یورپ جہاں زندگی آزاد ہے۔۔۔۔۔۔میاں ضیا الحق/قسط9

زیوریخ- سویٹزر لینڈ
سوئٹزر لینڈ آمد سے پہلے اس کا نقشہ کھنگال کر یہ پلان کرچکا تھا کہ یہاں صرف وہ مقامات دیکھنے ہیں جو باقی یورپ سے الگ ہیں۔ شہری علاقوں کی بجائے ہل سٹیشنز اور ان میں سے بھی صرف ٹاپ ون کو چنا جائے۔ یہ کافی مشکل فیصلہ تھا کہ سوئیٹزر لینڈ کا ستر فیصد علاقہ ایلپس پہاڑی سلسلے میں ہے اور اس کے علاوہ اس میں چار اور ملکوں کے 14 شہر آباد ہیں، اور دس سوس شہر ہیں، جو دیکھنے میں یکساں خوبصورت ہیں۔ ان میں لوسرن، زرمٹ، اور سینٹ ماریٹز ٹاپ اٹریکشنز ہیں۔ لوسرن چونکہ ایلپس کے آغاز میں ہی واقع ہے اس لئے چھوڑ دیا حالانکہ خوبصورتی کے لحاظ سے سب سے خوبصورت شہر مانا جاتا ہے۔ اب زرمٹ اور سینٹ ماریٹز میں سے زرمٹ کا شہر نما قصبہ اس لئے چنا کہ یہ سب سے زیادہ بلندی پر واقع ہے اور یورپ کا سب سے بڑا پہاڑ Matterhorn یہاں واقع ہے۔ آبادی کم اور دھویں سے اتنا پاک کہ الیکٹرک کار استعمال ہوتی ہیں سوائے ایمبولینس کے۔ تیسری وجہ زرمیٹ جانے کے لئے تقریباً 70 فیصد ایلپس گزرنا پڑتا ہے جو کہ بذریعہ ٹرین برفیلے پہاڑوں، تیز رفتار دریاوں اور جھیلوں کے نظاروں سے بھرپور ہے جس کو دیکھنا خواہش تھی۔

یہ بھی پڑھیں :یورپ جہاں زندگی آزاد ہے ۔ حصہ ۸
اس کے مقابلے میں سینٹ ماریٹز برف پوش پہاڑوں میں گھرا ایک خوبصورت شہر ہے۔ جس کی آبادی 6 ہزار ہے اور نسبتاً کم بلندی پر واقع ہے۔ اس میں دو دفعہ ونٹر اولمپکس منعقد ہوچکے ہیں۔ ایک بڑی جھیل بھی موجود ہے۔ دوسری اہم بات سوئٹزرلینڈ کا سب سے مشہور پہاڑی پل جس کو Oberalp pass bridge کہا جاتا ہے اسی راستے میں آتا ہے۔ اس پل پر بہت ساری ہالی ووڈ فلمز بن چکی ہیں.

ان شہروں کے درمیان ایک سپیشل ٹرین بھی چلتی ہے جسے گلیشیئر ایکسپریس کہا جاتا ہے۔
فائنل پلان یہ تھا کہ پہلے زرمٹ اور پھر براستہ گلیشئر ایکسپریس سینٹ ماریٹز جایا بھی جایا جائے لیکن یکسانیت سے بچنے کے لئے ارادہ بدل دیا کہ اگلی دفعہ سہی۔
سویٹزر لینڈ کا باقی تیس فیصد حصے قدرے میدانی ہے جہاں ان سب سے بڑا شہر زیوریخ، سب سے مشہور جنیوا اور ان کا دارلحکومت برن اور دیگر چھوٹے شہر آباد ہیں۔

یورپ میں برف باری چونکہ جنوری میں شروع ہوتی ہے اس لئے اٹلی فرانس وغیرہ میں ابھی ٹھنڈے خشک موسم سے واسطہ پڑا تھا اور برف باری سویٹزر لینڈ کے اس پہاڑی سلسلے میں ہوچکی تھی۔

اس پہاڑی سلسلے میں دو بڑے شہروں زیوریخ اور جنیوا میں سے کسی ایک سے داخل ہوا جاسکتا ہے۔ اس لئے زیوریخ کا انتخاب کیا کہ پیرس سے وہاں کی ہائی سپیڈ ٹرین فوراً دستیاب تھی اور اس سے آگے ایلپس میں جانے کے لئے بھی لاتعداد ٹرینیں مل سکتی تھیں اور پھر واپس وینس (اٹلی) جانے کی ٹرین یہیں سے ملتی تھی۔

اس وقت سہہ پہر ہوچکی تھی۔ ایک گھنٹہ ہوٹل میں آرام کرنے کے بعد زیوریخ دیکھنے نکلا تو معلوم ہوا کہ یہاں سب سے منفرد چیز زیوریخ جھیل ہے جس کے ایک طرف عام عوام اور دوسری جانب شہر کے رئیس لوگ بڑی بڑی جاگیروں میں رہتے ہیں۔ اس جھیل سے دریائے لمات نکلتا ہے جو شہر کو مزید تقسیم کرتا آگے نکل جاتا ہے۔ ہوٹل اس دریا سے کوئی سو میٹر ہی دور تھا۔

دسمبرانہ سردی سے بچنے کے لئے وول کے کپڑے تن زیب کئے تو پھر بھی لگے کہ شاید کوئی بٹن کھلا رہ گیا ہے جو ہر چیز جمتی جارہی ہے۔ اتنی بے پناہ سردی سے پہلی دفعہ واسطہ پڑا تھا ۔ جب گوروں کو بھی کانپتے دیکھا تو تسلی ہوئی کہ میاں میں کوئی فالٹ نہیں ہے۔

آج یورپ انٹری کئے چھٹا دن تھا۔ پیزے پاستے کراسنٹ اور برگرز کھا کر پیٹ تو بھر رہا تھا لیکن طبعیت نہیں۔ حالانکہ پکا ارادہ کیا تھا کہ یورپ رہنا ہے تو یورپی خوراکیں ہی کھانی ہیں۔ گوگل پر سرچ کیا تو پاکستانی کھانے کا علی بابا ریسٹورنٹ 300 میٹر دور دکھائی دیا جہاں قورمہ نان موجود تھے۔ فورا ًفیصلہ کیا کہ ٹورازم پھر ہوتی رہے گی پہلے پیٹ کی سنو۔
https://youtu.be/_9ql0AvsBZk
وہاں پہنچا تو ترکش ویٹر نے استقبال کیا۔ جبکہ ایک ایشین شیشے کے ڈسپلے ریک میں دیسی کھانے رکھ رہا تھا۔ معلوم ہوا میاں بیوی مالک ہیں اور بنگلہ دیش سے ہیں۔ پاکستانی اردو سن کر وہ بھی آگئی تو آرڈر لکھوایا کہ مٹن قورمہ اور تازہ روٹی لانا۔ چند منٹوں بعد دو چپاتیاں اور قورمہ خوشبو بکھیرتا سامنے آیا تو لگا زندگی بدل گئی ہے۔ بسم اللہ اور شکر الحمداللہ کے درمیاں کوئی پانچ منٹ کا وقفہ ہی پڑا ہوگا۔ پوچھنے لگی کہ چائے تو ضرور پیو گے۔ لگا کہ دودھ والی چائے پئے بھی شاید مدتیں گزر چکی ہوں۔ 15 یورو ادا کرتے ہوئے ایسے ہی تسلی تھی جیسے دنیا خرید لی ہو۔

کھانے سے سیر ہوکر ٹرین سٹیشن سے ہوتا ہوا دریائے لمات کی طرف نکلا تو بازار اور گلیاں خوبصورتی سے سجی اب بھی نیو ائیر کا جشن منا رہی تھیں۔ یہ ایک الگ قسم کی سجاوٹ تھی جیسے روشنی کی کرنیں بازاروں میں گر رہی ہوں۔ درمیان سے گزرتی ٹرام اور کاریں منظر کو اور دلکش بنا رہی تھیں۔ شام کا وقت اور بڑھتی سردی سیاحوں کا رش کم کر رہی تھی۔ دریا کے پل پر گیا تو چرچ کی گھنٹیاں سنائی دیں جو کافی دیر ماحول کو یورپی یورپی بناتی رہیں۔ دریا پُرسکون طریقے سے چل رہا تھا جس میں چند بطخیں تیر رہی تھیں۔ سوچا کہ یورپین بطخیں ہیں ان کو پانی میں بھی سردی نہیں لگتی۔درجہ حرارت مزید گرنے لگا تو واپسی کی راہ لی کہ کہیں اور چلتے ہیں۔ ٹرام کا 2 زون اور ایک دن کا پاس 10 یورو کا ملتا ہے اور جھیل وغیرہ تک جانے کے لئے یہ پاس کافی تھا تو سوچا کہ ٹرام پر ہی شہر دیکھتے ہیں۔
بھلے وقتوں میں کسی نے سمجھایا تھا کہ شہر والی بس پر نمبر لگے ہوتے ہیں اگر غلط بس پر سوار ہوگئے ہو گھبرانا نہیں۔ اتر کر دوسری طرف سے اسی نمبر کی بس پکڑ کر واپس اسی جگہ پہنچ سکتے ہو جہاں سے چلے تھے۔ اسی فارمولے کی تحت بے فکر ہوکر پورا زیوریخ دیکھا اور ایک گھنٹے بعد واپس اسی جگہ پہنچ گیا جہاں سے چلا تھا۔
https://youtu.be/F5Y-F9qtc84

سردی کا واحد توڑ کافی ہی معلوم ہے تو پاس ہی ایک کافی شاپ سے کیپوچینو خریدی اور اندر کی بجائے باہر بنچ پر بیٹھ کر پینا زیادہ اچھا لگا کہ رونق تو باہر ہے۔
ابھی دو تین گھونٹ ہی لئے تھے کہ ایک نوجوان آتا دکھائی دیا۔ پاس آکر کچھ پوچھنے لگا۔ سوچا شاید ٹورسٹ ہے راستہ پوچھ رہا ہے۔ غور کیا تو کہہ رہا تھا “کوکا” ہے؟ تین دفعہ اسے سوری کہا کہ کوکا کولا اندر سے ملے گی شاید۔ کافی شاپ میں جاؤ۔کہنے لگا نہیں کوکا یعنی کوکین پوچھ رہا ہوں۔ شاید اتنا لپٹا ہوا میاں دیکھ کر اسے لگا کہ میاں پکا کوکین فروش ہے اور سردی کی وجہ سے نہیں شناخت چھپانے کی وجہ سے ہر چیز چھپائے پھررہا ہے۔ حد ہی ہوگئی بھئی۔
کافی نے کچھ سکون دیا تو سوچا کل کی ٹکٹیں لے لوں ٹرین سٹیشن تو سامنے ہی ہے۔
یورپ کے تمام بڑے ٹرین سٹیشن چھت والے یعنی ڈھکے ہوئے ہیں اور جس طرف سے ٹرینیں باہر نکلتی ہیں صرف وہ جگہ کھلی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ ایک بہت بڑے ہال کی طرح لگتا ہے جس میں چھوٹی دکانیں، ویٹنگ ایریاز اور ریلوے کے دفاتر موجود ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بکنگ آفس کے دروازے کے پاس ایک ڈسپلے بورڈ رکھا تھا جس پر نئے ڈسکاونٹس درج تھے۔ اندر ایک سوس لڑکی کھڑی سیاحوں اور مسافروں کو سمجھا رہی تھی کہ کہاں کہاں کیسے جانا ہے۔ میں نے اشارہ کیا کہ یہ بورڈ پر جو لکھا ہے میرے کس کام آسکتا ہے۔ اس نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا کہ باہر آنا ممکن نہیں ہے اندر آجاو کیونکہ سردی ہر ایک کو برابر لگتی ہے۔
سوس لوگوں کی اپنی کوئی زبان نہیں ہے۔ زیادہ تر سوس لوگ جرمن، کچھ اٹالین اور کچھ فرنچ بولتے ہیں۔ زیوریخ میں جو جرمن بولی جاتی ہے اسے سوس جرمن کہتے ہیں۔ ہلکی پھلکی انگلش اس کو بھی آتی تھی تو معلوم ہوا کہ یہاں ٹرینوں کے پاس زیادہ کارآمد ہیں اگر زیادہ دن کا قیام ہے۔ اس کو بتایا کہ اگر سردی سے بچ گیا تو میاں 3 دن یہاں رہے گا تو اس نے تین دن کا پاس بنا کر دے دیا جو پورے سویٹزر لینڈ میں ہر ٹرین پر کارآمد ہوگا۔ یعنی اب مجھے زیوریخ سے زرمٹ پھر زرمٹ سے زیوریخ اور پھر زیوریخ سے وینس کی الگ الگ ٹکٹ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ پاس اٹلی بارڈر تک کارآمد تھا اور وہاں سے پھر وینس کی ٹکٹ ٹرین سے ہی خریدی جاسکتی تھی۔
رات کے گیارہ بجے لگے تو ہوٹل واپسی کی راہ لی کہ صبح 9 بجے زرمٹ روانہ ہونا ہے۔
https://youtu.be/ZmFidEyYUiA

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply