عمران خان کی زندگی ایک مشعل ِ راہ/روبینہ فیصل

میں عمران خان سے تین دفعہ مل چکی ہوں اور ان ملاقاتوں کا حال کالموں  میں لکھ بھی چکی ہوں۔
2008میں ابھی مینار پاکستان والا جلسہ نہیں ہوا تھا اور سیاست میں خان صاحب کو ابھی ماننے والے بہت کم تھے اور کبھی وہ وزیر ِ اعظم بھی بن سکتے ہیں یہ تو کسی کو گمان بھی نہیں تھا۔ اس لئے خان صاحب سے ملنا، ان سے باتیں کر نا، کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ مگر میرے لئے عمران خان اس وقت بھی ایسی پسندیدہ شخصیت تھے کہ جن کی خاطر میں اپنے مہینے  بھر کے بچے کو امّی کی پاس چھوڑ کر ملنے چلی گئی تھی۔ اس وقت ایسی قربانیاں اپنے لوگ صرف بالی ووڈ کے فنکاروں کے لئے ہی دیا کرتے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب،عمران خان میرے نزدیک کوئی خاص قد کاٹھ کا سیاسی رہنما نہیں تھا۔ وہ میرے لئے صر ف ایک ایسا انسان تھا جس کے دل میں پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کر نے کا خواب اور غریب پاکستانی کے لئے کچھ کر نے کا جذبہ بہت واضح طور پر نظر آتا تھا اور بس یہی چیز میرے نزدیک اسے ایک خاص انسان بناتی تھی۔ اس خاص انسان کو ملنے کے بعد دل میں اس کی قدر مزید بڑ ھ گئی۔

خان صاحب کی اسی ٹرپ میں انہیں ائیر پورٹ تک چھوڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور ان دو ملاقاتوں کی یادیں آج بھی تازہ دم ہیں یوں جیسے کل کی بات ہو۔

2012میں دوسری ملاقات ہوئی۔ تب ان کا سیاسی قد بڑھ چکا تھا، اسی حساب سے یہاں کینیڈا میں ان کے گرد لوگوں کا ہجوم بھی سائز میں بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنا چہرہ بھی بدل چکا تھا۔ اس ملاقات میں صرف پریس کانفرس میں ان کے ساتھ سوالات کا موقع ملا اور ان کے قریب بیٹھ کر باتیں کرنے کی سعادت نہ حاصل ہو سکی۔ پہلے دورے کی نسبت اس والے میں ان کے چہرے پر خواب کم اور عزم زیادہ نظر آئے، جس کی وجہ سے چہرے پر تناؤ کی لکیریں اُبھر آئی تھیں۔

ان دو ملاقاتوں کا ذکر اس لئے ضروری ہے کہ اب جو بات میں کہنے جا رہی ہوں اس کا مقصد، خان صاحب کے بارے میں مخالفین کو کچھ نہیں بتانا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ان میں سے 90  فی صد ان کے حاسدین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خان صاحب کی خوبیوں کو ان کے حامیوں سے زیادہ جانتے ہیں اور اسی آگاہی نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں، اور ان کو ایک مسلسل بغض اور حسد میں مبتلا کررکھا ہے۔یہاں مجھے چند باتیں خان صاحب کے حامیوں کو ان کے مریدوں کو بتا نا بلکہ یاد دلانا ہے۔۔ عمران خان “عمران خان” کیوں ہے؟ اور اب میرے جیسے انسانی اورپاکستانی تاریخ سے آگاہی رکھنے والے لوگ بھی انہیں مرشد کیوں کہنے لگے ہیں ؟

پاکستانی مَردوں کا اسلام جیسے چار شادیوں سے آگے نہیں بڑھتا اسی طرح یقین مانئے خان صاحب کے مخالفین تو چھوڑیں ان کے مریدوں کا بھی خان صاحب کی سحر انگیز پُر کشش شخصیت اوررومانوی افیرز کی کہانیوں سے آگے نہیں بڑھتا۔

عمران خان کی ذات کو ان چیزوں سے ہٹ کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے کہ اس کی ذات سے آپ کیا کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔
سب سے پہلے آجائیں اللہ پر توکل۔۔دل سے اس بات پر ایمان ہو تو بندہ، طاقتوروں کے آگے نہیں جھکتا۔یہ سب سے پہلا سبق ہے جو خان صاحب کی ذات سے ملتا ہے۔
پھر آجائیں جسمانی فٹنس کی طرف۔۔ میں نے ایک دفعہ فیس بک سٹیٹس بھی لگایا تھا کہ میں جب ایکسرسائز سے تھکنے لگتی ہوں تو میرے سامنے عمر ان خان آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ جم میں کچھ فرینڈز نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تم اتنی سخت ایکسرسائز اتنی سہولت سے کیسے کر لیتی ہو ؟ تو میں نے انہیں عمران خان کی دھرنے میں پش اپس لگانے کی ویڈیو دکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ میری موٹیویشن یہ شخص ہے۔ اس کو فالو کر نے والے سخت جسمانی مشقت بھی نہ کر سکیں تو کیا فائدہ اسے فالو کر نے کا۔ خان سے محبت کر نے والے تن آسان نہیں ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کی زندگی سے تیسری چیز جو سیکھی جا سکتی ہے وہ ہے خودداری اور عزت نفس۔ اس کی کر کٹ کی زندگی دیکھ لیں، گوروں کی آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور اس احساس ِ کمتری کو ختم کیا جو ہماری سکن میں یہ کہہ کہہ کر انجیکٹ کیا ہوا تھا کہ گوروں سے عزت سے ہارنا ہی بڑی بات ہے یعنی جیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس ماحول میں خان صاحب نے کہا کھیلنا ہے تو برا بری کی سطح پر کھیلنا ہے۔ بوتھم، لِلی کون تھا جس کے چیلنج کا جواب نہیں دیا؟

میں خان کے ایسے فالورز کو دیکھتی ہوں جن میں عزت نفس نام کی چیز نہیں اور وہ اپنی ضرورتوں یا عیاشیوں کے لئے ہاتھ پھیلانے سے باز نہیں آتے تو میں سوچتی ہوں ایسے فالورز سے تو مخالفین ہی اچھے کم از کم وہ خان کی ذات پر ایمان تو نہیں رکھتے نا۔ یاد رکھیں خان صاحب کے ہی الفاظ ہیں کہ ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد سے بھی جیب خرچ لینا گوارا نہیں ہوتا تھا۔

چوتھا نکتہ ہے “احساس”۔۔۔ جب میں بے حس، خود ستائی اور خود نمائشی میں گھرے خان کا کوئی فالورز دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ان ذاتی مفاد پرستوں نے خان کی ذات سے کیا سیکھا؟ خان تو وہ شخص ہے جس نے اپنی ماں کی بیماری کی تکلیف کو کتنے لوگوں کی تکلیف کا علاج کرنے کی وجہ بنا لیا تھا۔ جس شخص کو اپنی ذات کی خاطر اپنے باپ سے جیب خرچ مانگتے شرم آتی تھی اس نے غریبوں کے لئے کہاں کہاں ہاتھ نہیں پھیلائے ۔۔ اسی احساس نے اس سے ہیلتھ کارڈ اور پناہ گاہیں اور احساس پروگرام بھی شروع کروایا۔جب جمائما کو جعلی ٹائلوں میں اور کبھی کسی جھوٹے الزام میں ذلیل خوار کیا گیا تو اسی احساس نے عمران خان کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ جب اس جیسے نامی گرامی ہیرو کو اس ملک میں انصاف نہیں مل سکتا تو باقی عام غریب لوگوں کے لئے کیا ہی قیامت ہو گی۔ اس دن سے اس کی انصاف کے لئے لڑائی شروع ہو گئی۔ یہی دوسروں کا احساس ہمیں اچھا انسانی معاشرہ بنانے میں مدد دیتا ہے۔ یہ بات عمران خان کے فالورز کو پلے سے باندھ لینی چاہیے۔

پاکستانی معاشرے میں کتب بینی تقریبا ًناپید ہو چکی ہے۔ عمران خان کے فالورز کو ان کی ذات سے یہ سبق بھی لینا چاہیے تھا لیکن نہیں لیا جارہا۔ عمران خان اس وقت شاید وہ واحد پاکستانی سیاسی لیڈر ہے جو کتاب پڑھتا ہے، جو قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھتا ہے۔ میں پھر دہراتی ہوں کہ عمران خان کی زندگی، اس کی شخصیت میں بہت سی روشنیاں ہیں جو ہم جذب نہیں کر پارہے اور مخالفین کے پراپیگنڈے کے جواب دینے میں الجھے رہتے ہیں جس کا وجود ہی کوئی نہیں ہوتا۔ وہ مقابلہ اپنی جگہ مگر خان کی پیروی کرنا اپنی جگہ وہ ٹھیک سے نہیں ہو رہی۔ سبق بغیر پڑھے صفحات الٹ رہے ہیں۔
سادگی، اس کی ذات کا وصف ہے۔ بناوٹ سے لتھڑے معاشرے میں یقین جانئے خان صاحب کی ذات کی یہ خوبی تقلید مانگتی ہے۔ اپنے مزاج کو سادہ رکھیں۔
ڈسپلن؛ یہ ایک ایسا وصف ہے جس نے خان صاحب کو جیل میں بھی متحرک اور اینرجیٹک رکھا ہوا ہے۔

خود اعتمادی،مستقل مزاجی اور بلند عزم رکھنا، یہ سب اوصاف خان کے  چاہنے والوں میں موجود ہونے چاہیے ورنہ یہ عشق پھیکا اور بے سواد ہے۔ جس کا فائدہ نہ خان کو ہوگا اور نہ چاہنے والوں کو۔۔۔ یہ مشقت لایعنی ہی رہ جائے گی۔ اس ساری تحریک میں روح دیر پا اسی صورت برقرار رہے گی جب ہم مر شد کے رنگ میں ر نگے  جائیں گے۔

اب وہ محض ایک سیاسی رہنما نہیں، اب اس کی زندگی سے نسلوں کی زندگیاں روشن ہوسکتی ہیں۔کردار سازی میں ایک عملی نمونہ آپ کے سامنے ہے۔ اس کا خاکہ ذہن میں رکھیے، ہر شعبے میں رہنمائی مل جائے گی۔ خان آپ کو سر اٹھا کر زندگی جینا سکھاتا ہے۔ یہی سبق لیں۔۔ اور یہی دشمن کی سب سے بڑی شکست ہو گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب ایک جسمانی طور پر مضبوط ، باعزت، خوددار، دلیر، ایماندار، باشعور اور احساس کر نے والی نسل تیار ہو کر جھوٹ اور بے غیرتی کی مٹی سے گوندھی گئی بزدل، بکاؤ  نسل کو ہرا دے گی تب عمران خان کی جیت ہو گی۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply