میرے صنم۔۔۔۔۔اجمل صدیقی

میں ایک ہندوستانی ہوں ۔

ہندوستان تاریخِ عالم کی کمر پر رسولی کی طرح ابھرا ہواہے۔۔ہندوستان کا کوئی مذہب نہیں۔ سماجی ارتقا کی تقدیس کو مذہب کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس ملک میں 33 کروڑ دیوتا ،35 کروڑ طوائف اور 40 کروڑ بھکاری ہیں ۔ان کی لغت میں رشتوں کے بہت مقدس الفاظ ہیں ۔۔جو چالاک لوگ ہوتے وہ بالی وڈ میں چلے جاتے ہیں، جو ان سے بھی چالاک ہوتے ہیں وہ کرکٹ میں ۔
باقی لوگ جھوٹے عقائد کو بہت سچے دل مانتے ہیں اسی طرح زندگی گزاردیتے ہیں۔
میرے پاس چند تصویر ہیں ۔۔۔دیکھنا چاہیں گے؟
میرے صنم ۔۔

یمنا!
یہ ایک طوائف اور کھولی نمبر 45 دادر پل کے نیچے رہتی ہے۔ یمنا کے چار مستقل گاہک ہیں اور باقی وہ میرین ڈرائیو یا تاج ہوٹل سے ڈھونڈ لیتی ہے۔
جب کوئی گاہک نہ ملے تو یہ چار اس کی امید کے مستقل دئیے ہیں ۔یمنا عمر کے اس حصے میں ہے جہاں جوانی جسم سے جان چھڑا نا چاہتی ہے۔
پھر بھی اس نے اپنی اٹھان اور نین سر کشیدہ رکھنے اور مردوں کے چہروں کو پڑھنے کا  فن سیکھ لیا ہے۔میں خود بھی اس  سے سامنا کرنے سے ڈرتا ہوں مبادا کہ وہ میری ہوس کو جان جائے ۔یمنا کی تین ڈاڑھوں کو کیڑا لگا  ہوا ہے۔۔کیڑا تو خیر اس زندگی کو بھی لگا ہے۔ اس کی دائیں ٹانگ پر سورایئسس کا مرض ہے۔جسے وہ بہت مہارت سے چھپا لیتی ہے۔
جب اس کو کوئی گاہک نہ ملے تو وہ تاج ہوٹل کے بیرے دینو کے پاس جاتی ہے۔جو اسے چائے اور بریانی کے پیسے دے دیتا ہے۔کبھی کبھار اس کے جسم سے کھیلتا بھی ہے۔نہایت شریف انسان ہے۔وہ کئی سال سے  یہ خدمت بجا لارہا۔
کہاں ہیں اخلاق کے ٹھکیدار؟ انسانوں کو نیکی کا راستہ دکھانے  والے۔۔۔دینو کے تین بچے اور ماں کو ٹی بی اور بیوی کو یرقان ہے۔کیا اسے اتنا بھی حق نہیں کہ ہوٹل کی  گندی اور عیاشی کے تیزاب میں جلی ہوئی زندگی سے نکل کر کسی جسم سے چند لمحے کھیل سکے ۔۔؟
یمنا کا دوسرا گاہک ایک پٹھان ہے جو سالہا سال ممبئی میں سود کا کاروبار کرتا ہے۔ اس نے سر پر موتیوں والا مفلر باندھا ہوتا ہے۔وہ یمنا کی چال سے مطمئن ہوجاتا ہے اگلی منزلیں طے نہیں کرتا ہے ۔کبھی پیار سے یمنا کے گا لوں پر چٹکی لیتا ہے۔
یمنا کا تیسرا یار اور گاہک
ایک خواجہ سرا ہے۔
یہ یمنا سے صرف انسانی ہمدردی پر وابستہ  تعلق ہے لیکن جس دن ک اس کے چیلے نہ ہوں اس کارقص بھی کروادیتا ہے۔۔

یمنا کا چو تھا گاہک
ایک احمدآباد کا ٹرک ڈرائیور ہے۔ یہ یمنا  کے ساتھ لیٹ بھی جاتا ہے اپنی بیوی کے ستم سناتا ہے بڑا کہانی باز ہے۔
اب اس سے ٹرک نہیں چلتا ۔ جب ٹرک نہیں چلتا تو گھر نہیں چلتا ۔۔ جب گھر نہیں چلتا ۔۔۔تو گھر والی چلتی ہے۔

و اہ۔۔۔۔

اگلی تصویر ۔
یہ روپا کی تصویر ہے۔
روپا بھی کھولی میں پیدا ہوئی تھی ۔لیکن نین نقش اور ذہن دونوں تیز تھے ۔زندگی کرنا جلد سیکھ گئی ۔ روپا کی لانبی لانبی کلاسیکی آنکھیں ہیں ۔بے قابو بال ہیں جنہیں دیکھ کر کئی دل بھی بے قابو  ہوتے ہونگے۔
روپا  ایک سکول ٹیچر ہے۔
اس کی اپنے ایک خوبرو فیلو ٹیچر پر نظر ہے ٹیچر کی اپنی فیملی پر نظر ہے اور فیملی کی اپنے دیوتا پر نظر اور دیوتا اندھا ہے۔۔
ان کے سب خواب اندھے ہو جائیں گے۔

فنٹاسٹک!
اگلی تصویر
روی شنکر کی ہے۔ یہ 22سالہ جوان ہے۔
روی کے  جبڑے چوڑے ،ناک بیٹھی سی ،رنگ کچھ صاف ہے۔
وہ جبڑے کم ہی کھولتا ہے۔
وہ سلیز مین ہے۔
اس نے فیشن آزما کر اپنے آپ کو  ایک پُرکشش لڑکا بنا لیا ہے
بدصورت سلیز مین نہیں چل سکتا ۔سرمایہ دار ی کی کتاب میں حسن گرم مسالہ ہے مانگ بڑھانے کا نام ہے۔
پرسنل سیکرٹری جو جدید طوائف حسین ہو۔۔بنک میں ایک عدد رونق ہو۔
روی کی  سارا دن زبان چلتی ہے۔
کوئی لڑکی ما ل میں داخل ہو اس کی زبان ۔۔ذہن اور دھڑکن ساتھ ساتھ چلتی ہیں شاید کوئی نازنیں اس پر مہربان ہوجائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری تصویر ۔۔
یہ میری ہے۔
میری شکل تو نانا پاٹیکر سے ملتی ہے عمر امیتابھ سے اور عادتیں ۔۔عمران ہاشمی سے ۔۔۔
اب تو آپ سمجھ گئے  ہونگے کہ میں ایک نمبر کا خبیث ہوں ۔میں لوگوں کی ضروریات جلد سمجھ لیتا  ہوں۔پھر ان سے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ کسی سے پیسے لیکر بھول جاتا ہوں لیکن خود لینے ہوں تو وہ خارش بھی کرے تو سمجھتا ہوں مجھے پیسے دینے لگا ہے۔
اپنے سامنے کسی کی  تعریف نہیں برداشت کرسکتا ،سُن کے جل کر کباب ہو جاتا ہوں، حتی کہ اپنے سگے بھائی کی بھی ۔
یہ میری تصویر ۔۔
کیسے ہیں میرے صنم ۔۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply