شہد سے میٹھا

شہد سے میٹھا۔ سہیل اکبر کروٹانہ
پاکستان ائیرفورس سے تعلق رکھنے والے محمد ابراھیم میرے تاریخی دورہء اسکردو 2005 کی دریافت ھیں۔۔ ھری پور ھزارہ کا رھنے والا ابراھیم چھوٹے خالص شہد سے بھی زیادہ میٹھا ھے۔۔ ھم دونوں پاک فضائیہ کی سالانہ فضائی مشقوں کے سلسلے میں اسکردو خیمہ زن ھوئے۔۔ ابراھیم تو خیر خود آیا تھا جب کہ مجھے سرکار نے ڈنڈہ ڈولی کر کے بھجوایا تھا، سوال اٹھتا ھے کہ کیسے؟ اپنے ذھن میں ٹلہ جوگیاں کی فائر رینج لے آئیں اور چشم تصور میں مقام رینج سے فائر ھونے والے میزائل کو زمین سے فضا میں جاتا ھوا دیکھیں۔۔ بس اغلی گل رھن دیو۔

مجھے وھاں بھیج تو دیا گیا لیکن جب واپس بلایا گیا تو میں نے آنے سے انکار کر دیا کہ جس کو میری جگہ بھیجنا ھے اسے ایک دو مہینے بعد بھیج دیجئے گا۔ ارباب اختیار یہ سن کر اسی طرح تسلی بخش حالت میں چلے گئے جس طرح پرچہ کرتے سمے طالب علم کو ممتحن غیر متوقع طور پر اپنی جیب سے دس پندرہ منٹ اضافی دے دیتا ھے۔۔ دراصل سکردو ائیربیس جانا اور وھاں رھنا ذرا مشکل سا کام دکھتا تھا۔۔ دوپہر ایک دو بجے تک مشغولیت سے فراغت ھو جاتی تھی۔۔ مشغولیت کیا تھی بتانا ممکن نہیں۔۔ صرف سوچنا ممکن ھے۔۔

چونکہ جون جولائی کے مہینے تھے اس لئے سردی کافی کم تھی۔۔ البتہ شاور کے نیچے نہایا ان دنوں بھی رقص بسمل کی طرح جاتا تھا۔۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے، اور بھر جہاں نکلے وھاں اگلے کئی منٹوں تک پھر ڈوبے رھتے۔۔ پھر اگلی بے شمار و بے انت ساعتوں تک پھر ڈوبنے کے بارے سوچ میں ڈوبا جاتا اور پھر شاور کے نیچے تین سے چار سیکنڈز تک "سر بکف" ھوا جاتا اور یوں کئی مراحل میں غسل عمد کیا جاتا۔۔ غسل خطا کا تو خیر ذکر ھی کیا۔۔ جون جولائی میں اس قسم کے جنگی حالات تھے تو اصلی اور ایک نمبر سردیوں میں کیا کیا نہ ھوتا ھوگا۔۔ ان مہینوں میں جہاں بقیہ پاکستان میں گرمی کے گولے برستے وھاں اسکردو میں اولے برستے تھے۔

میں اور ابراھیم ھر روز رن وے پر تین چار کلو میٹر پیدل مارچ کرتے ھوئے ائیرپورٹ کے مرکزی دروازے سے باھر نکل کر دروازے ھی کے بغل میں واقع مشرف ھوٹل میں بڑے سے پیالے میں چرسوٹ قسم کی چائے پیا کرتے اور سموسے کھایا کرتے۔ چائے والے اس پیالے کو پنجابی میں بادیا کہا جاتا ھے باقی زبانوں میں پتہ نہیں اس قسم کا پیالہ ھوتا بھی ھے کہ نہیں۔۔ بادیا بے سہارا قسم کا پیالہ ھوتا ھے جسے مزید سادہ زبان میں آپ "ڈونڈی لیس" (Doondiless) کہہ سکتے ھیں۔ اس کو آپ نے کلاوہ مار کر پکڑنا ھوتا ھے۔۔ کپ، مگے، ٹملر تو بعد کی ایجادات ھیں۔

مشرف کی چائے بہت لنگمار ھوا کرتی تھی۔۔ لنگمار کی تشریح میرا پشاور کا رھنے والا دوست جسے ھم سب یار بیلی پھٹیچر خان سے نام سے پکارتے تھے، ھی کر سکتا ھے۔۔ پھٹیچر کا موقف تھا کہ لنگمار چائے وہ ھوتی ھے جو ابل ابل کر کڑک ھوجائے نیز آدھی رہ جائے، اس لنگڑی چائے کو لنگمار چائے کہا جاتا ھے اور اس چائے کو پینے کا اپنا ھی مزہ ھوتا تھا۔ اس دور میں چونکہ جنرل مشرف کی حکومت تھی تو ھم مشرف ھوٹل والے کو جنرل صاحب کے نام سے یاد کرتے۔۔

بعد از چائے نوشی و سموسہ فروشی ابراھیم و سہیل پر مشتمل تازہ دم دستہ ائیرپورٹ سے دو تین کلومیٹر دوری پر واقع قصبہ گمبہ رپورٹ کرتا۔۔ وھاں ھم نے ایک مزید راحت جاں قسم کا ھوٹل تاڑا ھوا تھا جہاں چکن سوپ کے ساتھ جیو کی نشریات دیکھنا کمپلسری تھا کہ اور کوئی چینل آتا ھی نہیں تھا۔ سوپ اور جیو پر مشتمل نیم فوجی کارروائی کے بعد ھم کبھی کبھار اپنی سو کالڈ جوانیاں پرکھنے سی ایم ایچ چلے جایا کرتے تھے جو ذرا اونچائی پر بنا ھوا تھا، ھم باقاعدہ سی ایم ایچ سر کیا کرتے تھے۔۔

واپسی پر پھر مشرف ھوٹل پر وھی چائے سموسے وال ڈرل دھرائی جاتی کہ بہرحال فوجی جو ٹھہرے۔۔ ھمارے فزیکل ٹریننگ کے استاد محترم خالد محمود صاحب جو چکوال کے رھنے والے تھے کہا کرتے کہ فوجی کو ھر وقت حالت ڈرل میں رھنا چاھئے وگرنہ وہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی کاھل بنا دیتا ھے۔۔ کوھاٹ میں دوران تربیت خالد صاحب مہینے میں دو مرتبہ ھماری کلاس منیر -8 کو سر عام ایک ایسی انسپیکشن کی دھمکی دیتے کہ جس کی وجہ سے کینٹین میں مہینے میں دو ھی مرتبہ سیفٹی اور بلیڈ ناپید ھو جاتے۔۔

شام کو میس میں فوجی عشائیہ کرنے کے بعد رن وے پر دو اڑھائی گھنٹوں کی واک سامنے سے جلدی چل، پیچھے پھر، پھر جلدی چل کی صورت میں کیا کرتے۔۔ دوران واک ھر قسم کے سماجی، مذھبی، سیاسی، موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی۔۔

ایک افسوس جو مجھے آج بھی ھے اور اس کا تذکرہ میں ابراھیم سے جب بھی ملاقات ھوتی ھے ضرور کرتا ھوں، وہ یہ کہ ابراھیم نے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایم فل کررکھا ھے اور بعد ازاں پی ایچ ڈی ادھوری چھوڑ دی۔ اللہ کرے کہ یہ لڑکا اپنا تعلیمی سفر پھر سے شروع کرے۔ فوجی زبان میں جسے کہا جاتا ھے کہ "جیسے تھے"۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تصویر پچھلے دنوں پاکستان ائیرفورس بیس ملتان میں لی گئی جہاں ابراھیم عارضی ڈیوٹی کے سلسلے میں آیا ھوا تھا۔ ھم روز دوپہر کو کینٹین میں چائے پیا کرتے اور بارہ سال قبل اسکردو میں گزارے دنوں کی یاد کو تازہ کیا کرتے۔

Facebook Comments

سہیل کوروٹانہ
مردانہ حسن و وجاہت کے پیکر اور ادبی ذوق کے حامل سہیل کے تیار کردہ جہاز فضا میں اونچا اڑتے ہیں، مگر انکے خیالات کی پرواز ان جہازوں سے بھی اونچی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply