جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/13

ایک پل پار کیا،مڑے تو چوکی پر رکے،چوکی کے چوکی دار نے کہا بھائی صاحب!انٹری کرانی  ہوگا۔چوکی سے بالکل جڑ کر،بائیں ہاتھ نشیب میں ایک ہوٹل تھا۔وقاص جمیل نے کہا کھانا کھا لیتے ہیں،آگے ممکن ہے کھانا نہ ملے۔گاڑی نیچے اتاری تو سب باہر نکل آئے۔ عرفان اشرف نے ہوٹل کے مالک سے پوچھا۔واش روم کدھر ہے؟۔۔ہوٹل کے مالک بولے ادھر ہے۔بیت الخلا میں داخل ہوئے تو بیت الخلا بھی شرمائے۔مالک سے بولا۔یہاں صابن دانی اور صابن تو رکھ دو۔کھانے میں صرف دال ماش اوربھنڈی تھی۔ہم نے انڈا  ٹماٹر اور دال ماش منگوائی۔دال کو دوبارہ تڑکا لگایا جانا تھا اورانڈے بننا باقی تھے۔ہم انتظار میں بیٹھ گئے۔
ہوٹل نے ایک وسیع رقبے پر قبضہ کر رکھا تھا۔ہوٹل کیا تھا،ٹین کی چھت،گارے اوربلاکوں سے بنی دیواروں کاایک ڈھانچہ۔تین اطراف میں کمرے،باورچی خانہ اور پشتون انداز کی کھلی طعام گاہ،جس میں میلے کچیلے گدے بچھے تھے۔وسیع صحن میں سیاحوں کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔سب لَش پَش جاپانی،یوم پاکستان تھا مگر کوئی بھی پاکستانی نہیں تھی۔ہمارے ہوٹل کانام بھی ”پارک ان“ تھا۔

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/12
شاہد حفیظ اپنے نیچے رکھے گدے پرلکھی ایک تحریر اُونچی آواز میں پڑھنے لگا۔
ایڈوانی،اوبامہ مردہ باد
امریکہ کتا،اسرائیل بلا
بعدمیں شاہد نے بتایا کہ ”اسرائیل بِلا“ کا ٹکڑا اس نے اپنی طرف سے لگایاتھا۔ہمارے ہاں کوئی اور چیز آئی یا نہیں دنیابھر کی اینگزائٹی،تناؤ آیاہے۔اس پر مزید خوش گمانیاں اور ہوائی قلعے تعمیرہوئے،جہاں سے ہم نے ساری دنیا کو فتح کرکے،ہر جگہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ھ دیے ہیں۔ کبھی کبھار یہ پریشر ککر پھٹنے پر آتا ہے تو ہم اپنے ہی شہروں اور گلیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔کتے اور بِلّے ہماری ہسٹریائی کفیت پر قہقہے لگاتے ہیں۔

چوکی سے صرف دوقدم آگے سڑک پار لکڑی کے ایک کھوکھے میں لوہار درانتیاں تیز کر رہا تھااور ان کی دندائی بھی۔ہوٹل ہزار گندہ سہی،مگر یہاں سے اردگرد کے مناظر دیکھ کر ساری تکلیف دور ہو جاتی ہے۔شمالی سمت ننگی چوٹیوں پر دھوپ تھی،ان کے اوپر بادلوں کے ٹکڑے اور بادلوں کے نیچے دو چار سفید دھبے،یہ گلیشر تھے۔مشرقی اور مغربی پہاڑوں پر جنگل ہیں۔مغربی سمت کی پہاڑیاں،شیرن گل کے علاقے میں ہیں۔تھل سے آگے کمراٹ کاعلاقہ شروع ہو جاتا ہے۔وادی ِکمراٹ کوہستان میں ہے۔

کھانا آیا تو انڈوں کا گرم سالن اور تندورکی گرم گرم روٹیاں،خوب کھایا۔تھکن اور بھوک نے کافی بے حال کردیاتھا۔سفر پھر سے شروع ہوا۔تھل کی مسجد تاریخی ہے۔ایک نیلگوں اور اجلی ندی کے کنارے لب سڑک بنی ہے۔1953 میں بنائی گئی تھی۔اس کی دیواریں لکڑی اور پتھر کی ہیں۔یہ اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی لگ رہی ہے۔اس میں دیار کی پوری پوری کڑیاں لگائی گئی ہیں۔ایک شفاف ندی کے کنارے،خوب صورت وادی میں یہ بہت گزرے دنوں کی باقیات لگتی ہے۔

ہم نے کئی جگہوں سے پوچھا،کمراٹ کتنادور ہے۔؟ایک ہی جواب ملا بَس تھوڑا ہی آگے ہے۔اک شفاف ندی کے کنارے،میدانی وادی میں کھیت ہی کھیت تھے۔ہم ندی کنارے آگے بڑھ رہے تھے۔مکئی،جو ار،آلو،مٹر،گوبھی کے کھیتوں میں خواتین پردہ کیے،مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی تھیں۔بنت ِحوا کم ہی جانتی ہے کہ ان فصلوں کو یہاں تک لانے میں اس کا ہاتھ ہے۔تخم ریزی،گاہی اور گوڈی خواتین ہی کی ایجاد ہے۔تھل اور زیریں کمراٹ فصلوں سے بھری ہوئی ہیں۔یہاں کی تازہ تازہ سبزے سے رچے چہروں والی فصلوں سے ان کی زرخیزی کا اَندازہ  ہوتا ہے۔بعض جگہوں پر دیودار کے بڑے بڑے تختے لگاکر ندی کے بہاؤ کو موڑا گیا ہے۔ایک ایسی ہی جگہ بطخیں تیر رہی تھیں۔نیم پختہ راستے کے بعد اب پختہ سڑک پر سفر آرام دہ ہوگیاتھا۔مناظر ویسے ہی پیارے تھے۔ایک آدھ کلومیٹر چلنے کے بعد پھر کچا رستا شروع ہوگیاتھا۔پارک ان ہوٹل کے مالک نے مجھ سے کہا تھا۔یار۔! تم ہماری سڑک کے بارے میں لکھو۔یہ بہت خراب ہے۔اس سے ہمارے بزنس پر بہت فرق پڑتا ہے۔ایک گھر سے تیتر کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔میدانی وادی میں گھر سڑک کے نزدیک بنے ہوئے ہیں۔آخر کار ہم ایک اور چوکی پر پہنچے۔ہمیں بتایا گیا یہاں سے اصل وادی ِکمراٹ شروع ہوجاتی ہے۔کمراٹ زیریں ایک میدانی اور زرعی وادی ہے۔جب کہ کمراٹ بالائی جنگلوں،پہاڑوں اور آب شاروں سے بھری، سےّاحوں کی جنت ہے۔سڑک پر عارضی رکاوٹ (چوکی) نے ہمارا استقبال کیا۔باقی سوالوں کے ساتھ یہ بھی پوچھا گیا کہ ہم کمراٹ میں کتنے دن رہیں گے۔؟

وادی کمراٹ:
چوکی نمبر دو جو،یہاں عارضی چوکی ہے سردیوں میں یہ ادھر نہیں ہوتی،اس سے آگے اصل وادی کمراٹ ہے۔بیابانی،پہاڑ،جنگل اوران جنگلوں میں وقتی بساؤ۔دُودھیا کمراٹ ندی،جو پنج کوڑا دریاکاپانچواں بڑا منبع ہے،اس وادی کے بیچوں بیچ بہتی ہے۔ارد گرد پہاڑ ہیں،درمیان میں میدان،اس میدان پر گھنا جنگل او راس جنگل میں دریا ے کمراٹ نرم روی سے بہتا ہے۔تھل اور اس سے آگے جس دودھیا ندی کو ہم اناج کی وادیوں میں بہتا ہوادیکھتے آئے تھے،یہی چھوٹاسا دریا ئے کمراٹ ہے۔

مویشیوں کی پسندیدہ تازہ رس بھری خوش بودار گھاس سے وادی اٹی پڑی ہے۔پھول دار جھاڑیاں جو کانٹے دار نہیں ہیں جابجااُگی ہوئی ہیں۔میدان میں بیاڑ کے درختوں تلے خیمے لگے ہوئے تھے۔جب ہم کمراٹ پہنچے تھے تو عصر ہو چکی تھی۔کچے ڈھاروں،سراؤں،جو اصل میں جستی چادروں کا بے ہنگم سلسلہ تھا،پھیلا ہواتھا۔اس وادی کے حسن کو متاثر کررہاتھا۔سبزے،درختوں اورندی کے ساتھ ساتھ اردگرد کے پہاڑوں سے مل کر بنتے منظر نے اس بے ترتیبی کو کافی حد تک چھپا لیاتھا۔

ندی مشرقی پہاڑ کی بہ نسبت مغربی پہاڑ کے زیاد ہ قریب بہہ رہی ہے۔مشرقی پہاڑ صرف دیاروں کے جنگل سے بھرا ہے۔کہیں کہیں چٹانوں پر پاکستان کا پرچم رنگا گیا تھا۔شمال مشرقی چوٹی ننگی تھی۔اس کاسرا بادلوں نے چھپا لیا تھا۔اس کا پہاڑی سلسلہ کلہاڑی نمانوکوں سے بھرا ہواتھا۔اسی کے آگے قدرے چھوٹی چوٹی پر جنگل آباد تھا۔

ہم نے جس سرائے کو قیام کے لیے چنا،وہ ایک کچاگھر تھا۔بیاڑ،کچی مٹی کی چھت،پتھراور گارے کی دیواروں سے بنی یہ سراے ایک مستطیل تھی۔اس کے آگے سفید جست کی چادر کا برآمدہ تھا۔اس میں پہلو در پہلو کئی کمرے تھے۔بیچ کا ایک کمرہ ہمیں دیا گیا۔ہم جیسے کئی سّیاح یہاں بسیرا کیے ہوئے تھے۔طے ہوا کہ نماز عصر کے بعد آوارگی ہوگی۔سرائے کے باہر پنچرے میں بازاری مرغ رکھے ہوئے تھے۔کھُلے پائپ میں پانی بہہ رہاتھااوربہے جارہا تھا۔سےّاح اسی سے وضو بناتے تھے۔یہی پینے کے لیے بھی استعمال ہوتاتھا۔

ہیمنگ وے کااک شاگرد:
نماز عصرکے بعد ہم ندی کی طرف بڑھے،ندی جو ایک چھوٹا دریا ہے۔پیرپنجال سے نکلنے والے دریاے پونچھ سے کافی چھوٹا دریا۔دولڑکے ندی میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ دریا کے مغربی کنارے پر وہ تھے اور مشرقی کنارے پر ہم۔اس دریا میں ٹراؤٹ اَور اُس کی دیگر اقسام بستی ہیں۔ان کا مسکن صرف دریا کاوہ حصہ ہے جو کمراٹ بالا کہلاتا ہے۔اس سے آگے کاماحول ان کی زندگی کے لیے سازگارنہیں ہے۔یہ اسی یخ ٹھنڈے اور اجلے پانیوں میں بساؤکیے ہوے ہیں۔ دریا پر دو لوگ تھے۔ ایک لڑکا کنارے پر کھڑا تھاجب کہ دوسرادریا کے کم گہرے پانیوں میں۔و ہ جال پھینکتا،کھینچتا اور مچھلیاں تلاش کرتا۔پہلاتجربہ ناکام،دوسراناکام پھرکئی تجربے ناکام ہونے کے بعد ایک چھوٹی مچھلی جال میں آئی۔اگلی بارایک اور پھر کچھ وقفے سے ایک اور۔شام وادی پر پھیل رہی تھی۔جنگل آباد ہو گیاتھا۔چولھوں کی سوں سوں،آگ،ٹھنڈک،دریا اور اس کے کنارے پر کھڑے دو نوجوان جو مچھلی پکڑ رہے تھے۔

نو جوان تھک گیا تھا۔وہ اپنے معاون کے ساتھ اوپر کی طرف،بہاو کی مخالف سمت بڑھ رہا تھا۔شاہد آج اس نے اپنی سراے میں ٹھہرے سیاحوں کو مچھلی کھلانے کا وعد ہ کر رکھا تھا۔تین چھوٹی مچھلیاں اور غالباً اب چار ہو گئیں تھیں۔لڑکا ہیمنگ وے کاشاگرد لگ رہا تھا۔وہ تھک کر بھی نہیں تھکا تھا۔
اندھیرا گہرا ہونے لگا،وہ اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔بڑھتے بڑھتے ایک تیسرے آدمی کے پاس جاکھڑا ہوا۔لڑکے نے اس سے کچھ ہدایات لیں۔دوست جو پانی میں پتھر پھینکتے رہے تھے،شغل چھوڑ کو اوپر کی سمت آگے نکل گئے۔وقت بھی آگے نکل گیا،ندی کاپانی بھی اور اس کی مچھلیاں بھی،وقت ہو یاپانی بہنے میں ہی ان کی زندگی ہے۔مَیں بھی دوستوں کے پیچھے پیچھے کنارے دریا اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔جس پگڈنڈی پرمیں چل رہا تھا۔اس کے دائیں بائیں اَور دُورآگے تک جنگل ہی جنگل تھا۔اَطراف کے پہاڑ کچھ جوکچھ نظر آرہے تھے پر بھی جنگل۔نوجوان بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہاتھا۔جدوجہد جاری تھی۔دریا کی میدانی گزر گاہ،جس پر وہ آہستگی سے بہہ رہا تھا،اب نیم میدانی گزرگاہ میں تبدیل ہوگئی تھی۔دوستوں کا کارواں کافی آگے جاچکا تھا۔میں ہمینگ وے کے شاگرد اور اس کے ساتھیوں کو وہی چھوڑکر تقریباً دوڑتا ہوا دوستوں سے جاملا۔

ندی کاکنارا چھوڑ کر ہم خط مستقیم میں اوپر کو آگے بڑھے،تو کچی سڑک پر آگئے۔یہ کچاراستہ  کمراٹ کی مشہور آبشار تک جاتا ہے۔سُنا ہے وہاں آگے کئی دودھیا آبشاریں ہیں۔ان کا پانی ریشم کے آبی پردے بلندی سے گراتا ہے اورخوب صورت منظر پیش کرتا ہے۔سڑک پر چلتے چلتے میں کارواں سے بچھڑ گیا۔جنگل گردی،پھر سڑک گردی اور اس آوارگی میں پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے پھر سڑک پر آگیا۔

سڑک کنارے ہماری سراے جیسی ہی لمبی سرائے تھی۔بالکل ویران جگہ پر یہ سیاحوں سے آباد تھی۔ا س کے باہر پتھر کے چولھے میں آگ جل رہی تھی۔
مَیں سراے سے تھوڑا پیچھے ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔دریا دور نیچے رہ گیا تھا۔ سبزہ زار پر بنے پتھر کے چولھے پرسیاحوں کا قافلہ ایک دنبے کو سالم بھوننے کی تیاری کررہاتھا۔
مشرقی پہاڑ کے آخری کونے پر ایک ابھرتی نوک اوپر سے نیچے،نیم کوس بناتی اتر رہی تھی۔پرانے دیاروں کی ایک بارات قطار میں پہاڑ کی چڑھائی چڑھنے میں لگی نظر آرہی تھی۔کسی دیو مالا میں شادی کی بارات کو کسی بزرگ نے غصے میں آکر بد عا دی اور وہ بارات ایسے ہی پہاڑ پر چڑھتے چڑھتے دولھے سمیت دیار بن گئی تھی۔ایسی ہی بارات درّہ لواری کے پار دیکھی تھی۔

میرے سامنے والے پہاڑ ی سلسلے کی دو چوٹیوں کی نوکوں نے کھڑے ہو کراپنے درمیان انگریزی حر ف وی کی شکل بنالی تھی۔دو پہاڑی تکونوں کے بیچ خلا انگریزی حرف ”وی“ بن گیا تھا۔چاند ان دونوکوں کے درمیان آکر رک گیا تھا۔دو تنہا تارے اس کے اردگرد،ایک مشرقی چوٹی پر اور دوسرا مغربی چوٹی پر پہرا دینے لگے تھے۔

اچانک اپنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔دو نوکوں کے درمیان نیم ہلال چاند کامنظر مجھ سے چھٹ گیا۔وقاص جمیل میرے پیچھے کھڑے تھے۔بولے ادھر سے اٹھو چلوآگے چلتے ہیں۔اب پھرسے وہ سڑک گردی اور جنگل گردی۔ہم جنگل کی بھول بھلیوں پر دیر تک آوارگی کرتے رہے۔خیمے،ندی کاپانی باہر نکل کر چھوٹی چھوٹی آب روؤں میں بٹ کر بہہ رہاتھا۔جنگل کی تاریکی میں روشنیاں،قہقہے،گیس کی چولھوں کی سوں سوں،سیاحوں میں سے کوئی لکڑی کاٹ رہا تھا۔لکڑی پر کلہاڑاپڑنے کی آواز پورے جنگل میں گمگ بن کر پھیل رہی تھی۔سیاح پتھر کے چولھوں پر اپنااپنا کھانا خود تیار کررہے تھے۔بہت سوں نے ہماری طرح یہ کام سرائے کے باورچیوں کو دے دیاتھا۔قمقموں کی لڑیاں،پھیلی ہوئی روشنی کی قطاروں کامنظر پیش کررہی تھیں۔

کارواں تھک کر اب سرائے کا رخ کر چکا تھا۔میں پیچھے پیچھے پگڈنڈیوں سے سنبھلتا آگے بڑھ رہا تھا۔رات نے قبضہ کر لیا تھا۔ہم سرائے کے برآمدے میں جابیٹھے۔برآمدے میں بجلی کے بلب نازک تاروں کی مدد سے چھت کی کڑیوں سے لٹک رہے تھے۔روشنی برآمدے سے کچھ آگے تک تھی۔باقی اندھیرا تھا۔یہاں جنریٹر بجلی مہیا کرتے ہیں۔اس دوردراز کے برفانی علاقے میں بجلی نہیں ہے۔ہماری قیام گاہ قدرے اوپر واقع تھی۔باقی سرائیں ہم سے نیچے تھیں۔یوں جنگل او راس کی عارضی آبادی ہماری نگاہوں کے سامنے تھی۔

سرائے کامالک ایک نوجوان آدمی تھا۔ ا َب وہ ہماری محفل کاحصہ تھا۔اَور وہی ہمارے لیے معلومات کاذریعہ بھی۔ہمارے سوال تھے اور اس کے جواب تھے۔ اس کا لڑکا تھل ہائی سکول میں پڑھ رہاتھا۔ایک لڑکے کو مدرسے میں داخل کروایا ہواہے۔خود میڑک تک تعلیم حاصل کی تھی۔یہ سرائے پچھلی دفعہ تعمیر ہوئی تھی۔گزشتہ پانچ سالوں سے کمراٹ میں سیاح آنے لگے ہیں۔ تھل سکول میں بچوں کی تعداد کم ہے۔تھل جو فصلوں کی وادی ہے۔اس زرخیز وادی کاسکول بچوں سے بھرا ہوا کیوں نہیں۔؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔یہ جگہ ہماری اپنی ہے۔سرائے کے مالک نے کہا۔باقی لوگ بھی آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا لیں گے۔اَگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو۔عرفان اشرف نے تجویز دی یہ جو بے ہنگم اندازسے یہاں سرائیں پھیلی ہوئی ہیں۔محکمہ سیاحت کو چاہیے کہ وہ انھیں حسن ترتیب سے لگواے۔اَگر یہ ہر سال اسی طرح اپنی مرضی سے بڑھتی رہیں تو یہ جگہ دیکھنے لائق نہ ہوگی۔عرفان کی بات معقول تھی۔

مجھے چترال میں رات کو نیند نہ آ سکی تھی۔مَیں سونا چاہتا تھا۔جب کہ دوست محفل جمانے پر مائل تھے۔عرفان اشرف ہر بات پر قہقہہ لگانے والاجوان ہے۔منصوراسماعیل،وقاص جمیل،شفقت،شاہد حفیظ باتیں کرتے رہے اور وہ قہقہے لگاتارہا۔جب تھک گئے تو سونے کاارادہ کرلیا۔کمرہ تنگ تھا۔ہم چھ لوگ اس میں مشکل سے سمائے۔میرے ایک طرف وقاص جمیل دوسری طرف منصور اسماعیل تھے۔نیند کی دیوی جو چترال میں مجھ سے روٹھ گئی تھی۔آج دوستوں کے درمیان اس نے آغوش میں لے لیا۔جی بھر کر سویا۔صرف رات کو شاہد حفیظ نے مجھ پر تکیہ مارا۔بقول ان کے میرے خرّاٹوں نے ان کی نیند چھین لی تھی۔

کمراٹ میں صبح:
صبح اَلارم نے جگایا۔وضو کیا بستر اٹھا یا نما زکے لیے جگہ بنائی۔نماز کے بعد مَیں باہر نکل آیا۔باقی لوگ دوبارہ بستر بچھا کرسوگئے۔ان کی نیند ابھی باقی تھی۔مَیں سرائے کے پیچھے پہاڑ ی پر چڑھنے لگا۔اک کچی سڑک اوپر کو سرک رہی تھی اور مَیں اس پر۔آلوؤں کے کھیت تھے اور ان کے پھولوں کی خوش بو۔دائیں ہاتھ ایک مستطیلی قطعے پر یہ حد بندی کی گئی تھی۔شاید کوئی مکان یاسرائے ابھی بننی تھی۔سنگ مرمر کے دور کے رشتہ دار سفید پتھر یہاں دریا اور اردگرد پہاڑوں پر ہیں۔یہی پتھر گھروں اور کھیتوں کی حد بندی میں استعمال ہوئے ہیں۔
دائیں طرف کی زمین جنگلی پھولوں سے بھری تھی ان کی باس پوری وادی میں پھیلی تھی۔نیلے رنگ کاخاردار پودا پھولوں کے اس باغ میں زیادہ اُونچا تھا اُور خوب صورت تھا۔سنا ہے ہیپاٹائٹس سی کی اَدویات میں استعمال کیا جاتاہے۔

سرائے کے پیچھے مالک کا واحد گھر تھا۔اگر یہاں آبادی بڑھائی گئی تو اس وادی کا فطری حسن تباہ ہو جائے گا۔پھر یہ قدرتی سیر گاہ نہ رہے گی۔
مَیں مسلسل اوپر چڑھ رہاتھا۔شمالی پہاڑی پر سورج کی کرنیں اُترنے لگیں تھیں۔شاہد ہی اس کی نوکیلی تکونوں نے کبھی سبزے کامزہ چکھاہو۔یہ زیور ہر پہاڑ کو نصیب نہیں۔کبھی یہاں برف ضرور رہی ہوگی۔کسی گلیشر کے یہاں آباد رہنے کے خاموش آثار ہیں۔اِس کے کچھ حصے جو سورج کی کرنوں کی زد میں آگئے تھے اَب چمکنے لگے تھے۔یوں لگ رہا تھا سورج دیوتا کی کرنیں ناتراشیدہ گندمی رنگ کے سنگ مرمر کو چمکانے لگی ہوں۔
مشرقی پہاڑ،جہاں رات کو دو تکونوں کے درمیان آکر چاند ٹھہر ا تھا،پر بھی سورج اتر آیاتھا۔

ایک مساوی الزاویہ مثلث نما پہاڑی جو پختہ عمر کے دیاروں سے بھری تھی کے دائیں بائیں تو کرنیں اُتر چکی تھیں۔مگر اس پر اَبھی نماز فجر کا وقت باقی تھا۔
مسلسل چڑھائی سے تھکن غالب آنے لگی تھی۔سڑک کے بائیں آلووں کے کھیت دُور تک چلے گئے تھے۔کچھ کھیت دیاروں کے درمیان بنے تھے۔ان کھیتوں کے آبادکار نظر نہیں آرہے تھے۔
سڑ ک کے دائیں طرف بے خار جھاڑیاں او ردیار کی سوکھی ٹہنیاں جلانے کے لیے رکھی گئیں تھیں۔سراے کے مالک نے کہا تھاہم زندہ درخت کو نہیں کاٹتے ہیں۔زندہ درخت کو کاٹنا حکومت نے منع کردیاہے۔یہاں اسی مقصد کے لیے محکمہ جنگلات کا ایک چھوٹا سا دفتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply