ٹارگٹ،ٹارگٹ،ٹارگٹ ۔قسط8

ڈوبتے کو بانس کا سہارا!

پی ایم اے میں سوئمنگ کا آغاز کیا ہوا ،یار لوگوں کے لیے ایک نئی مصیبت کا دروازہ کھل گیا۔ ہم تو ٹھہرے ہی سدا کے نان سوئمرمگر ہمارے ساتھ اس صف میں کھڑے ہونے والے محمودوں اور ایازوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ سٹاف اور پلاٹون کمانڈر نے اس ٹولے پر خصوصی کرم فرمائی کا آغاز کیا۔ کھیل کے پیریڈ میں ہمارا علیحدہ فالن ہوتا۔باقی لوگ تو مزے سے کاسٹیوم پہن کر سوئمنگ پول میں چھلانگیں لگاتے جب کہ ہم کنارے پر لیٹ کر ڈرائی پریکٹس کیا کرتے۔ اس مشق میں ٹانگوں اور بازوں کو خشکی پر لیٹ کر سوئمنگ کے انداز میں آگے پیچھے حرکت دی جاتی۔ گھنٹہ بھر پریکٹس کے بعد جب ہمیں سوئمنگ پول میں داخل ہونے کا حکم ملتا تو جہاں چھلانگ مارتے وہیں پر ڈوب جاتے۔

چند دنوں کی اس بدمزہ کارروائی کے بعد پلاٹون کمانڈر ہماری بور قسم کی پرفارمنس سے اکتا گئے اور انہوں نے ہم لوگوں کو اونچے پھٹے سے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگوانے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب کو باری باری سیڑھیاں چڑھ کر ڈائیونگ بورڈ پر پہنچنا تھا اور سٹاف کے سیٹی بجانے پر سوئمنگ پول میں چھلانگ لگانا تھی۔ ایک وقت میں بورڈ پر دو کیڈٹس کے آگے پیچھے کھڑے ہونے کی گنجائش موجود تھی۔ پہلی باری ہمارے دوست حفیظ کی تھی جبکہ ہم اس کے عین پیچھے کھڑے تھے۔ سیٹی بجی تو حفیظ نے بجائے چھلانگ لگانے کے خوف کے مارے دو قدم پیچھے لیے اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ خوف اور پی ایم اے دو متضاد چیزیں ہیں۔ اگر ٹریننگ کے دوران کہیں اس بات کا شائبہ بھی ہو جائے کہ کیڈٹ کسی معاملے میں خوف کھاتا ہے تو اس کو اکیڈمی سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے۔

صورتحال بہت خطرناک رخ اختیار کر گئی تھی۔ نیچے سٹاف سیٹیوں پر سیٹیاں بجائے چلا جا رہا تھا مگر حفیظ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی۔ ایسے میں ہم نے فورا ً ایک انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور حفیظ کی پشت پر ایک زوردار لات رسید کی جس کے نتیجے میں وہ ایک جمپ لینے کے بعد اگلے ہی لمحے پانی کے اندر غوطے کھا نا شروع ہو گیا۔ دو تین ڈبکیاں کھانے کے بعد اس کے حواس بحال ہوئے اور اس نے پانی میں آڑھے ترچھے ہاتھ مارنے شروع کیے۔ کنارے پر پہلے ہی سے ایک سپاہی کو لمبا سا بانس تھما کر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد حفیظ کے ہاتھ پاؤں شل ہو گئے تو سٹاف نے حسبِ ہدایت بانس اس کی جانب بڑھایا جو اس نے فورا دبوچ لیا اور اس کی مدد سے اسے باہر کھینچ لیا گیا۔

اگلی باری ہماری تھی۔ ہم نے آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگائی اور غڑاپ سے سوئمنگ پول کے اندر جا گرے۔ ہوش آیا تو دھڑا دھڑ غوطے کھا رہے تھے اور اللہ کو یا د کر رہے تھے کہ اگر آج بچ گئے تو دوبارہ پانی سے سو کوس دور ہی رہا کریں گے۔ آٹھ دس ڈبکیاں کھانے کے بعد بانس ہماری جانب بڑھایا گیا اور ہم نے اسے تھام کر مشکل سے نجات پائی۔ ہمارے بعد اور لوگ آتے گئے اور یہ تماشہ اسی طرح جاری رہا۔ آخری باری ہمارے عزیز از جان دوست راحیل کی تھی۔ انہوں نے بھی اِسی طرح چھلانگ لگائی اور غوطے کھانے شروع کیے۔ ہم سب تھے تو نان سوئمر اس لیے خوداپنے زور پر کنارے پر آنا مشکل تھا ۔ ایسی حالت میں ڈوبتے کے لیے بانس کا سہارا ہی باقی رہ جاتا تھا۔ راحیل نے بھی کافی غوطے کھانے کے بعد بانس والے سپاہی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا۔ لیکن اس کم بخت کو بھی نہ جانے اس کھیل میں کیا مزہ آ رہا تھا کہ اس نے بانس بڑھانے میں ذرا جلدی نہیں کی۔ جب غوطے کھا کھا کر راحیل کی حالت بری ہو گئی تو پلاٹون کمانڈر نے بانس آگے بڑھانے کا حکم دیا۔

بانس راحیل کی جانب بڑھایا گیا تو اس نے گھبرا کر اسے اتنے زور سے کھینچا کہ سپاہی کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بانس سمیت اوندھے منہ سوئمنگ پول میں جا گرا۔ اب ایک کی بجائے دو افراد سوئمنگ پول میں غوطے کھا رہے تھے۔ راحیل نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ ہانپتے کانپتے اس سپاہی تک پہنچ کر اسے دونوں بازوں میں مضبوطی سے جکڑ لیا۔بیچارے سپاہی نے اپنے بچاؤ کے لئے بہتیرے ہاتھ مارے لیکن ادھر تو ’میں کمبل کو چھوڑتا ہوں لیکن کمبل مجھے نہیں چھوڑتا والا معاملہ تھا‘۔ قبل اس کے کہ صورتحال مزید خراب ہوتی پلاٹون کمانڈر نے سوئمنگ جاننے والے ایک لائف گارڈ کو حکم دیا جس نے ان دونوں کوکھینچ کھانچ کر سوئمنگ پول سے باہر نکالا۔ راحیل اور وہ سپاہی یک جان دو قالب بنے ہوئے تھے جنہیں بمشکل ایک دوسرے سے علٰیحدہ کیا گیا۔

پانچ سال کا آڈِٹ!
2007 کا دسمبر بھی حسب معمول ستم گر ثابت ہوا۔ ہمیں ان دنوں آرٹلری کی ایک مایہ ناز یونٹ میں خدمات انجام دینے کا شرف حاصل تھا جو ایف سی این اے کے بلند و بالا پہاڑوں پر ڈیرہ جمائے ہوئے تھی۔ یونٹ لاہور میں چار سال کاطویل عرصہ گزارنے کے بعد حال ہی میں وہاں پہنچی تھی۔ موسم انتہائی شدیدتھا اور سردی نے چاروں طرف اپنے ڈیرے جما لئے تھے۔میلوں میل برف پڑ چکی تھی اور خون تھا کہ رگوں میں جما چلا جاتا تھا۔ ہم ایک فارورڈ گن پوزیشن پر بحیثیت بیٹری کمانڈرتعینات تھے ۔ ہمیں اس یونٹ میں تقریبا سات ماہ کا عرصہ گزارنے کے بعد سٹاف کورس کے لیے کوئٹہ رپورٹ کرنا تھی۔ ہماری بھرپور کوشش تھی کہ یہ عرصہ زیر زمین بلکہ زیر رضائی رہ کر یاد الٰہی میں بسر کیا جائے تاہم اللہ تعالی کو اس کے برعکس کچھ اور ہی منظور تھا۔
انگریزی محاورے کے مطابق
one fine morning
ہمارے لیے قیامت کا پیغام لے کر طلوع ہوئی۔ایڈجوٹنٹ نے مطلع کیا کہ سی او نے ہمیں فی الفور یونٹ ہیڈکوارٹر میں طلب کیا ہے ۔ ہم نے غرض و غایت دریافت کی تو جواب ملا کہ تفصیل صرف سی او کو معلوم ہے اور وہ آپ سے مل کر ہی بتائیں گے۔ جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے سفر کا آغاز کیا اور چار گھنٹے کے بعد ہیڈکوارٹر پہنچے۔سی او اور ٹو آئی سی پہلے سے ہی میس میں بیٹھے ہمار ا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی چائے کا آرڈر دیا گیا۔ سی او کے چہرے پر گہری پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ ہم نے پہلے کبھی انہیں اس قدر پریشان نہیں دیکھا تھا۔ چائے آئی تو انہوں نے بتایا کہ آج صبح انہیں ایک لیٹر موصول ہوا ہے جس کے مندرجات کچھ یوں ہیں کہ ’’آپ کی یونٹ کا پچھلے پانچ سال سے آڈٹ نہیں ہوا جو کہ ایک نہائت غیرمعمولی بات ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یونٹ کا سپیشل آڈٹ کیا جائے ، جس کے لئے آڈٹ کے محکمے کے بالا افسران پر مشتمل ٹیم عنقریب یونٹ کا وزٹ کرے گی۔‘‘

ایسے میں سی او کا پریشان ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ ہم نے بھی ’پیچھے اس امام کے‘ پریشانی کو پہلے خود پر پوری طرح سے طاری کیا اور پھر سی او کی ڈھارس بندھانے کی ابتدا کی۔ ٹو آئی سی نے چھوٹتے ہی کہا کہ ہم نے یہ آڈٹ کر وانے کی ذمہ داری آپ کے سپرد کر دی ہے اور اسی لیے آپ کو یہاں طلب کیا گیا ہے۔ہمیں ٹو آئی سی سے کچھ اسی قسم کی بات کی توقع تھی اس لیے زیادہ پریشان نہیں ہوئے۔ بہرحال ان سے اجازت چاہی اور فی الفور کام کا آغاز کر دیا۔ تمام کلرک اور چارج ہولڈر حضرات کو اکٹھا کیا اور آڈٹ کے لیے درکار دستاویزات مکمل کرنا شروع کر دیں ۔ اس کام میں ہمیں ایک ہفتہ لگا اور ٹھیک آٹھویں دن سپیشل آڈٹ ٹیم آن موجود ہوئی۔ ٹیم کی سربراہی آڈٹ کے محکمے کے ایک اعلی افسر کر رہے تھے۔ یونٹ میں پہنچنے کے بعد ان کا والہانہ استقبال کیا جاناتھا جس میں افسروں سے ملاقات اور کوارٹر گارڈ کا وزٹ بھی شامل تھا۔

جیپ ہمارے قریب آکر رکی تو اس میں ایک بھاری بھرکم تن و توش کی مالک شخصیت براجمان دکھائی دی۔ ایس ایم صاحب اور ہم نے پورا زور لگا کر انہیں کھینچا تب کہیں جا کر انہوں نے جیپ سے باہر قدم رنجہ فرمایا۔ اِدھر سی او نے لپک کر ان کے قریب پہنچنا چاہا اور ادھر انہوں نے تیزی سے دو تین قدم آگے لئے تو یکدم ان کی پینٹ سرک کرنیچے قدموں میں آ رہی۔ سب افسروں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ بہرحال انہوں نے صورتحال کو بھانپ کر جلدی سے پتلون اوپر کھینچی اور افسروں سے ملاقات کرتے ہوئے بھی دونوں ہاتھوں سے پتلون کو تھامے رکھا۔بینڈ کی دھن اس دوران بدستور بجتی رہی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے مزید رسک لینے کی بجائے باقی کا استقبالیہ پروگرام کینسل کردیاگیااور انہیں کمرے میں پہنچادیا گیا۔اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ انہوں نے ہمارا آڈٹ ایک ہی جگہ بیٹھ کر مکمل کیا۔چار دن کے قیام میں وہ ہمارے بہت اچھے دوست بن گئے تھے۔

سٹاف کورس کی سلیکشن!
سٹاف کورس کو ہر افسر کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت حاصل ہے۔ سٹاف کورس کرنا توشاید اتنی بڑی بات نہ ہو تاہم ہمارا اس کے لیے سلیکٹ ہونا بجائے خود ایک عظیم کارنامہ ہے۔ سیٹیں محدود ہونے کے باعث منتخب ہونے کے لیے کانٹے دار مقابلہ ہوتا ہے۔ فوج کی جانب سے ہر افسر کو آٹھ سال کی کمیشنڈ سروس کے بعد لگاتارچار سالوں تک ہر سال مقابلے کے امتحان میں شامل ہونے کا ایک چانس دیا جاتا ہے۔ آج کل تو لوگ اس امتحان کی تیاری پاس آؤٹ ہوتے ہی شروع کر دیتے ہیں لیکن آج سے دس بیس برس قبل مہنگائی اتنی شدید نہیں ہوا کرتی تھی لہذا یار لوگ سٹاف کورس کے لئے اس وقت سنجیدہ ہوتے تھے جب ایک دو چانس ہی باقی رہ جاتے تھے۔کوئی توجہ دلائے تو اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا تھا کہ ابھی تو کھیلنے کھانے کے دن ہیں ، ابھی سے اتنا فکرمند ہونے کی کیا ضرورت ہے جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔

 

ہم بھی ہنستے کھیلتے اس دورِ شادمانی سے گزر رہے تھے کہ اچانک خبر ملی کہ تیسرا چانس سر پر آچکا ہے اور اگر ابھی بھی سنجیدگی اختیار نہیں کی تو شائد وقت ہمیشہ کے لئے ہاتھ سے نکل جائے۔ ان دنوں ہم سکردو میں تعینات تھے اور ہمارے ایک کورس میٹ میجر افضل بھی وہیں پر ایک انٹیلی جنس ڈیٹ کمانڈ کر رہے تھے ۔ موصوف اس سے پہلے بھی دو چانس خوب تیاری کے بعد دے چکے تھے اور ناکام رہے تھے ۔ اس مرتبہ ان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا تھا کہ انہوں نے اپنی فیملی کو بھی واپس گھر بھجوا دیاتھا تاکہ اکیلے رہ کر، خوب دل لگا کر تیاری کر سکیں۔ ہم تو اس مرتبہ بھی ڈنڈی مارنے کے موڈ میں تھے لیکن بیگم کے پرزور اصرار پر ہم نے تیاری کرنے کی حامی بھر لی اور روزانہ کی بنیاد پر میجر افضل کے ساتھ کمبائن سٹڈی کا پروگرام بنا لیا۔ پیپر شروع ہونے میں پندرہ روز کا قلیل عرصہ باقی رہ گیا تھا۔ہم اپنی گو ناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر شام کو دو گھنٹوں کے لئے میجر افضل کے ہاں چلے جاتے اور باہمی دلچسپی کے امور پر گپیں ہانکنے کے بعد کوئی ایک آدھ گھنٹہ پڑھائی بھی کر لیا کرتے۔ سچ پوچھئے تو ہم نے صرف بیگم کے اعتراض سے بچنے کے لئے اس کارروائی کا آغاز کیا تھا ورنہ ہمیں اپنی تیاری کی حالت دیکھتے ہوئے سٹاف کالج کے لئے سیلیکٹ ہونے کی ایک فیصد بھی امید نہ تھی۔ میجر افضل بہرحال ہم پر زور ڈالتے رہتے تھے کہ ہم کسی معجزے کی امید میں یہ سلسلہ جاری رکھیں۔

پیپر شروع ہوئے تو ہم نے لوگوں کو کمرہ امتحان میں پوری تیاری سے آتے دیکھا جس میں نئی وردی،قیمتی پین، رنگ برنگے مارکر سیٹ اور خوبصورت گھڑیاں شامل تھیں ۔ ہم اس ضمن میں بھی خود کو بہت پیچھے محسوس کر رہے تھے کیونکہ ہماری جیب میں لے دے کر ایک عدد بال پین کے سوا کچھ نہ تھا۔ بہرحال پہلے دو پیپر تو ہم نے جیسے تیسے کر کے دے دیئے۔ پوری کوشش کی کہ کوئی سوال چھوٹنے نہ پائے اور ہر سوال کے جواب میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھا جائے۔ تیسرا اور آخری پیپر کرنٹ افیئرز کا تھا جس میں حالات حاضرہ سے متعلق دیے گئے موضوع پر ایک لمبا چوڑا مضمون لکھنا ہوتا تھا۔ اس پیپر سے قبل دو چھٹیاں دی گئی تھیں ۔ہم نے اس پیپر کے لئے اس سے قبل قطعا کوئی پڑھائی نہیں کی تھی اور اس کی تیاری کے لئے انہی دو چھٹیوں پرمکمل انحصار کیا ہوا تھا۔ پہلی چھٹی والے روزمیجر افضل نے ہمیں فون پر اطلاع دی کہ اس پیپر کی تیاری کے لئے ایک انتہائی قابل استاد کا بندوبست ہو چکا ہے۔ ہم نے مزید تفصیل جاننا چاہی تو انہوں نے ہمیں رات آٹھ بجے اپنے گھر پہنچنے کا کہا اورمزید کچھ بتائے بغیر فون بند کر دیا۔

وقت مقررہ پر ہم ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ میجر افضل نے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہمارے ٹیوٹر تشریف لائے۔میجر افضل نے باہر جا کر ان کا استقبال کیا ۔ان کے ہمراہ کمرے میں داخل ہونے والی شخصیت کو دیکھ کر ہمیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ یہ عالمانہ شخصیت کیپٹن یاسر کی تھی۔ موصوف ہم سے ایک سال جونئیرتھے اور ان کا تعلق سگنل یونٹ سے تھا۔ یہ انمول ہیرا یوں تو اکثر اوقات ہماری نظروں کے سامنے ہی رہا کرتا تھا لیکن افسوس کہ ہم اس کے اندر چھپے ہوئے جوہر قابل کو تلاش نہ کر سکے ۔ میجر افضل نے اس کی افادیت کو پہچانا اور اتالیق کے روپ میں ہمارے روبرو لا کھڑا کیا۔ یہ موصوف اس وقت تک کیپٹن ٹو میجر پروموشن ایگزام میں کوئی پندرہ بیس مرتبہ شرکت فرما کر فیل ہونے کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ کیپٹن ٹو میجر ایگزام میں بھی کرنٹ افیئرز کا ایک پیپر ہوتا ہے۔ اگرچہ کیپٹن یاسر اس پیپر کو پاس کرنے میں ہر مرتبہ ناکام رہتے تھے لیکن اتنے سالوں سے مسلسل تیاری کرتے کرتے اب وہ خود بھی ایک دانشور کے عہدے پر فائز ہو چکے تھے۔

کیپٹن یاسر نے پہلے تو انواع و اقسام کے کھانوں کے ساتھ جی بھرکر انصاف کیا اور پھر ہم دونوں کو سامنے بٹھا کر اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ انہیں بولتے دیکھ کر محسوس ہوا کہ انہیں کرنٹ افئیرز کے تمام موضوعات پر کامل دسترس حاصل تھی۔ مسئلہ کشمیر، پاک ایران تعلقات ، جنوبی ایشیا کی صورتحال ،افغانستان کا مستقبل وغیرہ وغیرہ غرض بے شمار موضوعات کو انہوں نے بیس پچیس منٹوں میں دھن کر رکھ دیا۔ موصوف قادر الکلامی اور فکر علمی میں ہمیں کسی پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے کچھ کم نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ ایک بار ہم نے ڈرتے ڈرتے ذرا سے اختلاف کی جسارت کی تو انہوں نے جلال میں آ کر ہمارے استدلال کی دھجیاں بکھیر کررکھ دیں اور آئندہ کے لئے بیچ میں روک ٹوک سے بھی منع فرمادیا۔

علم کے موتی بکھرنے کا یہ سلسلہ تقریباً ایک گھنٹہ سے جاری تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میجر افضل نے دروازہ کھولا تو چار پانچ افسر اکٹھے اندر داخل ہوئے اور کیپٹن یاسر سے جھک کر ملے۔ معلوم ہوا کہ یہ اور ان کی طرح کے درجن بھر دوسرے افسران بھی سٹاف کورس کا ایگزام دے رہے ہیں اور انہوں نے بھی کیپٹن یاسر سے ٹیوشن کے لیے ٹائم طے کیا ہوا ہے۔و ہ لوگ کیپٹن یاسر کو ساتھ لے جانے کے لیے آئے تھے۔ ہم نے دکھتے دل کے ساتھ یاسر کو ان کے حوالے کیا اور واپس گھر چلے آئے۔ ہم نے اس تیاری کو کافی سمجھ کر اگلے دن مکمل ریسٹ کیا۔ پیپر شروع ہوا تو ہمیں یہ دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ جنوبی ایشیا کی صورتحال پر مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی ہمیں کیپٹن یاسر کا لیکچر یاد آگیا جس میں انہوں نے اس موضوع کو تفصیل سے کور کیا تھا۔ ہم نے دئے گئے وقت میں پیپر کو بہت مدلل طریقے سے مکمل کیا اور ٹاپک کے مختلف پہلو زوردار طریقے سے اجاگر کئے۔ نتیجہ نکلا تو خلاف توقع ہم پاس ہو کر سٹاف کالج کے لیے سلیکٹ ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آپ کو کیا بتائیں کہ ہم نے پیپر میں کیپٹن یاسر کی بتائی گئی باتوں کے بالکل الٹ لکھا تھا۔ اگر ہم یہ مشکل فیصلہ بروقت طور پر نہ کرتے تو فیل ہونے کے بعد آج تک ان کی طرح ممتحنوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرا رہے ہوتے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

کرنل ضیا شہزاد
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply