یورپ جہاں زندگی آزاد ہے ۔ حصہ ۸

پیرس- فرانس

1 جنوری کو صبح سات بجے آنکھ کھلی تو ہوٹل کے اطراف کا علاقہ خالی پایا کہ اہل پیرس رات کو ہلا گلا کر کے ابھی یقینا ابھی سو رہے تھے۔ اہل فرانس نیو ائیر صدیوں سے بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔ 1562 میں پوپ گریگوری نے جب موجودہ گریگورین کیلنڈر بنایا تو اس کا آغاز یکم جنوری سے کیا۔ اس سے پہلے دنیا والے جولین کیلنڈر کے حساب سے یکم اپریل کو مناتے تھے۔ اس حوالے سے فرانس کا ذکر دلچسپ ہے۔ فرنچ کنگ چارلس 9 نے اس کیلنڈر کو 1562 میں فرانس میں لاگو کیا تو اخبارات، ای میل، ویب سائیٹس، ٹی وی اور ریڈیو نا ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ زیادہ تر فرینچ عوام تک نا پہنچ سکا۔ جن تک پہنچا بھی انہوں نے ماننے سے انکار کردیا کیونکہ فرنچ لوگ اس بات کا بہت برا مناتے تھے کہ اب تم ہم کو بتاو گے کہ نیو ائیر کب منانا ہے!
نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہ کی بات لوگوں نے سر آنکھوں پر نا رکھی۔ دو سال کی تگ و دو کے بعد 1564 میں بادشاہ کو باقائدہ قانون بنانا پڑا کہ اب نیو ائیر 1 جنوری کو ہی ہوگا۔ حسب معمول فرنچ یکم اپریل کو ہی مناتے رہے۔ عوام دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور یکم اپریل والوں کو اپریل فش کہا جانے لگا۔ اب بھی اگر آپ یکم اپریل کو فرانس جائیں تو فرنچ بچے اور کچھ منچلے ایک مچھلی کا سٹکر آپ کے پیچھے لگا دیں گے۔ یہ یہاں باقائدہ تہوار بن چکا ہے اور فرانس کا اپریل فول بھی کہلاتا ہے۔ معلومات میں اضافہ کریں کہ اپریل فول کسی ایک واقعہ سے منسلک نہیں ہے۔ ہر ملک میں یکم اپریل کی الگ کہانی ہے اور مزاح، دلچسپ اجتماعی ڈرامے اور پلان کے ذریعے لوگوں کو مذاق کیا جاتا ہے اور جن سے مذاق ہوتا ہے ان کو اپریل فول کہا جاتا ہے۔ 1 اپریل کو فرانس جائیں تو کمر پر اس مچھلی (فول فش) سٹکر لگائے جانے کی توقع رکھیں۔ پچھلے سال پولیس والے بھی جرمانے کرنے کی بجائے یہ سٹکر لگاتے پائے گئے۔

فرنچ ثقافت کی بات چل نکلی ہے تو یہ بات بھی قابل ذکر کے کہ فرانس میں اگر آپ نے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت ٹھیک طریقے سے کی تو وہاں کی حکومت اتنا خوش ہوتی ہے کہ پوچھیں مت۔ سرشار ہوکر والدین کو میڈل دیتی ہے۔ 5 بچے والے براون، 7 والے سلور اور 8 یا زیادہ والے گولڈ میڈل ایک تقریب میں حاصل کرتے ہیں۔زیادہ بچے پال کر انعام و کرام پانا ہے تو فرانس چلیں۔
ناشتے کی تلاش میں باہر نکلا تو آٹھ بج چکے تھے۔ سورج کادور دور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ رات کا اندھیرا بتا رہا تھا کہ شاید ابھی صبح صادق بھی نہیں ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ فجر کا وقت ہے اور سورج 9 بجے نکلے گا۔ فرنچ مرد و زن دریائے سینی کے کنارے بنے رننگ ٹریک پر دوڑ لگا رہے تھے۔ اس رننگ ٹریک کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے باقائدہ اسی سائز کے انڈر پاس اور چھوٹے برج بنائے گئے ہیں۔ تقریبا پورا پیرس ہی رننگ اور سائیکلنگ ٹریکس سے مزین ہے۔
ہمارے ہاں ورزش وہ کرتا ہے جس نے کوئی مقابلہ جیتنا ہو یا پھر ڈاکٹر نے کہہ دیا ہو کہ یہ آخری حل ہے آپ کی بیماری کا۔ ہمارے ایک جاننے والے اسی طرح متاثر ہوکر دوڑ لگانے لگے تو محلے دار گھر پوچھنے آگئے کہ ملک صاحب کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟

نزدیکی سپر مارکیٹ بھی ابھی بند تھی۔ کچھ وقت دریائے سینی پر گزار کر لوٹا تو مارکیٹ کھل گئی۔ پیرس سے زیورخ کا 4 گھنٹے کا سفر بتا رہا تھا کہ کھانا پینا ساتھ لے لینا چاہئے۔ ہوٹل سے گارے ڈی لیون ٹرین سٹیشن تقریبا 11 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جہاں سے SNCF کی بلٹ ٹرین 11 بجے زیوریخ روانہ ہونی تھی۔

زوریخ روانگی:
پلان یہ تھا کہ ٹرین شٹیشن بس پر جایا جائے، کہاں دو یورو کہاں چالیس یورو۔ لیکن وقت کی کمی اور پھر چیک آوٹ میں مزید تاخیر نے فیصلہ کیا کہ ٹیکسی سے پہنچ جائیں تب بھی غنیمت ہے۔
فرنچ ڈرائیور اچھا ثابت ہوا کہ اندر کے راستے جانتا تھا ورنہ پیرس کی اندروں شہر روڑ سپیڈ لمٹ 50، 60 سے زیادہ نہیں اور خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ٹرین روانگی سے دس منٹ پہلے پہنچا دینے پر پچاس یورو کا حقدار قرار پا کر فرانسیسی بہت خوش ہوا۔
بھاگم بھاگ ٹرین سٹیشن کے انڈر پہنچا تو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اس کے تین ہال ہیں۔ پہلے میں 14 دوسرے میں 19 اور تیسرے میں شاید اس سے بھی زیادہ پلیٹ فارم ہیں۔ میری ٹرین کدھر کھڑی ہے معلوم نہیں۔مطلوبہ ٹرین کا پلیٹ فارم نمبر بڑی سکرین پر آرہا تھا۔ جھٹ سے پڑھ کر پٹ سے اس طرف دوڑ لگائی اور صرف 2 منٹ پہلے ٹرین میں وارد ہوگیا۔
پھولی سانس کے ساتھ سیٹ ڈھونڈی تو بیگ رکھنے والی تمام جگہیں پر تھیں۔ ٹرین نان سٹاپ تھی اس لئے درمیانی راستے میں ہی رکھنا مناسب سمجھا۔
آمنے سامنے والی 4 سیٹوں والے پورشن میں کینیڈین فیملی براجمان تھی۔ ایک لڑکی، دو ماں باپ اور چوتھا میاں بھی ایڈجسٹ ہوگیا۔
یورپی ٹرین میں بیٹھنے کا یہ پہلا تجربہ تھا جو 350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جاتی ہے۔ اس سے پہلے مصر میں قاہرہ سے لکسر ایسی ہی ٹرین میں سفر کیا تھا جو جرمنی سے منگوائی گئی تھی لیکن بلٹ ٹرین نہیں تھی اور 160 کلومیٹر کی سپیڈ ہی لے سکی اور وجہ ظاہر ہے ٹریک کی خستہ حالی ہی ہوگی۔

یورپی سرزمین اونچی نیچی ہے۔ کئی سرنگوں اور پلوں سے گزرتی ٹرین فراٹے بھرنے لگی۔ اب باہر پیرس شہر کی بجائے سرسبز ، بہت ہی نفیس اور سلیقے سے کاشت کئے ہوئے کھیت شروع ہوچکے تھے۔ یورپی کاشت کاری دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا جو آج پورا ہوا۔توجہ کی تو یہاں جو ٹریکٹر استعمال ہورہے تھے وہ شاید ہمارے ہاں تصویروں میں بھی نہیں ملتے۔ خوبصورت قسم کے 4×4 ٹریکٹر ہل چلا رہے تھے۔ غیر ضروری سبزہ بھی اچھی طرح ترتیب سے کاٹا گیا تھا کہ دیکھنے میں برا نا لگے۔ درخت بھی ترتیب سے برابر فاصلہ رکھ کر لگائے گئے تھے۔
ایسا نظارہ صرف پینٹنگز میں دیکھا تھا کہ نفیس کھیت اور ان کے درمیان تکونی چھتوں والے گھر، ساتھ ہی کچھ گھوڑے بندھے ہوئے اور ان کے اصطبل۔ یہ پورا علاقہ اسی طرز کا تھا۔
پیرس سے زیورخ کا 620 کلومیٹر کا فاصلہ یہ ٹرین 4 گھنٹے میں طے کرنے والی تھی۔ انٹرنیٹ کی دستیابی نے فیصلہ کیا کہ اب ڈیٹا اپ لوڈ کیا جائے۔ اس کینیڈین فیملی کو خبردار کیا کہ سویٹزر لینڈ بہت سرد ہوگا پیرس مت سمجھنا۔ درجہ حرارت مائنس 15 تک بھی گر سکتا ہے، میاں تو انجوائے کرے گا کہ دبئی کی گرمی کا جھلسا ہوا ہے، آپ ذرا دھیان سے رہنا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے بتایا کہ کینیڈا کے جس علاقے سے ابھی وہ آرہے ہیں وہاں مائنس 10 تو نارمل ہی رہتا ہے۔ یعنی وہ اپنے دوسرے گھر ہی جارہے تھے۔https://youtu.be/UtfcYlIOWDI
اس ٹرین کا واحد سٹاپ سوئٹزرلینڈ کا سرحدی شہر بیسل (Basel) تھا۔ جہاں کچھ منٹ قیام کے بعد ٹرین زیورخ روانہ ہوگئی۔
زیورخ اور جینیوا میں سے زیورخ کو اس لئے چنا تھا یہاں سے زرمیٹ (Zermatt) جانا آسان ہے جو سوئٹزر لینڈ کا مشہور ہل سٹیشن ہے۔ یورپ کا سب سے اونچا پہاڑ Matterhorn یہاں ہے جو سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
دوسرا زیورخ سوئٹزر لینڈ کا وہ شہر ہے جہاں کے بنکوں میں کچھ ہمارا اور کچھ باقی دنیا سے پیسا لاکر رکھا گیا ہے۔ پیسا تو وہ واپس نہین کریں گے لیکن بنک دیکھنے سے نہیں روک پائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بکنگ ڈاٹ کام سے جس ہوٹل کو بک کیا تھا اور زیورخ میٹرو سٹیشن کے بالکل باہر تھا اور اس کے نزدیک ایک چھوٹا دریا بھی جو میٹرو سٹیشن کے نیچے سے گزرتا تھا۔
ریسیپشن والی نے اچھی انگلش میں خوش آمدید کہا اور میرا کمرہ دکھانے ساتھ چل دی۔ خوشگوار حیرت تو ہوئی لیکن یہاں کی ثقافت سمجھ کر پلاننگ ٹورازم کی طرف ہی رکھی۔
شہر کی اٹریکشنز گوگل کرکے کچھ وقت آرام کرنے کے بعد شہر دیکھنے کا پروگرام بنایا تاکہ کل زرمٹ جایا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply