پاکستان میں تعلیم کا شعبہ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے. اوپر سے اناڑی حکومتی ارباب بست و کشاد کے تجربات نے اسے مزید پستی و بے حالی کا شکار کر دیا ہے. لارڈ میکالے کے پیروکار اس شعبے کا بیڑا پہلے ہی غرق کر چکے ہیں رہی سہی کسر اب موجودہ اقدامات کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے .
اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکومت کی طرف سے پرائیویٹ اور پیف پارٹنرز سکولز کے مالکان کو نوٹس جاری کئے گئے ہیں جس میں انہیں ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ مقررہ تاریخ تک اپنے سکولز کی بلڈنگز کو کمرشلائز کرائیں اور فی فٹ کے حساب سے کمرشل ٹیکس ادا کریں بصورت دیگر مالکان کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں گے .
پاکستان میں پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی ادارے شرح خواندگی میں اضافے میں حکومت کی مدد کررہے ہیں کروڑوں طلباء و طالبات ان سکولوں میں زیر تعلیم ہیں. اگرچہ کچھ بڑے اداروں کی فیسیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں لیکن بے شمار ادارے ایسے ہیں جن کی ماہانہ فیسیں سن کر یقین نہیں آتا کہ وہ اتنی کم فیسیں لے کر اتنی اچھی تعلیم مہیا کر سکتے ہیں؟ اس کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں پر حکومت اربوں خرچ کرتی ہے لیکن معیار تعلیم کا حال سب کو معلوم ہے ۔
ایک سرکاری تعلیمی ادارے کے ٹیچر نے ایک بار میرے ایک دوست کو مذاق مذاق میں بتایا کہ اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ سرکاری ٹیچر کو حکومت کتنی تنخواہ دیتی ہے اور بدلے میں وہ ٹیچر کس کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو عوام سرکاری اساتذہ کو جینے نہ دیں۔یہ حقیقت ہے ۔ اور تو اور پاکستان ایجوکیشن فاونڈیشن کے تحت چلنے والے سکولوں کو بھی بلدیہ و ضلعی حکومتوں کی طرف سے کمرشل فیسوں کے نوٹس مل چکے ہیں ۔حالانکہ یہ ادارے حکومتی اشتراک کے ساتھ کام کر رہے ہیں مجموعی طور پر تمام پرائیویٹ اداروں کی حیثیت فلاحی اداروں کی سی ہے کیونکہ پیشتر اداروں میں مستحق طلبہ کو مفت ،کچھ کو فیس میں رعایت جبکہ حقیقی بہن بھائیوں کی فیسوں میں بھی رعایت دی جاتی ہے لیکن موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کا کلہاڑا تعلیم پر چلا دیا ہے تاکہ پیسہ حاصل ہو۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پیف پارٹنرز سکولز کو کئی ماہ سے معاہدے کے تحت حکومت کی طرف سے نہ صرف ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ نئے داخلوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے. ان حالات میں تعلیم کا بیڑا غرق نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔
آج میں نے پیف پارٹنرز سکولز ایسوسی ایشن کے ایک اجلاس میں شرکت کی اور صورتحال کا جائزہ لیا ،ان سکولوں میں پڑھانے والے ہزاروں اساتذہ کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں ۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر بڑے بڑے دعوے کرنے والے آج اقتدار میں آکر اداروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے کرنے والے باروزگاروں کو بے روزگار کررہے ہیں جبکہ 50 لاکھ گھروں کے وعدوں کا عملاً جواب سندھ میں لوگوں کے گھر اور دکانیں گرا کر دیا جا رہا ہے ۔
ذرا سوچئے اگر پرائیویٹ اور پیف پارٹنرز سکولز احتجاج پر اتر آئیں اور ان سکولز کے لاکھوں طلباء و طالبات اور ان کے والدین و رشتہ دار سڑکوں پر نکل آئے تو حکمران اپنا ناکام لاک ڈاؤن اور نام نہاد 126 دن والا دھرنا بھول جائیں گے۔ اگر یہ سارے سکول مالکان ایک پیج پر آکر صرف ایک دن بھی اپنے سکول احتجاجاً بند کر دیں تو حکمرانوں کو دن میں تارے نظر آجائیں گے حکومت کو چاہیے کہ اس ذہین و فطین آئیڈیا باز جسے ڈرامہ باز کہنا چاہیے کے اس آئیڈیا کو ترک کر دے ورنہ حکمران اپنے پاؤں پر اپنے ہی ہاتھوں کلہاڑا ماریں گے۔ حکمران ان سکولوں کے سٹاف ، طلبہ اور والدین کا احتجاج برداشت نہیں کر سکیں گے۔اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہوش کے ناخن لیں اور ان بے سرو پا اور مجہول فیصلوں کو واپس لیں ورنہ لکھ لیں کہ “تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں