فیض کو ایک “ملا” کا سلام۔۔۔ رعایت اللہ فاروقی

ہر صدی ایک شاعر کی صدی ہوتی ہے جس پر وہ رج کر راج کرتا ہے اور اس صدی کے باقی شاعر اس کے درباری نظر آتے ہیں۔ یہ اس راج کا ہی اثر ہوتا ہے کہ وہ آنے والے زمانوں میں عظیم ترین شاعروں میں شمار ہوجاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی پچھلی تین صدیاں دیکھیں تو اٹھارہویں صدی میر تقی میر کی تھی۔ اس صدی پر انہوں نے جم کر راج کیا۔ ان کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ ان کا تقابلی جائزہ حافظ شیرازی جیسے فارسی شاعری کے خداوند سے کیا جاتا ہے۔ انیسویں صدی اسد اللہ خان غالب کی صدی تھی۔ تعجب ہے کہ تاعمر پینشن جیسے شدید بحران سے دوچار رہنے کے باوجود وہ اتنی اعلیٰ درجے کی شاعری کر گئے۔ وہ ان دو زمانوں کے سنگم پر کھڑے تھے جہاں مغل شاہی دربار سے وابستگی آخری سانسیں لے رہی تھی اور انگریزی دربار سے جڑنا قابل فخر گرداننا شروع ہو رہا تھا۔ غالب ان دونوں درباروں کے بیچ ٹینس بال بنے رہے۔ وہ پوری اردو شاعری کا نصف جوبن ہیں۔ بیسویں صدی اقبال کی صدی ہے۔ یہ وہ عہد تھا جب برصغیر کے مسلمان اپنی شناخت کے لحاظ سے فنا کے گھاٹ اتر رہے تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری انہیں نیا حوصلہ اور شناخت دینے کے لئے وقف کردی۔ انگریزی اداروں میں پڑھے، جرمن اداروں میں استاد رہے مگر دیسی اور مسلمان ایسے کہ چلم ان سے منسوب ہو کر سرفراز ہوگئی اور علامہ انور شاہ کشمیری جیسا محدثِ وقت اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے طوطی زماں مولوی ان کے حضور با ادب ملتے ہیں۔
فیض احمد فیض کے ساتھ تاریخ نے سب سے بڑا سانحہ یہ کیا کہ غلط تاریخ پر پیدا کردیا۔ وہ اپنے وقت سے 80 سال قبل آ گئے۔ انہیں اکیسویں صدی میں آنا چاہئے تھا لیکن وہ عین اس زمانے میں آگئے جب اقبال کے سوا کچھ دکھتا ہی نہ تھا۔ ایک نیام میں دو تلواریں اور ایک صدی میں دو عظیم شاعر جمع نہیں ہو سکتے۔ ان کی شاعری ہمارے اپنے عہد کی شاعری ہے۔ وہ شاعری ہے جسے سن کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی پڑوسی بول رہا ہے۔ اپنے ہی محلے کے لگتے ہیں۔ بیگم سرفراز اقبال نے انہیں کسی اور جانب متوجہ ہونے نہ دیا ورنہ اقبال کے شاہین کی طرح وہ بھی کوئی پرندہ ضرور پالتے کہ ماحول پرندے پالنے کا بن چکا تھا۔ مجھے فیض کی معصومیت بے انتہاء پسند ہے۔ اس پر مر مٹنے کو جی کرتا ہے۔ مجھے انکے لینن ایوارڈ لینے سے گھن آتی ہے، انہیں مار ڈالنے کو جی کرتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ کمیونسٹوں کا ایوارڈ تھا بلکہ اس لئے کہ یہ ایوارڈ ان سے لیا جو صرف عقوبت خانوں میں ہی ایک کروڑ کے قریب شاعروں، ادیبوں، ڈرامہ نگاروں، کسانوں اور مزدوروں کو قتل کر چکے تھے۔ لیکن شائد فیض بے خبر رہے ہوں۔ شائد انہوں نے ان سانحوں سے متعلق خبروں کو جھوٹا پروپیگنڈہ سمجھا ہو کیونکہ یہ بات تو طے ہے کہ فیض کی پیشانی ایک سچے انسان کی پیشانی ہے۔
فیض احمد فیض جیسے ترقی پسند شاعر کو ان کے یوم وفات پر اس ملا کا سلام پہنچے کہ یہ ملا کمیونسٹ یا لبرل نہیں جو اقبال کی عظمت کا ہی منکر ہو جائے ! ! !

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply