سنو لٹل مین/عامر حسینی

میں نے ولہم ریخ کی کتاب کا یہ عنوان اپنی اس تحریر پر اس لئے سجا لیا ہے کہ مجھے اس سے بہتر عنوان لگا ہی نہیں کہ کوئی اور دوسرا  اس تحریر کی پیشانی پر سجاتا۔
میں عید کے روز کہیں باہر کسی دوست سے ملنے جانا چاہتا تھا اور سفید براق کپڑے پہن کر باہر جانے ہی والا تھا کہ مجھے یاد آیا کہ اس چھوٹے سے شہر میں میرے جو بھی دوست تھے وہ تو رزق وافر مقدار میں ڈھونڈنے شہر سے ہجرت کر گئے اور میں بڑے شہر سے چھوٹے شہر میں پھر سے آبسا ہوں۔

میری تنہائی پسندی کی عادت مجھے اس چھوٹے سے شہر میں گھسیٹ لائی تھی،مگر اب یہ شہر بھی پھیل کر زندہ لوگوں کے قبرستان میں بدلتا جاتا ہے،آلودگی کا عذاب اب میرے پُرسکوں محلے کے پُرسکوں مکان تک آپہنچا ہے،شور کی آلودگی الگ سے مجھے پریشان کر رہی ہے۔
بڑے شہروں کی چیخ پکار سے وحشت زدہ ہوکر تو میں اپنے چھوٹے شہر میں پناہ گزین ہوا تھا مگر ترقی کا جن اس شہر کو بھی چیختا پکارتا نام نہاد شہر بنانے چلا ہے۔

یہ میں کیا قصے کہانیاں لیکر بیٹھ گیا ہوں میں تو آپ کو کچھ اور بتانے جارہا ہوں۔
ابھی چند رات سے ایک رات قبل میں نے بشریٰ سعید کا ایک ناول “سفال گر” پڑھا ۔
پھر اس سے قبل ایک اور ناول “مصحف”پڑھا یہ ناول نمرہ احمد نے لکھا تھا ۔

میں نے عمیرہ احمد کے ناول “پیر کامل “اور دوسرے کئی ایک پڑھے تو نہیں مگر کئی ایک کرائے کے کتب خانوں میں مَیں نے ان کتابوں کو سب سے زیادہ پڑھے جاتے دیکھا اور بک سٹوروں پر سب سے زیادہ ان کتابوں کو بکتے دیکھا۔

یہ کتابیں لکھنے والی خواتین ہیں مگر یہ خواتین یہ نہیں ہے کہ  کسی مدرسہ سے پڑھی ہوئی ہیں یا ان میں سے کسی نے اردو سمیت دیگر زبانوں کا بہترین ادب نہیں پڑھا یا ان لکھنے والی خواتین کا علم موسیقی ،آرٹ ،مصوری کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

بشریٰ سعید نے تو اپنے ناول کا انتساب ہی لیو ٹالسٹائی کے نام کیا ہے۔اس ناول میں اسنے کئی کرداروں کی حالت کا موازنہ کافکا کے کرداروں سے بھی کیا ہے۔بہت زیادہ گہرائی ہے-اور اس قدر روانی ہے اور جذبات کے ساتھ اس قدر دلکش فضاء ہے کہ آدمی کھوجاتا ہے۔خود کو وہیں آس پاس محسوس کرتا ہے،یقین جانیں  میں خود بھی ان ناولوں میں گم سا ہوگیا-مجھے کہیں کہیں لگا کہ یہ جادو گری اگر انگریزی زبان میں منتقل ہوجائے تو لوگ شائد پاؤلو کوہلو کو بھول جائیں گے۔

خواتین لکھاریوں کے سارے کردار جدید دنیا سے لئے گئے ہیں اور سب کردار کسی نہ کسی لحاظ سے اخلاقی بحران میں مبتلا ہیں اور مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں ایک یا دو کردار ایسے ہیں جو خدا اور مذہب پر کسی بھی لحاظ سے تشکیک کا شکار نہیں ہیں۔

یہ سارے ناول آخر کار قرآن اور اسلام کو پھر سے دریافت کرتے ہیں اور جادو نگری میں داخل ہوجاتے ہیں۔سب دکھوں سے نجات میسر آجاتی ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ ان ناولوں کو پڑھنے والے اور والیوں کی اکثریت وہ ہے جو دن بھر میں خوب محنت اور مشقت کرتے اور کرتی ہیں اور وہ کسی بھی لحاظ سے ایک مثالی زندگی نہیں گزار رہے وہ بھی ان کہانیوں کے سحر میں مبتلا ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان ناولوں کے اکثر قاری نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس نچلے درمیانے طبقے کے اندر میں ایک عجب سی نراجیت پر مبنی کرداری نفسیات پاتا ہوں جو انھیں پیشہ ور انقلابی بننے نہیں دیتی ۔

آپ حیران ہوں گے کہ پیر کامل کی مصنفہ کے ایک ناول اب دو سے تین لاکھ جلدوں میں چھپتا ہے،اور اس کی تحریروں کے حقوق حاصل کرنے کے لئے ناشروں میں ایک دوڑ  لگی رہتی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک قابل قدر حصہ ان تحریروں کے زبردست اثر میں ہے۔

یہ ناول کہیں کہیں موجودہ عالمی اور علاقائی اور ملکی سیاسی و سماجی صورت حال اور ایشوز کو بھی گھیر لاتے ہیں اور ان کی تعبیر بھی وہ ہوتی ہے جس کو مبارک احمد نرگسیت سے تعبیر کرتے ہیں لیکن ان خواتین لکھاریوں کے فن سے انکار کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

یہ لکھنے والیاں ممتاز مفتی ،اشفاق احمد ،قدسیہ بانو ،قدرت الله شہاب کے اسلوب میں بہت زیادہ بہتری لیکر آئی  ہیں اور ان کے قاری بھی ان سے زیادہ ہوگئے ہیں۔

ہم جب بھی ترقی پسندی اور روشن خیالی کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں اور ترقی پسند ادب کو آگے لیجانے کے نعرے مارتے ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ناول اور کہانی لکھنے میں اس طرح کا رکھاؤ پیدا کر لے جو ان خواتین لکھاریوں نے پیدا کر لیا ہے۔

آپ اس کو مقبول عام ادب کہہ کر ادب ماننے سے انکار کر ڈالیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں مرد اور خواتین اس ادب کو پڑھ رہے ہیں اور ان لکھاریوں کی کہانیوں کی ریٹنگ چینلز کو بھی مجبور کرتی ہے کہ وہ ان کو ڈرامائی شکل دیں۔

یہ ادب ہمارے سماج کی اکثریت پر اثر انداز ہوکر ان کی سوچ کو ایک خاص شکل دے رہا ہے،اور اس سوچ سے سماج میں توہم پرستی کو فروغ ،عقل دشمنی اور جدیدیت کے خلاف رد عمل پیدا ہورہا ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں ایک دور تک بہت کہنہ مشق کہانی کاروں اور افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کو پروان چڑھایا تھا اور ان کے فن کا لوہا عام قاری نے بھی مانا تھا۔

پریم چند،کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی ،رحمان مذنب،اور سب سے بڑھ کر سعادت حسن منٹو ،ابراہیم جلیس ،عصمت چغتائی کی کہانیوں اور افسانوں نے عام گھروں تک رسائی حاصل کی تھی ،لیکن دور حاضر میں چند کو چھوڑ کر کوئی افسانہ نگار اور کہانی کار نہیں جو ترقی پسند اور جدیدیت کی کہانی کو عام آدمی تک لیکر آجائے۔

اگر ساجد رشید،انوار احمد کی کہانیوں میں یہ دم ہے بھی تو وہ کبھی پاپولر ڈائجسٹ میں لکھنا پسند نہیں کریں گے،ساجد رشید تو مرحوم ہوگئے ان کا رسلہ نیا ورق پھر بھی ہندوستان کے اندر عام آدمی تک رسائی رکھتا تھا-ان کے بعد کوئی اور اس رسالے کو جاری نہیں رکھ سکا۔
ڈاکٹر انوار صاحب کے پاس لکھنے کا فن بھی ہے اور چٹکلی باتوں کا چٹخارہ بھی لیکن شائد وہ اپنی کہانی خواتین کے ڈائجسٹ اور سسپنس و جاسوسی میں بھیجنا پسند بھی نہیں کریں گے۔
کہانی بن کر اس کو ذرا پاپولر ٹچ دینا اس راہ پر کون آئے گا یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔

پکے ٹھکے ترقی پسندوں سے تو مستنصر جیسا غیر ترقی پسند لکھاری بہتر رہا جس کے ناول “راکھ “خس و خاشاک زمانے “اور سفر نامے “ماسکو کی سفید راتیں “نے بہت دلچسپ طریقے سے تقسیم کے المیے ،سرخ اشتراکیت “اور پاکستان کی ارذل نسلوں کا قصہ بیان کر ڈالا اور وہ مقبول ادیبوں میں تیسرے نمبر پر ہے اگرچہ اس کے ہاں ترقی پسندوں سے نفرت چھپائے نہیں چھپتی ۔

شاہد حمید کے افسانے کسی حد تک عام آدمی تک رسائی رکھتے ہیں،منشاء یاد کی کہانیاں کسان گھرانوں تک سفر کرتی ہیں لیکن زندہ ترقی پسند ادیبوں میں مجھے چند ایک ناموں کو چھوڑ کر مزید کوئی نام یاد نہیں آرہا جس کو میں پاپولر کہانی کار قرار دے سکوں۔
نئے لکھنے والوں میں کسی ترقی پسند کہانی کار کا نام لیتے ہوئے مجھے کافی دیر سوچنا پڑتا ہے۔
حفیظ خان کی کہانیاں عام آدمی تک رسائی رکھنے کی صفت سے آشنا ہیں اور ان کے حال میں چند ایک ناولوں میں مجھے ویسا کرنٹ نظر آیا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ ہم عام آدمی کے لئے بھی لکھیں جس کو حکمران طبقات “لٹل مین یا ڈاکٹر خالد سعید کے بقول “بالشتیا “کہتے ہیں اور اس لٹل مین کے لئے ایسی کہانی ،ایسا افسانہ ،ایسا ناول لکھیں جو لٹل مین کو خود اس کی حقیقت سے آشنا کرے۔
وہ اس کو خود فریفی میں مبتلا نہ کرے اور نہ ہی اس کی زنجیروں کو اور بھی تنگ اور سخت کر ڈالے۔
لیکن یہ ایسے خوبصورت اسلوب میں ہو کہ پڑھنے والا اس کے سحر سے باہر نہ نکل سکے-اور کہانی کہانی رہ جائے وہ پمفلٹ بازی میں نہ بدل جائے-
ولیم ریخ کہتا ہے:
“او لٹل مین سنو !
وہ تم کو لٹل کہتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ایک نئے عہد کا آغاز ہوچکا ‘عام آدمی کا عہد-مگر یہ تم نہیں کہتے (تم کہتے اور سمجھتے تو پھر واقعی یہ عام آدمی کا عہد ہوتا نا )

او لٹل مین !یہ تو خود کو عظیم قوم کہلانے والے اقوام کے نائب صدور ،ترقی کے بلند زینوں پر پہنچے مزدور اشراف ،سرمایہ دار خاندانوں کے ملول فرزندان ،مدبر اور فلسفی ہیں جو تمھیں فردا کی نوید تو سناتے ہیں لیکن تم سے تمہارے ماضی کے بارے میں نہیں سوال کرتے۔(ترجمہ :خالد سعید ،بس کچھ تبدیلی کی ہے میں نے استاد جی سے پیشگی معذرت- وہ فلسفی ایپی کیورسسے جاملے ہیں اور خوش رہنے کا حق پاچکے ہیں )
“تم صرف ایک معنی میں آزاد ہو -اپنی حیات کے خود حاکم بننے کی تعلیم سے آزاد ،خود احتسابی سے آزاد”
“تم بد ارادوں کے حامل نامردوں کو اور طاقتوروں کو بار بار اپنی نمائندگی کا حق دیتے ہو اور بہت دیر بعد تمھیں احساس ہوتا ہے کہ تم سے بار بار دھوکہ کیا جارہا ہے”

لٹل مین کو چھوٹے پن کی کیفیت سے باہر نکالنے والی اور اس کو ٹھیک معنوں میں آزاد کرانے والی کہانی ،افسانہ ناول ناپید ہے۔
لٹل مین کی خود آگہی والی کہانی ہی تو ترقی پسند کہانی ہوسکتی ہے-مگر ایسی کہانی لکھے گا کون۔میں تو یہی سوال عید کے دن لئے بیٹھا ہوں-باہر نہیں گیا۔

میں یہ نوٹ مکمل کر دیتا لیکن لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈاون ہوگئی اور لائٹ بھی چلی گئی۔جنریٹر کے شور میں کچھ لکھنے کو ویسے دل نہیں کرتا تو میں نے لیپ ٹاپ کو چارجنگ پر لگایا اور باہر نکل گیا۔

سڑک پر ناجانے کیوں لوگوں کا ہجوم مجھے لٹل مین کا ہجوم لگا اور میرے دل میں آئی کہ میں شہر کے چوراہے پر کھڑا ہوکر خطاب کروں اور پہلا فقرہ ہو
“او لٹل مین سن “مگر نہیں کہہ سکا اور نہیں کر سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے لگا خطاب کی نہیں کہانی ،ناول،افسانہ ،شعر اور بہت کلاس کی مووی یا ڈرامہ کی ضرورت ہے جو لوگوں کو جاکر جکڑ لے اور کہیں اور نہ جانے دے-لٹل مین تو اسی کے ظہور کا منتظر ہے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply