں اچھل رہے ہیں۔ یہ کتاب جو پہلے مطبوعہ کتاب ـخامہ بدست غالب ‘‘ کا جڑواں sister volume ہو گا، ’’خامہ بگوش غالب‘‘ کا اسم ِ موصول اختیار کرے گا۔ (ستیہ پال آنند)

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بس کہ میں صحرا نورد
خا ِ رِ پا ہیں جوہر ِ آئینہ ٗ زانو مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستیہ پال آنند
کیا قیامت کی ہے یہ تصویر ، اے غالب میاں
خار زار ِ بے اماں میں چوکڑی مارے ہوئے
ایسے بیٹھے ہو کہ پاؤں گود میں رکھا ہوا ہے
اور تلوے میں گڑے کچھ خار چشمک کر رہے ہیں
جیسے کہتے ہوں کہ اب صحرا نوردی ختم ہے
ہم ترے ’’آئینہ ٗ زانو کا جوہر‘‘ ہیں اگر
اپنا چہرہ ہم میں دیکھو اور پہچانو اسے
کیا وہی ’’غالب‘‘ ہو تم یا ہو کوئی ’’مغلوب‘‘ شخص؟

مرزا غالب
یہ نکوہش میری بے ادبی نہیں ہے کیا؟ کہو!
سر زنش، تنقید چھوٹوں کے لیے تو ٹھیک ہے
پر بڑوں کی عیب گوئی،( وہ بھی ان کے سامنے ہی)
مرتدوں کا کام ہے یہ، دینداروں کا نہیں !

ستیہ پال آنند
استغفر اللہ ، اے خلف الرشید و مہرباں
میں کہ اک کم فہم، نو آموز شاعر۔۔ اور آپ
صاحب ِ ادراک، متخصص، گُرو، وِدوان شاعر
مجھ سا اوندھی کھوپڑی والا کہاں ، اے مہرباں
آپ کو تکلیف دے سکتا ہےیوں تعریض سے؟

مرزا غالب
خیر، جیسے بھی ہوا، اب تو ہو گیا، آگے چلو !

ستیہ پال آنند
ایک خاکہ ہی تھا جو میں نے بنایا تھا، حضور
آپ کا صحرا کی نوکیلی زمیں پر بیٹھنا
اور تلوے میں چُبھے کانٹوں کو یکسر دیکھنا
اور پھر ’’ آئینہ ٗ زانو‘‘ میں خود کو دیکھ کر
سوچنا، شاید یہی منز ل ہے میری! کیا نہیں؟

ٍمرزا غالب
ہاں ! نہیں ! شاید، یہی کچھ ! اور ، آخر ہے بھی کیا
چار دن کی زندگی میں؟ ستیہ پال آنند، بول !

ستیہ پال آنند
میں بھلا بولوں گا کیا، جب آپ خود فرما گئے
’’چار دن کی زندگی میں اور آخر ہے بھی کیا!ْ‘‘
آخرش یہ طے ہوا، تلووں کے سب کانٹے، جناب
’’جوہر ِ آئینہ ٗ زانو‘‘ اسی معنی میں ہیں
گویا خار ِ پا کو یکسر و برابر دیکھنا
ما حصل اس بات کا ہے، بندہ پرور ، anآخرش
ہو گئی صحرا نوردی، جتنی بھی اب ہو گئی !!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply