• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اپنی مرضی سے خریدے ہوئے ،کینسر اور دوسرے مہلک امراض ۔ ۔۔غیور شاہ ترمذی

اپنی مرضی سے خریدے ہوئے ،کینسر اور دوسرے مہلک امراض ۔ ۔۔غیور شاہ ترمذی

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم بغیر کسی جبر و لالچ کے  صرف اور صرف کچھ لوگوں کی دی ہوئی ترغیب اور دیکھا دیکھی خود کو کینسر سمیت گلے کی بیماریوں (thyroid)، ہیپاٹائیٹس سمیت جگر کے امراض کا شکار کر رہے ہیں۔ ان امراض میں پولی سٹک اوورین سنڈروم (Polycystic ovary syndrome ۔ PCOS) بھی شامل ہے جو ایک ایسی بیماری ہے جس میں خواتین معمول سے زیادہ مردانہ ہارمونز پیدا کرتی ہیں جس کے نتیجہ میں وہ حمل کے مرحلے سے نہیں گزر پاتیں۔ خواتین کے چہرے اور جسم پربننے والے کیل مہاسے، ڈپریشن اور بالوں کا گرنا بھی اسی وجہ سے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ان سب بیماریوں کا مرکز ہے ہمارا کچن یعنی باورچی خانہ۔

ٹیفلون

جی ہاں ہمارے کچن میں 5 ایسی چیزیں ہیں جو کینسر سمیت ان سب بیماریوں کے پیدا ہونے کا بنیادی مرکز ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک ہے نان سٹکنگ برتن (Non Stick Cookware)۔ اس طرح کے برتنوں پر پولی ٹیٹرا فلورو ایتھلین (Teflon) کی تہہ چڑھائی جاتی ہے تاکہ کھانے پکاتے وقت ان سے چمٹ نہ سکے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کوٹنگ کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے اور اس کے بہت چھوٹے چھوٹے سے ذرات ہماری خوراک میں شامل ہو کر ہمارے دماغ اور جگر کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اسے ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں تو نان سٹک برتنوں میں کسی چیز  کو اتنا گرم کیجیے جتنا آپ کھانا پکاتے وقت کرتے ہیں اور لیبارٹری سے اس کا ٹیسٹ کروا لیجیے۔ اس میں کیڈمئم (cadmium) اور پارہ (mercury) کے ذرات مل جائیں تو سمجھ لیں کہ آپ اپنے دماغ اور جگر کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ اس کا سادہ سا حل یہی ہے کہ نان سٹکنگ برتن چھوڑیں اور اس کی جگہ کاسٹ آئرن یعنی ڈھلوان لوہے کے برتن استعمال کرنا شروع کریں۔ لوہے کے برتنوں کا عمومی استعمال تو اس میں پیدا ہونے والے زنگ (Rust) کی وجہ سے بہت کم ہے۔ تاہم توے، کڑاہی اور فرائنگ پین کی صورت میں یہ ہمارے باورچی خانوں کی زینت ہیں۔ ان برتنوں کے استعمال کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ان پر زنگ موجود نہ ہو۔ اس لیے انہیں دھونے کے بعد اچھی طرح خشک کر لینا بہتر ہے۔ اسی طرح لوہے کے زنگ آلود چمچ، چھُری اور کانٹے وغیرہ بھی  استعمال نہیں  کرنے چاہئیں۔ تام چینی کے برتن بھی بنیادی طورپر لوہے کے ہی بنے ہوتے ہیں اور ان پر پورسلین کی تہہ چڑھائی جاتی ہے۔ یہ برتن نسبتاً بہتر ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ حرارت کو بہت اچھی طرح سے جذب کرتے ہیں۔ اگر ان برتنوں کو ٹھیس لگتی ہے، تو ان کا اوپری روغن اتر جاتا ہے۔ جس کے باعث یہ بہت بدنما لگتے ہیں۔ اس لیے ان برتنوں کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ تام چینی کے برتن صاف کرنے کے لیے آدھے گھنٹے کے لیے صابن ملے گرم پانی میں بھگو دیں، پھر نمک اور بیکنگ سوڈا ملاکر مانجھ لیں، چمک جائیں گے۔

ایلومینیم

دوسری خطرناک چیز جو ہم اپنے کچن میں اپنے اندر بیماریاں پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ہے ایلمونیم کے برتن۔ بدقسمتی سے ہمارے کچن میں ایلمونیم کے برتن اس لیے پہنچے کیونکہ ایلمونیم بہت سستی دھات ہے اور بہت آسانی سے دستیاب ہوتی ہے۔ یوں کہہ لیں کہ چونکہ آسانی سے دستیاب ہے، اس لیے سستی ہے۔ ایک اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ برطانوی دور میں جیل قیدیوں کو کھانا ایلمونیم کے برتنوں میں دیا جاتا تھا کیونکہ یہ ایک عام خیال تھا کہ ایلمونیم آہستہ آہستہ اثر کرنے والا زہر ہے جو انسانی جسم میں غیر محسوس طریقہ سے داخل ہو کر ہمارے گردوں اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایلمونیم کا ایک برتن لیجیے۔ اس کا وزن کریں اور جب 3/4 سال تک استعمال کر لیں تو اس کا دوبارہ وزن کر کے دیکھیں تو آپ جان پائیں گے کہ اس وزن میں کافی کمی واقع ہو چکی ہے کیونکہ کھانا پکانے اور گرم  کرنے کےدوران ایلمونیم کے باریک ذرات آپ کے کھانے کا حصہ بن کر اب آپ کے جسم میں سرائیت کر چکے ہوں گے اور اپنی مُضر رسانی شروع کر چکے ہیں۔ ایلمونیم سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں ان برتنوں کو اسٹین لیس سٹیل کے برتنوں کی طرف منتقل ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ اُن نقصانات سے محفوظ ہیں جو ہمیں ایلمونیم کے برتنوں کے استعمال کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں۔ اسٹین لیس سٹیل کو لوہے، نکل اور دیگر دھاتوں کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ ان برتنوں کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ برتن بہت جلد گرم ہو جاتے ہیں، لیکن جب حرارت یکساں نہیں پھیلتی تو ہنڈیا لگنے اور جلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کو دور کرنے کے لیے ان برتنوں میں تانبے کی تہہ لگائی جاتی ہے۔ جس سے کافی حد تک کھانا محفوظ رہتا ہے۔ اسٹین لیس سٹیل کی جلی ہوئی پتیلی یا دیگچی کو صاف کرنے کے لیے اس میں مٹھی بھر نمک اور پانی ڈال کر تین چار گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں، پھر نمک اور پاؤڈر ملا کر صاف کر لیں۔ اگر برتن زیادہ جلا ہوا ہو تو نمک ڈال کر آٹھ سے دس گھنٹے کے لیے بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس سے جلی ہوئی تہہ اتارنے میں آسانی ہوگی۔

المونیم فوئل

تیسری خطرناک چیز جو ہم آج کل بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں وہ ہے ایلمونیم فوائل کا استعمال۔ گرم گرم کھانے کو ایلمونیم فوائل میں پیک کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ ترسیل کیا جاتا ہے۔ خصوصا’’ عرب ممالک اور ہوٹلوں میں ان کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی صحت سے متعلق ادارہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پوری زندگی میں انسانی جسم میں 50 ملی گرام سے زیادہ ایلمونیم موجود نہیں ہونا چاہیے۔ جب ہم ایلمونیم فوائل میں گرم کھانا پیک کر کے استعمال کرتے ہیں تو ہمارے جسم میں ایک سے دو گرام ایلمونیم تو پہنچ ہی جاتا ہے جس کا ہمارے جسم سے اخراج کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہم اگر 2 سے 3 درجن دفعہ ایلمونیم فوائل والا پیک کھانا استعمال کر چکے ہیں تو اپنی ساری زندگی کے لیے ایلمونیم کا کوٹہ پورا کر چکے ہیں اور مزید جتنا بھی استعمال کریں گے، اس سے جان لیوا بیماریاں ہی اپنے اندر پیدا کر رہے ہوں گے۔ ایلمونیم فوائل کا زیادہ استعمال کرتے ہیں تو ہم کھانے میں موجود زنک (Zinc) سے محروم ہو جاتے ہیں جس سے ہمارے دماغ کی چُستی اور بیماریوں کے خلاف مدافعت شدید متاثر ہوتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہمیں ایلمونیم فوائل کی جگہ صاف کاغذ یا بٹر پیپر کا استعمال کرنا چاہیے۔

پلاسٹک

چوتھی سب سے خطرناک چیز جو ہم اپنے اندر بیماریاں پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ ہیں پلاسٹک برتنوں کا استعمال۔ پلاسٹک کے برتن سستے، ہلکے پھلکے اور دیدہ زیب بھی ہوتے ہیں۔ آج کل ان کا استعمال فریج اور اوون وغیرہ میں زیادہ کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کے برتن اور بوتلوں کی تیاری میں ایک کیمیکل بی پی اے یعنی (Bisphenol A) کا استعمال کیا جاتا ہے جو نہایت ہی خطرناک ہے، بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ان برتنوں کی تیاری میں بی پی ایس یعنی (Bisphenol S) استعمال کیا گیا ہے۔ ہر گز بھی اطمنیان نہ محسوس کیجیے گا کیونکہ یہ بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسا بی پی اے۔ اس طرح کے کیمیلز سے ہمارے جسم کا مدافعتی نظام، ہمارے ہارمونز کا بیلینس شدید متاثر ہوتا ہے۔ اس طرح کے کیمیکلز ہمیں بہت جلدی موٹا بھی بنا سکتے ہیں کیونکہ جب ہم گرم گرم کھانا کسی پلاسٹک کے ڈبے میں ڈالتے ہیں تو اُس سے جو کیمیکل  خارج ہوتا ہے وہ ہماری انسولین حساسیت کو کم کرتا ہے جس سے ہمارے جسم میں بلڈ  شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ بلڈ شوگر بڑھنے کی وجہ سے ہمارے جسم میں موٹاپے کے سیلز (Fat Cells) بنتے ہیں اور ہم موٹے ہوتے جاتے ہیں اور ہمیں شوگر (diabetes) کا مرض ہونے کے خطرات بھی لاحق ہو جاتے ہیں۔ مائیکرو ویو اوون میں بھی پلاسٹک کے برتنوں کا استعمال کرنا یا ان برتنوں میں گرم چیز رکھنے سے بہت زیادہ گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح اس میں موجود ایک اہم مادہ (DIOXIN) ڈائی اوکسن کینسر یعنی سرطان جیسے موذی مرض کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس طرح پلاسٹک کی تھیلیاں بھی حرارت پاتے ہی اس میں رکھی گئی چیز کے لیے نہایت خطرناک ہو جاتی ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ ہمیں پلاسٹک کے برتنوں کی جگہ اسٹین لیس سٹیل کے ایسے برتن استعمال کرنے چاہئیں جن پر تانبے  کی تہہ چڑھی ہوئی ہو۔ اس کے علاوہ شیشے اور چینی کے خوب صورت برتن بھی تقریباً ہر گھر کی زینت ہوتے ہیں۔ انہیں کھانے پکانے وغیرہ میں تو استعمال نہیں کیا جاتا، البتہ کھانا فرج میں رکھنے، رکابی یا پلیٹ کے طور پر ان کا استعمال عام ہے۔ بالخصوص چائے یا کافی اور دیگر مشروبات کی پیالیاں یا گلاس شیشے یا چینی کے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ چٹخے ہوئے نہ ہوں۔ کثرت استعمال کے دوران شیشے یا چینی کے جن برتنوں میں بال پڑ جائے تو ان کا استعمال ترک کر دینا چاہیے کیونکہ پھر برتن صحیح طرح دھل نہیں پاتے اور چٹخی ہوئی جگہ جراثیموں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ شیشے کے برتن اگر چمک نہ رہے ہوں تو خاصے بدنما سے لگتے ہیں۔ ان کو چمکانے کے لیے سرکہ اور واشنگ پاؤڈر ملے پانی میں بھگونے کے بعد کسی نرم برش سے صاف کر لیں۔ چینی کی پیالیوں سے کافی کے دھبے دور کرنے کے لیے ہلکے سے نم کپڑے میں میٹھا سوڈا لگا کر صاف کریں۔

انسانی تہذیب میں سب سے قدیم رواج مٹی کے برتنوں کا ہے، جو ہمارے دیہاتوں میں آج تک جاری ہے اور شہروں میں بھی کچھ عرصے پہلے تک ان کا استعمال عام تھا۔ مگر آج کل کی زندگی میں جو برتن استعمال پوتے ہیں وہ ایک طرف ہماری کھانے پینے کی ضروریات پوری کرتے ہیں، ہمارے دسترخوان اور باورچی خانے کی آرائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کا چناؤ کرتے ہوئے ہم انسانی صحت پر ان کے مضر اثرات کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ عمل ہمارے لیے اوپر بیان کیے گئے مسائل اور شدید مضر بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا برتنوں کے انتخاب سے استعمال تک ان تمام چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں۔

ریفائن آئل

آخری مگر خطرناکی میں کسی بھی طرح ان سب کے برابر چیز جو ہمارے کچن میں وہ ہے ریفائنڈ تیل جس سے ہم خود کو مضر ترین بیماریوں کا شکار بنا رہے ہیں۔ جی ہاں، آپ نے بالکل صحیح پڑھا ہے۔ وہ خوردنی تیل جس میں ہم اپنے کھانے فرائی کرتے ہیں اور پکوڑے، سموسے تل کر استعمال کرتے ہیں۔ اسے ریفائنڈ آئل کہتے ہی اس لیے ہیں کیونکہ جب اسے تیار کیا جاتا ہے تو اسے تیزاب کے ذریعہ صاف کیا جاتا ہے۔ اس کی بُو کے خاتمہ کے لجے اس میں تیز مضر رساں کیمیکلز استعمال کیے جاتے ہیں جن میں سب سے خطرناک کیمیکل ہیکسانول (Hexanol) ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ جب ہم زیادہ عرصہ تک اس تیل کا استعمال کرتے ہیں تو ہم دل کے امراض اور کینسر کا آسانی سے شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم ریفائنڈ آئل کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر پکاتے ہیں تو وہ آکسیڈائیز ہو جاتا ہے اور اس آکسیڈائیزیشن کے عمل سے یہی ریفائینڈ آئل ٹرانس فیٹ (Trans Fat) میں تبدیل ہو جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے بہت ہی مضر اور نقصان دہ ہیں۔ اس کا بھی آسان اور سادہ حل یہی ہے کہ ہم کھانا پکانے کے لیے ریفائنڈ آئل کی جگہ قدرتی زیتون کا تیل استعمال کریں۔ اگر قیمت کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر ہمیں سرسوں کے تیل کے استعمال کو اپنا لینا چاہیے۔ سرسوں کے تیل کو استعمال کرنے کے فوائد یہ ہیں کہ اس کے اندر کولیسٹرول کم کرنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ اس کے اندر اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور اس میں سیچوریٹڈ فیٹ (saturated Fat) بھی کم ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ مہلک بیماریاں بانٹنے والے ہیں وہ پانچ (5) عوامل اور اُ ن سے بچاؤ کے طریقے۔ اگر ہم چاہیں تو ان سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور اگر نہ چاہیں تو یونہی ہنسی خوشی پیسے دے کر ان بیماریوں کو اپنے اندر پھیلانے کی کوششیں جاری رکھ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply