ایک حقیقی ریاست مدینہ کورونا وباء سے کیسے نمٹتی؟۔۔بدر غالب

ایک حقیقی ریاستِ  مدینہ کی بنیادی نشانی اس کے حکمران کا صرف اور صرف اللہ پر  تقویٰ تھا، کہ حقیقی ریاست مدینہ کا حکمران سب سے زیادہ امید، خوف اور محبت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہی رکھتا ۔ حقیقی ریاست مدینہ کا حکمران  اغیار کی ڈکٹیشن لینے کی بجائے ریاست مدینہ کے فیصلے قرآن اور احادیث کے احکامات کے مطابق ریاست کے اندر ہی کرتا۔

ریاست مدینہ کی سب سے بنیادی ذمہ داری ریاست کے زیرانتظام افراد کی جان و مال کا تخفظ ہے۔ اس میں بھی جان کو سب سے بنیادی فوقیت حاصل ہے کہ مال سے قصاص ادا کرکے جان بچ جائے تو بہتر ہے۔ کورونا وباء کے دوران بھی جان کی فوقیت مال سے کہیں بڑھ کر ہے کہ انسانی جان کا شاید کوئی نعم البدل نہیں۔

وبا  کے دوران ریاستی اور عوامی امور کا جمود کا شکار ہونا فطری بات ہے۔ حقیقی ریاست مدینہ کے حقیقی فرمانرواؤں اورعوام الناس کو اپنی معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو جانوں کی فوقیت کے اصول کے تحت محدود کرنا پڑتا، اور اس وقت تک ایسا ہی رہتا  جب تک کہ  وبا  کا زور ٹوٹ نہیں جاتا۔

اس دوران عوام کی بنیادی خوراک کا بندوبست کرنا حقیقی ریاست مدینہ کے حقیقی فرمانرواؤں کی ذمہ داری ٹھہرتا۔ اگر حقیقی ریاست مدینہ ایک زرعی ریاست ہوتی تو پھر تو خوراک کے مسائل سے نمٹنا بہت آسان ہو جاتا۔ زمانہ یوسف کی طرح وبا  کی ابتلاء کو ایک طرح سے قحط بھی متصورکیا جاتا، جس میں ہر گھرانہ چاہے وہ زمیندار ہو، یا کہ عام عوام، سب کے سب اپنی ضرورت کی زیادہ سے زیادہ صرف ایک سال کی فصل زخیرہ کر سکتے، اور باقی کی فصل ریاست مدینہ کے گوداموں کی زینت بنتی، جو کہ بوقت ضرورت ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتیں۔

تاہم حقیقی ریاست مدینہ کے اصل فرمارواء دراصل تقویٰ والے لوگ ہوتے، جن کو سب سے زیادہ امید، خوف اور محبت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتا، سو انہیں اغیار کی کسی ڈکٹیشن کی نہ تو کوئی پروا ہ  ہوتی، نہ ہی ان کے نظام حکومت کا حصہ کوئی بھی ایسا شخص ٹھہر سکتا، جو تقویٰ کے حقیقی معیار پر پورا نہ اترتا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی دوران معاشی جمود کا توڑ کم سے کم عوامی ملاپ کے ساتھ گھریلو صنعتوں کو فروغ دیا جاتا، اور سماجی نظام کو اس طرح سے ترتیب دیا جاتا کہ صرف ترسیل اشیاء اور انتہائی ضروری شعبہ جات کے لوگوں کو ہی وبا کے تھمنے تک باہر نکلنے کی اجازت ہوتی۔ اس طرح سے نا صرف یہ کہ معیشت کا پہیہ بھی کسی حد تک فعال رہتا بلکہ لوگوں کو ترسیلات اور اشیاء کی فراہمی بھی ممکن ہوتی رہتی ہے۔

Facebook Comments

بدر غالب
ماسٹر ان کامرس، ایکس بینکر، فری لانس اکاوٰنٹنٹ اینڈ فائنانشل اینیلسٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply