بدلتے رنگ اور کتے کے آنسو ۔۔۔ محمد اشتیاق

ایک باریش دوست  جو ریاست مدینہ کے خواب دیکھا اور دکھایا کرتے تھے، جن سے حضرت عمر (ر) کی زندگی کے بارے پتہ چلتا تھا آج ان کے لئے لاہور ایئرپورٹ پہ شراب بیچنے کی اجازت نان ایشو ہے اور ان کے نزدیک اس کا ذکر ہمارا خان صاحب سے حسد ہے۔ بقول ان کے خان صاحب کی “کامیابیاں” ہم سے ہضم نہیں ہو رہیں۔ 

سانحہ ماڈل ٹاون کے ذمہ داران کی پھانسی کا مطالبہ کرنے والے ایک ایکٹوسٹ  دوست کے لئے ذیشان کے دہشت گرد “ثابت” نہ ہونے پہ حکومت کی طرف سے “معذرت” ان کے ساہیوال واقعے سے مبینہ طور پر دل پہ  لگنے والی “ٹھیس” پہ “مرحم” ہو گا۔ پھر بھی ان کے اس جہاد پہ ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ آج کل منافقت کرنا کون سا آسان کام ہے۔ اس سے ان کے کریڈٹ پہ “اپنی حکومت پہ تنقید” کا تمغہ آجائے گا جس سے وہ  مستقبل میں پیش آنے والے ماڈل ٹاون جیسے کسی واقعے پہ وزیر اعظم کی پھانسی کا مطالبہ کر سکیں گے بشرطیکہ حکومت اور وزیر اعظم پسندیدہ نہ ہو۔ 

سب سے حیران کن یورپ میں رہنے والے دوستوں کا رویہ ہے، جو یورپ کی سڑک پہ مرنے والے کتوں کی تجہیز و تکفین کی تفصیلات ایسے بیان کرتے تھے کہ اس ملک میں رہنے والے انسانوں کے دلوں میں اپنے جنم کے بارے میں تبدیلی کی خواہش جنم لینے لگتی ہے۔ ان کی جانوروں سے رحم دلی کے قصے سن سن کے یہاں ہونے والے انسانیت کی بے قدری سے دل جلتا تھا۔ لیکن ساہیوال واقعے نے ان کی آنکھیں بھی کھول دیں۔ ان کا آسمان بھی ٹانگوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا دوبارہ سر پہ ایستادہ ہونے کی کوشش میں ہے۔ اب کی دفعہ خبر آئی ہے کہ 4 جیتے جاگتے انسانوں کا سیٹ بیلٹ بندھے ہوئے، التجا کرتے ہوئے، بند گاڑی میں قتل ہونا کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو یورپ میں نہیں ہو سکتا۔ ہم انگشت بدنداں، سوچ رہے ہیں کہ یہ کھلا “تضاد” نہیں ہے کہ جب کتا مرنے والی مثال دی جاتی تھی تو ساتھ یہ بھی لکھ دیتے کہ بھائی کتا تو بچا لیتے ہیں لیکن 3،4 بندوں کو گاڑی میں قتل بھی ہو سکتا ہے یورپ میں۔ کم سے کم ہم احساس کمتری کا شکار تو نہ ہوتے۔ 

ان دانشوروں کے “لیتڑے” مختلف خبریں بطور ثبوت لا رہے ہیں کہ دیکھیں 911 کی گاڑی سے ایک “کتا” مر گیا اور ایسے واقعات مہذب معاشروں میں ہوتے رہتے ہیں۔ دل بہت دکھا، پاکستان میں انسانوں کے حکومتی اداروں کے ہاتھوں قتل کی تو خیر ہے، یورپ میں کتے بھی حکومتی اداروں کی گاڑی کے نیچے آ کہ مارے جاتے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا؟ بس یہ گلہ ہے کہ ہمیں یہ علم اس وقت دینا چاہیے تھا جب پچھلے دور میں کتے بچانے کی تفصیل لکھ کے بتایا جاتا تھا کہ ہم پاکستان میں کیسے “کتوں” سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔  اب  4 بندوں کے قتل کے معمولی واقعے سے ہمارے دوبارہ “اشرف المخلوقات” بننے کی راہ تو ہموار ہوئی۔ امید ہے کہ حکومت ایسے ہی معاملات ہینڈل کرتی رہی تو ایسے دو تین واقعات کے بعد ہم یورپ کے برابر آ جائیں گے۔

یہ تو عام انسان ہیں، عوام۔ مجھے تو پریشانی وزیر اعظم کی ہے۔ معافی چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ پھر مثال کتے کی ہی آ گئی۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے خاتون اول سے لے کے میرے جیسے عامی تک اس کے علاوہ کوئی مثال ذہن میں نہیں آتی۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب جو پودوں کو پانی نہ ملنے پہ دکھی ہو جاتے تھے خاتون اول جو مذہبی طور پہ کتوں کو نحس سمجھتی تھیں لیکن ایک “کتے” کی آنکھ میں آنسو دے کہ اپنے مذہبی نکتہ نظر میں تبدیلی پیدا کر کے اسے گھر میں رکھنے پہ آمادہ ہو گئیں آج 3 بچوں کے کپڑوں پہ خون دیکھ کہ کتنی دکھی ہوئی ہوں گی۔ کچھ نہیں کر سکتیں تو اتنی دلچسپی تو لے لیں جتنی مانیکا صاحب کی بیٹی کو چیک پوسٹ پہ روکنے پہ لی تھی۔ یہ بھی نہیں کرسکتیں تو کتے کے بارے میں اپنے خیالات ہی بدل لیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply