قلندر رقص فرما ہے

قلندر رقص فرما ہے
کلامِ لعل شہباز قلندر ( سید عثمان مروندی)
منظوم ترجمہ : مشتاق علی شان

Advertisements
julia rana solicitors

نجانے کیوں میں آخر یوں دمِ دیدار رقصاں ہوں
مگر اس ذوق پرنازاں میں پیشِ یار رقصاں ہوں
تو ہردم زمزمہ خواں ہےمیں یوں ہرباررقصاں ہوں
نچائے جس طرح مجھکواےمیرےیاررقصاں ہوں
سراپا بےخودی ، قربان اپنی بے خودی پر ہوں
کہ اپنے گرد ہی میں صورتِ پرکار رقصاں ہوں
خوشا رندی کیا پامال میں نے پارسائی کو
زہے تقوی،کہ پہنے جبہ و دستار رقصاں ہوں
اے ظاہر دیکھنے والے مجھے طعنہ نہیں دینا
میں ہوں رندِ خراباتی سرِ بازار رقصاں ہوں
تو وہ قاتل تماشے کے لیے جو خوں بہاتا ہے
میں وہ بسمل کہ زیرِ خنجرِخونخوار رقصاں ہوں
تماشا دیکھ لےجاناں کہ جانبازوں کےمجمعے میں
بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار رقصاں ہوں
اگرچہ خار پر ٹھہرا نہیں ہے قطرہء شبنم
مگر میں قطرہء شبنم بہ نوکِ خار رقصاں ہوں
رفیقِ عشق شعلوں میں سدا رقصاں ہی رہتا ہے
کبھی مٹی، کبھی پیروں تلے ہیں خار رقصاں ہوں
میں ہوں عثمان مروندی مجھے منصور سے نسبت
ملامت خلق کرتی ہے میں پیشِ دار رقصاں ہوں

Facebook Comments

مشتاق علی شان
کامریڈ مشتاق علی شان مارکس کی ان تعلیمات کو بھولے نہیں جو آج بھی پسماندہ طبقات کیلیے باعث نجات ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply