کہاں سے آئے, کہاں جانے والے ہیں ہم/محمد رضوان خالد چوہدری

اب جبکہ انسانی ترقی اور علم یہ ثابت کر چُکا ہے کہ انسان موجودہ جِسم بننے تک جسمانی ارتقا سے گُزرا ہے اور فوصل ریکارڈ کے باعث ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ہم سے پہلے انسان نُما ہومو سیپئنز اور اُن سے پہلے ہومو نئینڈر تھالنسز سمیت انسانوں جیسے کئی دوپائے زمین پر رہے ہیں تو قُرآن کے انسان سے متعلق اشارے زیادہ واضح ہُوئے ہیں بس ہم غور نہیں کرتے۔
انسانی جسم کے ارتقا سے متعلق ان دریافتوں سے چودہ سو سال پہلے ہی قُرآن نے تو کہہ دیا تھا کہ پہلے تُم ایسی حالت میں تھے جو قابلِ ذکر بھی نہیں، لیکن تب اس آیت کو سمجھنے کے لیے ضروری علم موجود نہیں تھا، بعد کے لوگ بھی یہ سمجھے کہ شاید یہ آیت اُس قطرے سے متعلق ہے جو سپرمز لے ماں کے پیٹ میں جاتا اور بچے کی پیدائیش میں مدد دیتا ہے لیکن آج ہومو سیپئنز اور ہومو نئینڈر تھالنسز سمیت انسانی ارتقا بیان کرنے والے فوصِلز کی دریافت سے یہ تو واضح ہو چلا ہے کہ یہ آیت کِس بارے میں تھی لیکن اب بظاہر یہ سوال کھڑا ہو جائے گا کہ اگر انسانی جسم واقعی اس ارتقا کے نتیجے میں بنا ہے تو آدمؑ کی آسمانوں میں کہیں تخلیق والے اُس بیان کا کیا ہو گا جو قرآن اور بائبل کے علاوہ کئی دیگر الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ قُرآن تو سائنس سے کئی صدیاں پہلے ایک اکائی سے زندگی شروع ہونے، پانی کے اس سلسلے میں کردار کی بات بھی کر چُکا تھا اور بِگ بینگ کے نظریے اور اُس سے پہلے سبھی سیاروں ستاروں کے باہم ملے ہونے جیسے سائنسی نظریات کا بھی پُرزور حامی ہے، لیکن آج ہمارا ٹاپک آدمؑ کی تخلیق ہے۔

اس سے پہلے کہ میں تفصیل میں جاؤں آپ سُورہ التین کی آیت چار اور پانچ پر غور کیجیے،
اللہ ان آیات میں کہتے ہیں کہ ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا فرمایا پھر پست سے پست حالت کی طرف پھیر دیا۔

اگر آپ ان آیات میں بیان کی گئی بہترین انسانی ساخت کو اُس وقت کا بیان سمجھ لیں جب کسی اور کائنات میں آدمؑ یعنی انسان کو پیدا کیا گیا ہو گا، وہیں جہاں قُرآن کے مطابِق اُس سے زمین پر جانے اور ایک مخصوص ذمہ داری لینے کا عہد کیا گیا تھا تو اُس احسن تقویم کی سمجھ آتی ہے جس میں اللہ نے انسان کو ڈھالا تھا، اُس انسانی ساخت کا نہ تو موجودہ انسانی جسم سے کوئی تعلق ہے، نہ ہی زمین پر ایک خُلیے سے پیدا ہونے والی زندگی کے لاکھوں سال چلتے ارتقا اور اس ارتقا کے نتیجے میں بننے والے انسانی ارتقا سے تعلق ہے، بلکہ اس انسانی جسم کو تو میرے مطابِق اس آیت میں انسان کا پست سے پست حالت میں پھیر دیا جانا کہا گیا ہے۔

گویا انسان پہلے کہیں اور پیدا ہوا، پھر اسے زمین پر ارتقا سے گزرتے اُن دو پایوں میں منتقل کر دیا گیا جو غاروں میں رہتے، ایک دوسرے کو مارتے کاٹتے بے شعور جانوروں جیسی پست ترین حالت میں تھے۔

تبھی تو آدمؑ کو زمین پر خلیفہ بنانے کے اللہ کے فیصلے پر قرآن کے مطابق فرشتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کیونکہ جس جسم میں آدمؑ خلیفہ بن کر ٹرانسفر ہونے والے تھے وہ جسم زمین پر غاروں میں قتل و غارت کرتا پایا جاتا تھا۔
گویا قرآن نے چودہ سو سال پہلے عین وہی بات بیان کی ہے جو آج کا عصری سائنسی علم بیان کر رہا ہے۔

اس بات کو میں ایسے بیان کروں تو بات آسان ہو جائے گی کہ جب اللہ نے کسی دوسری کائنات میں بسی نوعِ انسانی سے زمین پر جا کر اپنی خلافت کی ذمہ داری لینے کا عہد لیا، اُس سے چند لاکھ سال پہلے ہی بِگ بینگ کے نتیجے میں ہماری زمین اور اسکے اردگرد موجود کائنات بنی تھی۔

جب میں کسی دوسری دنیا میں اپنے ہم جِنسوں کے ہمراہ عہدِ الست لے رہا تھا، عین اُس لمحے ہماری موجودہ کائنات میں ایک خُلیے سے بننے والے اجسام میں سے بعض لاکھوں سالوں کے ارتقا در ارتقا کے پراسس سے گُزرنے کے بعد عقل و شعور سے خالی وہ جِسم بن چُکے تھے جو میری شخصیت کا بوجھ اُٹھا سکتے تھے۔
یُوں کہہ لیجیے کہ آدم کے نفس کی خُود میں مُنتقلی سے پہلے غاروں میں رہتا ارتقا پذیر انسانی جِسم کئی لاکھ سال سال تک بہت سی جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں کے پراسس سے گزرتے ہُوئے جانوروں اور چوپایوں کے بیچ اُنہی جیسی جبلّت کا حامل رہتے ہُوئے اس قابل بننے کے انتظار میں تھا کہ کہیں اور رہتے آدم اُسے پہن کر زمین پر خلافت کا امتحان دے سکیں۔
پھر کسی جنّت سے نکالے جاتے ہی انہی تیار شُدہ دو اجسام میں خود کو موجود پا کر آدمؑ اور حوّا ایک لمحے کے لیے تو ہکّا بکّا رہ گئے ہونگے۔
گویا پہلے سے موجود غیرمادی آدمؑ کو وہ جسم بس پہنایا گیا تھا جو لاکھوں سال سے زمین پر زیرِ تعمیر اور زیرِ ارتقا تھا۔

یہ نُکتہ سمجھنا مُشکل نہیں کہ آپ غیر مادی ہیں، ذرا آُپ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھیے یا پھر پیروں کی طرف،
یا چلیے اپنے سر کو ہاتھ لگائیے یا پیٹ اور ٹانگوں سمیت جسم کے کسی بھی حصے کی طرف دیکھ کر بتائیے کہ کیا ان میں سے کسی کو بھی آپ کا نام دیا جا سکتا ہے،
نہیں یہ آپکے ہاتھ آپکے پیر ہیں یہ سب ملیں تو آپ کا جسم بنتا ہے، آپ تو اس جسم کے اندر ہیں، جیسے ہی آپ اس جسم سے نکلیں گے یہ جسم آپکی لاش کہلائے گا۔ یہ نُکتہ سمجھ آ جائے  تو یہ ماننا آسان ہو جائے گا کہ آپ اس جسم میں ایک مسافر ہیں، جیسے کل آپ کہیں سے اس جسم میں آ موجود ہُوئے تھے کل اس سے نکل کر آپ بھی اپنے بابا آدمؑ کی طرح وہیں واپس چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے، پیچھے جسم نامی یہ لباس گل سڑ کر اُنہی زمینی مُرکبّات میں بدل جائے گا جن سے یہ بنا تھا۔
یعنی سمجھنے کی بات بس یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں بھی، اس جسم میں بھی ایک مُسافر ہیں، ایک ایسا حقیقی ٹریولر جو پہلے بھی نہ جانے کتنی کائناتوں کا سفر طے کر کے یہاں پہنچا ہے آئندہ بھی نہ جانے کتنی کائناتوں کا سفر کرے گا۔

جیسے آپکی آمد سے لاکھوں سال پہلے یہاں زمین پر ارتقا در ارتقا کے ذریعے جسم کہلانے والا آپکا یہ لباس اپنی تشکیل کے پراسس سے گزرنا شروع ہو چکا تھا، عین ویسے ہی اس لمحے جب آپ یہاں امتحان سے گزر رہے ہیں کسی دوسری کائنات میں آپکا ایک دوسرا لباس تیاری کے مرحلے میں ہوگا۔
وہاں بعض کائناتوں میں جنتیں ہیں ایک میں جہنم،
آپکے پہننے کے قابل نئے جسم تو جنتوں میں بھی بن رہے ہیں جہنم میں بھی،

یہاں آپکے امتحان کا نتیجہ طے کرے گا کہ آپ اُن میں سے کونسے لباس کے مستحق ٹھہرتے ہیں لیکن بہرحال اس کائنات کے جسم سے دوسری کائناتوں کے کسی جسم میں ہماری منتقلی کا پراسس بہت سُوِفٹ ہو گا،
ہم میں سے بعض جو بہت صالح یا بہت ظلم ہیں، وہ تو مرتے ہی پلک جھپکنے میں خود کو کسی دوسری کائنات کے کسی دوسرے جسم میں موجود پائیں گے,
بعضوں کو قیامت تک انتظار کرنا ہو گا تاکہ اُنکا حساب ہو جائے،
لیکن یہ ایک دوسرا ٹاپِک ہے، جو سادہ سی بات میں اس مضمون کے ذریعے سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ ساخت میں اس دنیا کے ایک حیوانی جسم اور کسی دوسری دنیا کی غیر مادی شخصیت کا امتزاج ہیں اور ہمارے امتحان کا تعلق ان دونوں کی ضروریات سے متعلقہ ہے۔

ہماری شخصیت کے حیوانی حصے یعنی جسم کی ضروریات مادی ہیں اور غیرمادی حصے کی ضروریات غیر مادی ہیں، اور دونوں کی ضروریات پُوری ہوں اسکے لیے ان دونوں کی ضروریات میں فرق کر کے توازُن لانے کی ضرورت ہے۔ اس توازُن کا معیار سمجھانے کے لیے پیدا کرنے والے نے ہمیں اپنی روح سے بھی نواز رکھا ہے جو ہمارے اور ہمارے جسم کے درمیان موجود ہے لیکن ہم اللہ کی روح سے تبھی ہم کلام ہو سکتے ہیں جب نفس اور جسم کی مُشترکہ مشقیں ایک خاص فریکُوئینسی سے بجا لائیں۔ یہ مشکیں الہامی عبادات اور فرض اعمال ہیں۔
یعنی نماز، روزہ، زکوٰة، صدقہ اور احسان وغیرہ جیسے معاملات اسی توازُن کی طرف رہنُمائی کرتے ہیں جس کا حصول درحقیقت اُس خلافت کا ٹاسک پُورا کرے گا جو انسان کو دی گئی تھی۔
المیہ یہ ہے کہ ہم خود کو یہ جسم سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں اور اسی باعث ہم خود کو زمین پر بھیجنے والے خالِق کے اُس پیغام کی حقیقت سے ناواقف رہتے ہوئے یہاں سے واپِس جاتے ہیں جو زمین پر ہمارے عارضی پڑاو کے دوران ہماری رہنمائی کے لیے ہم تک انبیاؑ کے ذریعے بھجوایا جاتا رہا ہے، تبھی ہماری بیشتر زندگی جسم کی ضروریات پُوری کرتے گُزرتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ الہامی عبادات اور عملیات درحقیقت ہمیں اپنے جسم اور روح کی ضروریات میں توازُن سکھاتی ہیں لیکن عین ویسے ہی جیسے ہم نے اپنے آپ پر اپنے لباس یعنی جسم کو ترجیح دی نماز روزے اور دیگر عبادات کا بھی ہم جسم اپناتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ کی پہچان کا راستہ بہرحال اپنی پہچان سے نکلے گا، اپنی پہچان کا راستہ اپنی پیدائیش اور اپنے جیسوں کی روزانہ ہوتی اموات پر غور کرنے سے سمجھ آئے گا۔
ابھی ہمیں یہ بات بھی کرنی ہے کہ وہ خلافت آخر کیا ہے جسکے لیے آدمؑ کو غیرمادی صُورت سے مادی جسم میں منتقل ہونا پڑا اور اُس خلافت کے لیے زمین کو ہی کیوں چُنا گیا، ہمیں اس امتحان کے مقصد کو بھی جاننا ہے۔ ان ٹاپکس سے متعلقہ قُرآن کی بعض آیات میں بینُ السطور بیان کیے گئے معاملات پر پھر بات کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply