الیکٹران کی پیدائش/ثاقب الرحمٰن

محبت کے کچھ روپ ہیں اور انرجی کے کچھ روپ ہیں۔ ہمیں تار میں بہتے الیکٹران نظر کیوں نہیں آتے۔ اسے نظروں کی رسائی کی حد جانئے۔ زرا میری نگاہ سے اسے دیکھیں۔ ہزاروں کلومیٹر دور تربیلا اور ورسک میں پانی کی تیز دھارا بہتی ہے وہ دھات کے پروں کو دھکیلتی ہے تو مقناطیس کے بطن سے ایک ننھا الیکٹران وجود پاتا ہے۔ اسے پنگھوڑا فراہم نہیں، مگر جھولتی تار کے ہچکولے ضرور میسر ہیں۔ اس الیکٹران کو پہلے سانس کے ساتھ ہی کام شروع کرنا ہے، تانبے سلور پر بہنا ہے لمبا سفر کرنا ہے اور آن کی آن میں کرنا ہے۔ بیابانوں، جنگلوں اور پہاڑوں کو پار کرنا ہے اور کئی ٹرانسفارمروں سے گزر کر آپ کے پاس پہنچنا ہے۔ راستے میں اس کے کئی بھائی بہن بھی ہونگے جو لائن لاس نامی حادثات میں مارے گئے، ان سب تکالیف کے بعدالیکٹران آپ کے کمرے میں پہنچے اور انہوں نے پروانے کی طرح اپنی جان کی قربانی دی آپ کے بلب کو روشن کیا۔

سوچیں اس الیکٹران کی آخری خواہش کیا رہی ہوگی؟

الیکٹران چاہتا ہو گا کہ وہ بلب میں فنا ہو کر کسی کمرے کو روشن کرے، کسی پنکھے میں داخل ہو کر گرمی کو زائل کرے، کسی جوسر مشین سے گزر کر فرحت افزا مشروب بنے، کیونکہ سپاہی یہی تو چاہتا ہے کہ اس کی جان کسی بڑے مقصد کے چھوٹے سے حصے کی بھینٹ چڑھے۔ اب سوچیں کہ دن کی روشنی میں جلتے بلب میں جب اس کی جان کنی ہو گی تو اس بےمقصد موت پہ اس کی تکلیف کا عالم کیا ہو گا؟ خالی کمرے میں چلتے پنکھے پہ جان وار کر اس کی آخر سسکی کیسی ہو گی؟

یہ ضائع ہوتے کروڑوں الیکٹران اس گلاب کی طرح ہیں جو فروخت ہونے بازار میں آئے اور بک نہ سکے، پھر اگلے دن خریدار کی آس میں مرجھا گئے، کسی ذلف میں نہ اتر پائے موت کے گھاٹ اتر گئے اور ان کی خوشبو رائیگاں گئی۔ الیکٹران بھی تو گلاب ہیں، سنگ مزار پہ پڑا گلاب کم از کم ایک تاثر، ایک یاد ہے مگر ضائع ہوتا الیکٹران تو ضیاع اور فقط ضیاع ہے۔ اگر احساس ہو تو یہ بڑی چیز ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کسی سے کوئی گزارش نہیں ہے۔ جو نمک خرید سکتا ہے اسے پورا حق ہے کہ اسے پانی میں گھول کر بہا دے۔ جو الیکٹران خرید سکتا ہے وہ اربوں الیکٹران آن میں ضائع کرنے کا حق تو رکھتا ہے جواز مگر نہیں رکھتا۔ ہم یہاں ضائع شدہ الیکٹران کی یاد میں اک شام برپا رکھ سکتے ہیں، ہم اس شہر ناقرار میں کچھ بےقرار الیکٹرانز کی بےوجہ و بےمقصد موت پر چھ حروف ارزاں کر سکتے ہیں۔
دن کی روشنی میں روشن بلب دیکھیں تو اس خاموش موت کو یاد رکھیں۔ یہ بہت دور سے آیا مسافر ہوتا ہے۔ سمارٹ فون کی سکرین بھی اسی الیکٹران کے رقص کا پرتو ہیں، ہمارا آپ کا تعلق بھی اسی الیکٹران کی قربانی کا صدقہ ہے

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply