محبت ہی آپ کی آخرت ہے۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

پچھلے چند دنوں سے طبیعت میں بے چینی, کسلمندی اور گھبراہٹ سی تھی۔ ایک پل کو یوں لگا کہ کسی انہونے ڈیپریشن کا شکار ہو رہا ہوں۔ 31 دسمبر کو روٹین کے مطابق گھر سے نکلا کہ آفس کا چکر لگاؤں گا۔ نماز جمعہ ادا کروں گا اور پھر واپس آ جاؤں گا۔ میں اکثر نماز جمعہ دربار شریف حضرت بہاؤالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پہ ادا کرتا ہوں۔ ابھی آفس پہنچا ہی تھا کہ خیال آیا کہ پاکپتن شریف حضرت بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دی جائے۔ خیال کیا تھا, ایک طاقت تھی جو بابا جی کی طرف کھینچ رہی تھی۔ جو لوگ بابا صاحب کی خدمت اقدس میں اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بابا حضور محبت کا جواب عشق سے دیتے ہیں جو ایک بار ان کے در پہ حاضر ہوا وہ بس انہی کا ہو گیا۔ میرا چونکہ اکثر آنا جانا رہتا ہے تو مجھ سے محبت بھی اسی ہی شدت کی ہے۔ ہر حاضری پہ یوں لگتا ہے کہ ملنے کا بلاوہ ہے۔ کل کی دعوت اتنی الفت آمیز تھی کہ گھر سے کپڑے تک اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی کہ کہیں لیٹ نہ ہو جاؤں۔ ایک عزیز دوست کو ساتھ لیا اور روانہ ہو گئے۔ ملتان سے ڈھائی گھنٹے کی ڈرائیو پہ پاکپتن شریف ہے۔ شاید دو بجے نکلے اور ساڑھے چار بجے پہنچ گئے۔ پتہ نہیں میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پاکپتن شریف میں داخل ہوتے ہی میرے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ دربار شریف میں داخل ہوتے ہی کپکپی سی طاری ہونے لگتی ہے۔ ڈر کا اثر ہے یا شاید والہانہ محبت کا کہ ایک بیخودی سی چھا جاتی ہے۔ پارکنگ لاٹ سے نکل کر چند پھولوں کے ہار خریدے اور دربار شریف میں داخل ہو گئے۔
( کسی بھی بزرگ کی خدمت میں حاضری کا بہترین اصول ہے کہ آپ بزرگوں کیلئے گلاب کا تحفہ ضرور لے کر جائیں کیونکہ خوشبو اور گلاب تمام بزرگوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ اور تمام بزرگوں نے عمر بھر محبتیں بانٹیں اور سرخ گلاب کو کائنات میں محبت کے نام سے جانا جاتا ہے) اس لیے جب بھی کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوں تو گلاب ضرور لیکر جائیں )۔

دربار کی پُرشکوہ عمارت میں داخل ہوئے اور سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے احاطے میں داخل ہو گئے۔ میری عادت ہے کہ ادھر اُدھر دیکھنے کی بجائے میں سیدھا مزار اقدس پہ حاضری دیتا ہوں۔ کل جمعہ مبارک کی وجہ سے کافی رش تھا۔ کچھ دھکم پیل بھی ہوئی لیکن پھر اچانک ایک باریش جوان مہربان دربان میری طرف لپکا اور ہاتھ پکڑ کے مرقد مبارک کے قدموں کی طرف جگہ خالی کروا کے ایک کونے میں بٹھا دیا کہ جتنی دیر مرضی بیٹھیں۔ ایک پل کو یوں لگا کہ وہ شاید میرے انتظار میں تھا۔ خیال آتے ہی بدن نے جھرجھری لی اور میں سرتاپا لرز گیا کہ کہیں تکبر کا شکار نہ ہو جاؤں ۔خوف نے خیال کو روند ڈالا اور خیال بجلی کے کوندے کی طرح جیسے آیا تھا ویسے  غائب ہو گیا۔

میں پُرسکون ہو گیا۔ آنکھیں بند کیں , سر جھکا کے, چہرے پہ چادر ڈال کے تلاوت میں مشغول ہو گیا۔ کبھی دل ہی دل میں بابا حضور سے باتیں کرنے لگ جاتا اور خود ہی سوال کرتا, خود ہی جواب دیتا ۔ اس والہانہ کیفیت میں دو گھنٹے گزر گئے۔ روح و بدن کیف و نشاط کے نور میں نہاتے ہوئے نہال ہو چکے  تھے ۔ ابھی جذب کی اس کیفیت کو انجوائے کر ہی  رہا تھا   کہ کسی اور خدمتگار دربان نے چادر میرے گلے میں ڈالی اور ہاتھ پکڑ کے کھڑا کر دیا ” کہ چلو ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔ ”

مجھے الجھن ضرور ہوئی لیکن ان ہستیوں کے دربار میں چوں چراں کی گنجائش نہیں۔ الوداعی ملاقات کر کے باہر نکلا تو کسی نے پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دیا۔ ویسے بھی یہ میری خوش قسمتی ہے کہ کسی بھی دربار پہ حاضری دوں تو واپسی پہ ایک چادر اور پھولوں کا ہار ضرور تحفے میں ملتا ہے۔ گھر میں اچھا خاصہ اسٹاک جمع ہو چکا ہے، بلکہ ایک بار بڑا دلچسپ واقعہ ہوا کہ ہم دو دوست حضرت داتا صاحب کے دربار پہ حاضری دینے گئے۔ حاضری کے بعد جیسے ہی پیچھے ہٹے تو دربان نے ایک ہار میرے دوست کے گلے میں ڈال دیا لیکن مجھے نظرانداز کر دیا۔ مجھے یہ بات بہت چھبی لیکن میں خاموش رہا۔ مرقد مبارک سے پیچھے ہٹ کے منہ بسورے روٹھ کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا ۔دل ہی دل میں بس اتنا کہا کہ ” حضور مجھے بھول گئے۔ ”
آپ یقین کیجئے کہ لمحوں میں ہی دربان ہاتھ میں ہار اور چادر لیے میری طرف آیا اور مسکراتے ہوئے دونوں چیزیں میرے گلے میں ڈال دیں۔۔۔ جبکہ میں اس وقت کافی دور کھڑا تھا۔۔ دوست جنہیں ہم بابا اقبال کہتے ہیں وہ اب بھی کبھی کبھی اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔

زندگی میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جہاں انسانی عقل جواب دے جاتی ہے ۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک ایک پل Decided ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔۔۔ ؟ کہاں جانا ہے۔ ؟ لیکن کبھی کبھی تقدیر اور تدبیر آڑے جاتی ہے۔
تدبیر کو ہم بہت آسان لفظوں میں یوں کہہ  سکتے ہیں  کہ اگر ہم چلنا شروع کرتے ہیں تو پہلا قدم تدبیر سے اٹھاتے ہیں کہ ہم نے کہاں جانا ہے ؟ کتنا چلنا ہے لیکن پہلا قدم اٹھنے کے بعد تقدیر سامنے آجاتی ہے کہ قدم اٹھنا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ  مشیت ایزدی کے سامنے تقدیر غائب ہو جاتی ہے اور کبھی کبھی تدبیر بھی غائب ہو جاتی ہے ۔یہ وہ لمحہ ہوتا جب آپ بیخودی کی حالت میں زمان و مکان سے آزاد محو سفر رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس ساری کہانی محبتوں کی ہے۔ یہ دنیا, یہ کائنات, یہ 18 ہزار عالمین محبت کے وجود سے ہی قائم ہیں۔ رب تعالیٰ سراپا محبت ہے۔ انسان بھی سراپا محبت ہے۔ رب تعالیٰ کے دوست محبت کے رنگ میں اتنے رنگے ہیں کہ انہیں کسی قاتل, شرابی, زانی کے گناہوں سے کوئی غرض نہیں۔ بس ان کے در پہ پہنچ جائیں تو وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کے بڑی بڑی کچہریوں میں لے جائیں گے ۔۔ محبت کریں گے, دل میں محبت جگائیں گے اور معافی بھی دلوا دیں گے۔
بس محبت شرط ہے۔۔  محبت ہی دنیا  و آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔
محبت کیجیے
محبت بانٹیے
ایک زخمی کتے کے زخم  پر مرحم  لگا دیا  تو وہ بھی آپ کی آخرت میں کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
آپ کی انسانیت سے محبت ہی آپ کی آخرت ہے۔
اللہ رب العزت آپ کو دنیا و آخرت میں عزت عطا فرمائے۔ آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply