نظریہ ضرورت کی موت۔۔ایم اےصبور ملک

مولوی تمیز الدین سے لے کر ظفر علی شاہ تک جو گز رگئے اور جو زندہ ہیں سب کی جیت ہوئی،یہ فیصلہ نہ تو کسی فرد کے خلاف ہے اور نہ ہی کسی محکمے کے خلاف،فرد معاشرے کی ایک اکائی ہوتا ہے اور کسی بھی محکمے میں کسی فرد یا افراد کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،قومیں ہوں یا ملک،نظام صرف اور صرف آئین و قانون کی حکمرانی سے ہی چلتا ہے،کسی طالع آزما کو اس بات کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی کہ وہ یا چند افراد کا گروہ کسی جمہوری معاشرے میں شب کی تاریکی میں اقتدار پر قبضہ کرلے اور پھر ملک کو فرد واحد کی خواہشات پر چلایا جائے،لیکن اس کو پاکستان کی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں 1958کو جب ابھی ملک کو قائم ہوئے محض 11سال ہی گزرے تھے کہ ایک آمر نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور پھر اس مارشل لاء نے جو گل کھلائے اس کی زندہ مثال سقوط ڈھاکہ ہے،حیف کہ ایک آمر نے جب اپنا اقتدار ڈولتا ہوا محسوس کیا تو بجائے قومی اسمبلی کے سپیکر کے اختیارات دینے کے ایک اور فوجی آمر کو دے کر چلتا بنا،جن کی رنگینیوں نے سابقہ آمر کی بوئی ہوئی کانٹوں کی فصل کو تلف کرنے اور اس پر جمہوریت کا سرسبز و شاداب پودا لگانے کے اس کوپانی اور کھاد دے کر مزیدبڑھاوا دیا اور دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت دولخت ہوگئی۔۔

لیکن ذرا ٹھہرئیے ہم نے سبق پھر بھی نہیں سیکھا،سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی ہمار ا چلن نہیں بدلا اور ایک بار پھر ایک آمر نے 5جولائی 1977کو آئین کو روندتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا،اور اگلے 11سالوں میں جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا گیا اُس کا خمیازہ آج بھی ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے،وہ تو اللہ کی طرف سے بلاوا آگیا وگرنہ موصوف اگلے 11سال بھی ہمار ی جان نہ چھوڑتے،ہر مارشل لاء کے اختتام پر پاکستانی قوم کو یہ اُمید ہو تی تھی کہ شاید اب کے ہمارادیس مارشل لاء کے اندھیروں سے چھٹکارا پا گیا،لیکن نہیں صاحب ابھی ایک اور کٹھن منزل طے کرنا باقی تھی،جب ایک منتخب وزیر اعظم نے ایک آرمی سپہ سالار کوریٹائرڈ کرنے کا حکم صادر فرمایا تو اُلٹا وار ہو گیااور نتیجے میں پاکستان پر ایک بار پھر آمریت کا راج قائم ہوگیا،یہ سلسلہ چلا12اکتوبر 1999سے2002تک جب کنٹرولڈ جموریت بحال ہوئی اور پھر محض پانچ سال بعد ہی جب آمر کو اپنا اقتدار ہاتھ سے جاتا ہوا دکھائی دیا تو ایک بار پھر سے 3نومبر 2007کو ایمرجنسی پلس کا نفاذ کرکے جبکہ ملک میں ایک نام نہاد ہی سہی پارلیمنٹ قائم تھی،جمہوریت کی بساط پر اپنے مہرے لگا دئیے گئے،اور عدلیہ کے چند مہروں نے نظریہ ضرورت کا نام استعمال کرکے اس ایمرجنسی پلس کو تحفظ فراہم کیا۔

اس سارے سفر میں چند ایک اعلی ٰ عدلیہ کے ججوں کو چھوڑ کر سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے،سب سے پہلے تو جسٹس منیر جنہوں نے نظریہ ضرورت ایجاد کیا اور باقی آنے والوں نے اس کی آبیاری کی،ایک اندھیرا سا چھایا ہوا تھا،ایک سیاہ رات جس کے پردے سے 17دسمبر 2019کی صبح طلوع ہوئی،یعنی 61سال لگے ہمیں اس بات کا تعین کرنے میں کہ آئین وقانون سے کوئی ماوراء نہیں اور پاکستان میں کسی آئین شکن کی کوئی گنجائش نہیں،پرویز مشرف ایک فرد کا نام نہیں،وہ تو خود اس وقت بیرون ملک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے،بات کرنے کی یہ ہے کہ 6عشرے ہی سہی لیکن بالآخر پاکستان کی عدلیہ نے اپنے اُوپر لگا نظریہ ضرورت اور ہر آمر کاساتھ دینے کا داغ دھو ڈالا،ایک ایسے ملک میں جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایساکوئی فیصلہ بھی صادر ہوسکتا ہے،گو قانون کی نظر میں کسی بھی فیصلے پر جب تک اُس کی روح کے مطابق مکمل طور پر عملدآمد نہ ہوجائے،وہ فیصلہ محض ایک فیصلہ ہی کہلاتا ہے،لیکن پھر بھی اس ایک فیصلے سے کم از کم یہ تو ہوا کہ ایک نیا دروازہ کھلا،تاریخ کا ایک نیا باب لکھا گیا ہے اس فیصلے کی وجہ سے،اس کو صرف علامتی فیصلہ قرار دینا یا یہ کہنا کہ نظرثانی اپیل میں یہ فیصلہ بدل جائے گا یا اس پر عملدآمد کروانا ایک مشکل امر ہے تویہ سب باتیں صرف وہ لوگ کہہ سکتے ہیں جن کے لئے ایسا فیصلہ متوقع نہ تھا،کیونکہ ہم خوئے غلامی کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں رہائی سے ڈر لگتا ہے،کہ کہیں اُڑتے ساتھ پر نہ کٹا بیٹھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاید قدرت کو بھی ہم پر رحم آگیا اور ہماری فریاد سنی گئی،اس فیصلے کو کسی طور پر افواج پاکستان کے ساتھ نتھی نہیں کیا جاسکتا،فوج کے ایک جنرل کی ذاتی خواہش کو فوج کی پالیسی قرار نہیں دیا جاسکتا،پاکستان کی سلامتی کے ضامن اس محکمے سے بھی یہی اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس فیصلے کے بعد خود پر چندطالع آزماؤں کی جانب سے لگائے گئے داغوں کو صاف کرنے کی سعی کرے،اور جیساکہ موجودہ سپہ سالار اور ان کے پیش رو وہ تما م جرنیل جنہوں نے قیام پاکستان نے لے کر اب تک ہمیشہ آئین پاکستان اور اپنے حلف کی پاسداری کی،وہ سب بھی مبارکباد کے مستحق ہیں،لہذا کوئی بھی اگر ایسا سوچتا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی نظریاتی اورجغرافیائی سرحدوں کے ذمہ داروں کے خلاف ہے تو وہ غلط ہے،اس فیصلے نے صرف اس بات کو تعین کیا ہے کہ آئین پاکستان سے بڑھ کر اور کچھ نہیں اور اب پاکستان میں کسی طالع آزما،کسی نظریہ ضرورت کی کوئی گنجائش نہیں،نظریہ ضرورت اپنی موت آپ مرگیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply