ویلکم ٹو دی کلب آف 2024 /مسلم انصاری

دو ہزار سالوں سے پہلے کی چلی آرہی رت ہندسے کے بدل جانے سے ٹوٹ جانے والی نہیں
نئے چڑھے سال کے ہر ایک دن کا سورج اسی رنگ کی اورجا پھینکنے والا ہے
ہارنز دباتے، بیگ ٹانگے، بھیڑ میں پھنسے مرد اس برس بھی اپنے غیر موزوں منیجروں سے نازیبا کلمات ذہن کی ڈائریوں میں بھرنے والے ہیں
اپنے وزن سے زیادہ کا بھوج پیٹھ پر لادے بچے اسکول کے اسمبلی ہالز میں قطار در قطار کھڑے پائے جائیں گے
اس برس بھی سرحد پار سے چھوڑا گیا پانی سینکڑوں دہقانوں کا اناج بہا لے جائے گا اور امیروں کے ذخیرہ فارموں میں مفلوک الحال انسانوں کا اناج چوہے ہی کتریں گے
اس جاری ہوئے برس بھی دن میں دروازوں سے کان لگائی عورتیں بالا خانوں سے جھانک کر گلی میں گزرتے ریڑھی بان سے سبزیوں کے لئے اپنے جھولے لٹکائیں گی پھر وہ مطبخ خانوں میں بند ہوکر چمچ ہلاتی پھیکی پڑ جانے والی محبت کا لمس اپنی نئی ترکاری میں انڈیل دیں گی
اس برس بھی افواج کے کچھ محکمے کچھ علاقوں کو سرنگوں کرنے کے لئے پرانے آپریشنز کو نئے نام سے پاس کروالیں گے
اس چڑھے نئے سال بھی کچرا چننے والا وہی بچہ دکھے گا جس کی بوری میں کچرا کنڈی سے اٹھائی گئی کانچ کی وہی بوتل ہوگی جس کی شراب کی بو امیر کی جیب میں پڑے نوٹ جیسی ہے
ہندسہ بدل جانے سے گم شدہ افراد گھروں کو نہیں لوٹ آنے والے، ان کی مائیں بہنیں سڑکوں چوکوں چوراہوں پر بینرز تھامے وہی الفاظ دہرائیں گی جو کسی آسمانی کتاب میں درج نہیں
ہمارے حکمران اس نئے سال بھی خدا سے ارض پاک پر کسی آفت کے اترنے کی دعا کریں گے تاکہ ہمیں بھکاریوں سا پیش کرکے عالمی برادری سے بھیک کے لقمے کھائے جا سکیں
اس برس بھی کئی لوگ مساجد کی سیڑھیوں پر خدا کے گھر کے دروازے بند ہونے پر سردی سے ٹھٹھر کر دم توڑیں گے کیونکہ دروازے کھولنے سے وضو خانے کے نلکے چوری ہوتے ہیں
اس سال بھی ہر مہینے کی تنخواہ آنے پر کوٹھوں پر رش ہوگا، جسم کی درست قیمت ہر طرح کا ململی لباس اتروا سکتی ہے
ایسا نہیں ہونے والا کہ اس چڑھے سال اندھی گولیاں تتلیوں اور چنبیلی کے پھولوں میں بدل جائیں
3 کے 4 ہوجانے سے ممکن ہی نہیں کہ لوگ جھوٹی محبتیں کرنا بند کردیں اور دلوں کو کعبۃ اللہ کی طرح تعظیمی سمجھا جائے جبکہ یہ خدا کی آماجگاہ ہے
پھندے بنانے والی مِلز خودکشیوں کی روک تھام کے لئے دھاگوں پر تنبیہی اسٹیکرز اب بھی نہیں چھاپنے والیں
کیا اس برس کم بجٹ سے بننے والے غیر معیاری پُل نہیں گریں گے؟ اس سال کوئی ٹرین پٹری سے نہیں اترے گی؟ کیا اس برس ہونے والے الیکشنز میں عافیہ جیسی بیٹیوں کے نام پر ووٹ نہیں لیا جائے گا؟
ہم اس برس بھی اپنے بچوں کے ٹوٹے دانت تکیوں تلے ہی رکھوائیں گے کہ پریاں انہیں لینے آتی ہیں
ہم اب بھی رشوت سے کمایا ہوا نوٹ استری کرکے اپنی سامنے والی جیب میں رکھنے والے ہیں
ہم اس برس بھی بتیوں والی گاڑیوں کے پیچھے اسلحہ تھامے مجبور جوان دیکھ کر سلیوٹ مارنے کا جذبہ پیدا کرلیں گے
اس سال بھی ہونٹوں سے لگانے کے لئے متبادل کی جگہ سگریٹ ہی مہیا کی جائے گی
ہم امراء کی طرح بائکاٹ کریں گے مگر رات کے اندھیرے میں دیمک کی مانند سارا خنزیر نوچ لیں گے
موٹر وے پر اس نئے جاری سال میں کتے بلیاں ایسے ہی کچلے جائیں گے جیسے خواجہ سرا پچک کر مرتے ہیں
ہمارے منہ سے نوالیں اچک لینے والے اس سال بھی زیارات مقدسہ پر ہاتھ اٹھائے دکھیں گے
ہم سب اس برس بھی اپنے بہت سے اہم لوگ، لمحات اور موسم کھونے والے ہیں
ہم اگر اس سال نئے افراد پانے والے بھی ہیں تو بھی پچھلی صدیوں کا خمیازہ کب پورا ہوگا
کیا ثبوت ہے کہ اس برس ہمارے چاند گرہن نہیں لگیں گے؟ یا لسانی فساد بھائی چارے کے باغ میں بینچ پر جا بیٹھے گا؟
ایسی کوئی دلیل نہیں کہ بم دھماکوں کی جگہ 2024 میں لال رنگ نہ پھیلے کہ وہ خون کی جگہ گلاب کی پتیوں کا ہو!!

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply