عشقِ رسول ﷺ اور ہمارا رویہ

ہم ایسی حرماں نصیب قوم ہیں کہ جو مرکزِ وحدت حضور نبیِ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر بھی وحدت اختیار نہیں کر پاتے۔ کسی وقت ہم نے نور اور بشر، موجود اور غیر موجود، غیب کا علم جاننے والے اور نہ جاننے والے، انتقال کر جانے اور پردہ فرما جانے کی بحثوں میں ذاتِ رسول ﷺ کو تقسیم کیے رکھا اور آج ہم نے عشقِ رسول ﷺ کو سرِبازار تماشا بنا دیا ہے۔ توہینِ رسالت کے مقدمے میں جسٹس شوکت صدیقی کے جذباتی ریمارکس اور آنسوؤں کو ہم نے خوب خوب تختہءمشق بنایا۔ میری اپنی ذاتی رائے بھی یہ ہے کہ جج کی زبان کی بجائے اُس کے فیصلوں کو بولنا چاہیے اور جسٹس صاحب بھی اور اُن کی سماعت کے بعد وزیرِ داخلہ صاحب بھی کس کو دھمکیاں دے رہے تھے؟ وہ تو صاحبِ اختیار لوگ ہیں، تحقیق کر کے مجرموں کو سزا دینا ان کا کام ہے نہ کہ کسی عام آدمی کی طرح دھمکیاں دینا۔ بہرحال جج صاحب کے ریمارکس کے بعد ہر دو طرف کے لوگ عجیب ہسٹریائی کیفیت کا شکار نظر آئے، ایک طرف کے لوگوں نے جسٹس شوکت صدیقی کے آنسوؤں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ چونکہ موصوف کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے مقدمہ چل رہا ہے لہٰذا وہ لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیل کے ان کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کے لوگوں نے ایک اور طرح سے کمپین چلائی اور سوشل میڈیا پر اپنے ایمان کی گواہیاں دینا شروع کر دیں اور اس کے آخر میں چیلنج قبول ہے لکھ کر دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دینے لگ گئے، جیسے اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اس کا ایمان مشکوک ہو گیا۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ چیلنج آیا کس طرف سے تھا جسے یار لوگ دھڑا دھڑ قبول کیے جا رہے تھے؟
عشقِ رسول ﷺ کا معاملہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا معاملہ ہے جس پر جذباتیت سے عاری ہو کر رائے وہی شخص دے سکتا ہے جو حضور نبیِ کریم ﷺ کے مقام اور مرتبے سے یا تو واقف نہیں ہے یا پھر دانستہ طور پر اس مقام اور مرتبے کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا۔ یہ وہ واحد جذبہ ہے کہ جس میں مسلمان اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور نبیِ اکرم ﷺ کا دفاع جان پر کھیل کر بھی کرتا ہے۔ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ میں اقبال نے یہی بات اِس انداز میں بیان کی ہے ۔۔۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد ﷺ اُس کے بدن سے نکال دو
اور اِسی روح کو نکالنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر بھی تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد شیطانی کھیل کھیلے جاتے ہیں، کبھی خاکے بنائے جاتے ہیں اور کبھی گستاخانہ مواد کے حوالے سے باقاعدہ مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایمانی غیرت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ پاکستان چونکہ شدید فکری انتشار کا شکار ہے تو ہر طرح کا طبقہ یہاں مل جاتا ہے اور مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ ایسے لبرل فاشسٹ بھی یہاں موجود ہیں جو بیرونی ایجنڈے اور ایما پر مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔ اور ایسے ہی افراد کی طرف سے سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے مختلف پیجز کا مقدمہ اسلام آباد کی عدالتِ عالیہ میں زیرِسماعت تھا جس میں جسٹس شوکت صدیقی ریمارکس دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے۔ جذباتیت سے عاری ہو کر بنیِ اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس پر بات کرنے کے حوالے سے ایک واقعہ ذہن میں آ گیا، علامہ اقبال کی عصری مجلس میں مختلف الخیال لوگ آ کر بیٹھا کرتے تھے جو علامہ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک محفل میں ایک نوجوان آیا اور اُس نے نبیِ اکرم ﷺ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محمد صاحب نے ایسا کہا یا محمد صاحب ایسا کرتے تھے۔۔ علامہ اقبال اُس نوجوان کے منہ سے آقا ﷺ کا نام اِس طرح لیے جانے پر سخت رنجیدہ ہوئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ مجلس میں موجود لوگوں سے علامہ نے کہا کہ اس نوجوان سے کہہ دو کہ یہ یہاں سے چلا جائے اور اس وقت تک میری مجلس میں نہ آئے جب تک آقا کریم ﷺ کا نام لینے کا سلیقہ نہ سیکھ لے۔ بظاہر اُس نوجوان نے اپنی طرف سےمحمد صاحب کہہ کر ادب اور تمیز ہی کا مظاہرہ کیا ہو گا لیکن صاحب تو ہم ہر ایک کو کہتے ہیں اور آقا کریم ﷺ کا نامِ نامی عام لوگوں کے سے انداز سے لینا علامہ اقبال گوارا نہ کر پائے اور نہ ہی اپنے جذبات پر قابو رکھ پائے۔
نبیِ اکرم ﷺ کا عشق مسلمانوں کے خون میں دوڑتا ہے۔ بلاتفریق ایماندار اور بے ایمان کے، نمازی اور بے نمازی کے، پرہیزگار اور گناہگار کے ہر شخص کے جذبات بے قابو ہو جاتے ہیں۔ ایک گئے گزرے مسلمان کے دل میں نبیِ اکرم ﷺ کی محبت رچی بسی ہے اور وہ اُن کے عشق کے اندر ڈوبا ہوا ہے۔ برِصغیر کے ایک بڑے شاعر (نام اِس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہا) کا واقعہ ہے کہ ایک بار وہ شراب پی رہے تھے، جام پر جام لنڈھائے جا رہے تھے۔ اُن کے ساتھ اُن کے کچھ ہندو اور سِکھ دوست بھی تھے، جب وہ شراب کے نشے میں دھت ہو گئے تو اُن کے ہندو اور سکھ دوستوں نے کہا کہ آج اِس کے منہ سے اِس کے نبی(ﷺ) کے بارے میں کچھ غلط کہلوایا جائے۔ اُن میں سے کسی نے نبی ﷺ کی شان میں کچھ گستاخانہ کلمات کہے تو انہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی بوتل اُس کے سر پر دے ماری جس سے اُس بدبخت کا سر کھل گیا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم عاصیوں سے ہماری شفاعت کا آسرا بھی چھین لینا چاہتے ہو۔۔۔۔ تو یہ ہے عشقِ رسول ﷺ، اگر نبیِ مہرباں ﷺ کے عشق میں کوئی مسلمان جذبات میں ڈوب جائے تو اُسے اُس کی بے ایمانی یا اُس کے گناہ یاد دلا کر طعنہ زنی انتہائی غیر مناسب ہے۔
اگر آقا کریم ﷺ کی شان میں گستاخی میرے سمیت کسی بھی مسلمان کے خون کو نہ کھولاتی اور نہ گرماتی ہے اور نہ ہی ہمارے جسموں میں کوئی ارتعاش پیدا کرتی ہے تو پھر جسٹس صدیقی کی ایمانداری اور بے ایمانی کی فکر کرنے اور اس پر رائے دینے کی بجائے ہمیں اپنے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply