• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم سب اپنی مرضی سے غلامی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔۔۔نذر محمد چوہان

ہم سب اپنی مرضی سے غلامی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔۔۔نذر محمد چوہان

کل مجھے پاکستان سے ایک خاتون نے کہا کہ  آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ  آزاد ہیں ۔ ایسا نہیں ہے ، میں نے یہ آزادی خود منتخب کی ، سب ہی آزاد پیدا ہوئے اور خوش قسمت ہیں ۔ میرے بھی ایک طرف بیش بہا پیسہ ، مال و دولت ، طاقت اور شہرت تھی اور دوسری طرف قدرت سے لگاؤ ۔ میں نے قدرت سے لگاؤ کی خاطر مادہ پرستی کو خیر باد کہہ دیا ۔ مجھے یقین تھا مادہ پرستی یہ دنیا بھی برباد کرے گی اور اگلی بھی ۔
اس وقت یہاں برفباری اور بارش کا عجیب رقص چل رہا ہے ۔ جب ہوا بہت تیز چلتی ہے تو کبھی درجہ حرارت گرنے سے برف پڑتی ہے اور کبھی بارش ۔ میں تو یہ خوبصورتی دیکھ دیکھ کر حیرت میں مبتلا ہوں ۔ جتنی برف بارش گھولتی ہے اتنی ہی پھربرف کا طوفان واپس لے آتا ہے ۔ قربان جاؤں اس قدرت کے کمالات پر ۔ اس سارے نظارے کو دیکھتے ہوئے  خیال آتا ہے کہ  ہم باوجود اتنی زیادہ قدرتی attractions کے چند لوگوں کے غلام بننا کیوں پسند کرتے ہیں ؟
گاندھی نے کہا تھا کے ۳۰۰۰ ملین لوگ اپنی مرضی سے ایک لاکھ برطانوی حکمرانوں کے غلام بنے ہوئے ہیں ۔ آج پاکستان میں بھی یہی حال ہے کہ  کوئی ایک لاکھ حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے نیچے ۲۲ کروڑ لوگ لگے ہوئے ہیں پاگلوں کی طرح ۔
میں نے پاکستان میں اس وقت علم و ادب سے لگاؤ رکھنے والا کوئی  ایک بھی لکھاری ایسا نہیں پایا جو اس غلامی کو ننگا کر رہا ہو ۔ ہر کوئی  اپنے زاویے اور اپنی جیب کے مطابق غلاموں کو آقا بدلنے کی تو تجاویز  ضرور دے رہا ہے لیکن بلی کی طرح اس سے نکلنے کے گُر نہیں بتا رہا ۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ  رہا ہے کہ اپنے رب ، اپنے خالق کی طرف واپس لوٹ جاؤ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ۔ انتقال کے وقت تو ہم ، ان للّہ و انا  الیہ راجعون ، پر یقین لے آتے ہیں ، زندہ کیوں نہیں ؟ اتنا پیار مادی چیزوں سے ؟ تقلید مگر کس واسطے اور کیوں ؟ ایک امریکی لکھاری جوزف ایمٹ نے کیا زبردست کہاکہ ۔
The humming bird and dog are programmed by nature , but unlike them , we have the ability to change our programming ..
ہماری یہ پروگرامنگ زمینی آقا یا AI مشین سے کیوں کر ہو رہی ہے ؟ گاندھی ٹھیک کہتا تھا ہماری مرضیاں شامل ہیں اس میں ، ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟ عقل گھاس چرنے چلی گئی  ہے کیا ؟
جو روحانیت کی بھی بات کرتا ہے وہ بھی کہتا ہے میرے چیلے بنو ، میرے ہاتھ پر بیعت کرو ، جوق در جوق میرے در آؤ میرے مرید بنو۔ اور جو لوگ اس روحانی علم میں  ذرا آگے بڑھتے ہیں وہ بھی حکمرانی کے لیے گروہ بنا لیتے ہیں جیسے فری میسن ، الکوہلک انانیمس اور المناٹی جو سارے پھر secret societies میں گنے جاتے ہیں اور حکمران منتخب کرتے ہیں ۔ پادریوں سے لڑائیاں لڑتے ہیں اور انسانی کنٹرول روحانیت سے ۔ روحانیت کو بھی انسانی کنٹرول کے لیے استمعال کیا جا رہا ہے ۔
کمال کی حماقت ہے کہ  وہ علم جو روح کے ساتھ منسلک ہے اور ہر شخص کی میراث ہے ، اثاثہ ہے ، اسے چند بازیگر بیچیں ؟ اور پھر اوپر سے ہر شخص تو ہے ہی بالکل یونیک اور مختلف ، میں کیسے اور کیوں کسی دوسرے کے تجربے  کو اپنا تجربہ مانوں ؟ پھر اوپر سے حالات اور واقعات کائنات کی مستقل تبدیلی کی علامت ہیں ، کچھ بھی ساکن نہیں ۔ ایک سقراط سے بھی پہلے کے مشہور یونانی بلکہ پرشین فلاسفر ہرکولیٹس نے کہا تھا ؛
“No man ever steps in the same river twice, for it’s not the same river and he is not the same man “
کیا خوبصورت بات کی ہرکولیٹس نے ۔ اور بُدھا نے بھی کہا تھا کہ
“All conditioned things are impermanent “
تو پھر کیسی تقلید ؟ کیسی کنڈیشننگ ؟ جو مستقل رہنی ہی نہیں ؟ نواز شریف نے تو مر جانا ہے جیسے بھٹو مر گیا تو یہ تقلیدیوں کا کیا بنے گا ؟ ولیم بلیک ایک بہت ہی پہنچا ہوا روحانی شاعر تھا ، اکثر پادریوں کی تنقید کا نشانہ بنتا تھا اس نے بھی اس احمقانہ clinging یا چمٹے رہنے کو کیا خوبصورت الفاظ میں بیان کیا ؛
He who binds to himself a joy
Does the winged life destroy
But he who kisses the joy as it flies
Lives in the eternities sunrise
اس وقت جو کھڑکی سے میں برفباری اور بارش کا نظارہ دیکھ رہا ہوں ، اس کو میں کسی ٹرنک میں تو نہیں بند کر رہا ، ہاں اپنی consciousness کے دریچوں میں ضرور محفوظ کر رہا ہوں بقول ورڈز ورتھ اپنی inward eye کے لیے جب میں تنہا بیٹھوں ۔ ایک اور گو کہ  وہ تو Alcoholics Anonymous کے بانیوں میں سمجھا جاتا ہے ، بل ولسن ، نے کہا تھا کہ۔۔
“We must find some spiritual basis for living, else we die “
الکوہلک اینانیمس سوسائٹی نے بھی دراصل روحانیت کے لیے بہت کام کیا ، یہ لوگ drunkard sufis یا بھنگ والے پیروں کی طرح نشے کے ذریعہ اس altered consciousness میں جاتے تھے اور روحانیت کے  اعلی مرتبوں  پر پہنچ جاتے تھے ۔ جیسے پہلے بلاگز میں میں نے آلڈز ہکسلے کا بتایا تھا کیسے وہ لیب میں psychedelic دوائیں لے کر دوسری dimension میں چلا جاتا تھا ۔ خیر میں آپ کو بھنگ کا تو نہیں تجویز کرتا ، بہترین روحانیت عبادات سے آتی ہے ، مراقبہ بھی ایک قسم کی عبادت ہے ۔
میرا اس بلاگ کا بنیادی مقصد اور theme یہ ہے کہ  آپ سب تقلید سے پرہیز کریں ۔ میری  بھی تقلید نہ کریں ۔ اپنے اندر جھانکیں ، اندر جھانکنے سے کائنات کے سارے راز کُھل جاتے ہیں ۔ آپ کے اندر کائنات کو دیکھنے کا آئینہ قدرت نے فٹ کیا ہوا ہے ۔
“میں نئیں میرے اندر میرا محبوب بولدا”
کسی مشہور لکھاری نے کہا تھا درخت پانی پینے تالاب کے پاس  نہیں جاتا بلکہ اپنی جڑوں کے  ذریعے پانی تک پہنچتا ہے ۔ میں نے اسے ایک پچھلے بلاگ میں introspection کہا تھا ۔ میں یا کوئی  بھی پیرو مرشد آپ کی زندگی نہیں گزارے گا ماسوائے روحانی محبوب کے ۔ لہٰذا اپنی پریشانیاں آسان کریں ۔ حکمرانوں کے چنگل سے ہزاروں میل دور رہیں ۔ بہت خوش رہیں ۔ میں آپ سب کے لیے دعاگو ہوں ۔ پھر کہوں گا آپ نہ غلام پیدا کیے گئے تھے نہ ہیں ، بس شعور اور آگہی کی کمی ہے ۔ اللہ تعالی آپ سب کا حامی و ناصر ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply