برصغیر کی فلمی دوستیاں/ناصر خان ناصر

پاک و ہند کی فلمی دنیا ایک ایسی انوکھی طلسمی، روپ بہروپ کی جادوئی دنیا ہے، جس کے رنگ ڈھنگ نرالے اور خوشنما ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ نہایت مصنوعی بھی رہے ہیں۔ یہ دن کو رات دکھانے اور منوانے والی ایسی دنیا ہے جہاں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ مکر و فریب، چالبازی، مایا جال، روپ بہروپ، ملمع اور جھوٹ اس دنیا کے وہ سکے ہیں جن کو کھوٹا ہونے کے باوجود یہاں استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی دنیا میں بے لوث ایثار، خلوص اور محبت کی چند مثالیں ایسی بھی ہیں جن کو عموما بے رحم اور خود غرض فریبی فلمی دنیا میں ناقابل یقین سمجھا جاتا ہے۔
1942 A love story

اپنے وقت کی ایک خوبصورت ترین فلم تھی۔ اس فلم کے ایک بے حد خوبصورت سین میں منیشا کوئرالہ کو اپنا دوپٹہ لہراتے ہوئے ایک وادی میں اتراتے اور اترتے ہوئے یوں دکھایا جاتا ہے جیسے کوئی اپسرا بادل بن کر سورج کی کسی جگمگاتی ہوئی  کرن کی طرح آکاش سے دھرتی پر اتر رہی ہو۔

برسبیل تذکرہ منیشا کا تعلق نیپال کے شاہی پریوار سے ہے۔ انھیں بالی وڈ فلموں میں لانے کا سرا کسی اور کے نہیں بلکہ بالی وڈ کی لیجنڈری اداکارہ و رقاصہ مادھوری ڈکشٹ صاحبہ کے سر جاتا ہے۔
منیشا نے مادھوری سے ملاقات کی اور فلم میں کام دلوانے کے لیے مدد کی درخواست کی۔ مادھوری کو ان کا بھولپن سے بھرپور پراعتماد چہرہ اتنا اچھا لگا کہ انھوں نے اپنے پرسنل فوٹوگرافر کو بلوا کر منیشا کے نئے فوٹو شاٹس سیشن کروائے اور ان کی خوب پبلسٹی کروا کر، اپنے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے منیشا کو کام دلوایا۔ بے شک منیشا کا اپنا نیچرل ٹیلنٹ، قدرتی حسن، دلکشی و خوبصورتی اور خوش قسمتی بھی ان کی معاون رہی ہے۔ یہ ادکارہ کینسر سے جنگ جیت چکی ہیں۔ رب العالمین انھیں صحت کاملہ، عاجلہ و مستمرہ عنایت فرمائیں۔

بالی وڈ میں ہیروئینوں کے آپس میں مقابلے، باہمی حسد، رنجشوں اور ایک دوسرے کو برسرعام نیچا دکھانے کے واقعات ہر طرف بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان حالات میں اس قسم کا تعاون اگرچہ کوئی نئی انوکھی اور انہونی بات جیسا ہی لگتا ہے مگر بالکل نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل برصغیر فلم انڈسٹری کی پہلی آئٹم گرل ککو نے بھی ترس کھا کر کم سن ہیلن کو اپنے پروں تلے لے لیا تھا۔ انھوں نے ہی ہیلن کو رقص کی تعلیم دلوائی، پہلے اپنے ساتھ کورس میں شامل کیا اور پھر لاتعداد فلموں میں کام دلوا کر اپنے ساتھ ہم رقص کروایا۔ ککو ہی ہیلن کو بطور اپنا جانشین فلمی دنیا کو اپنا تحفہ پیش کر کے کسمپرسی اور بیماری میں یہ دنیا چھوڑ گئیں تھیں۔ ہیلن آج بھی ان کو یاد کر کے آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
اسی تعاون کی ایک اور بہت بڑی مثال بھی ماضی کے بالی وڈ میں موجود ہے۔

نرگس کی والدہ جدن بائی اور نمی کی والدہ وحیدن بائی  کی جان پہچان کلکتہ کے بوو بازار سے لے کر چاوڑی تک کے اس زمانے سے تھی جب ان دونوں کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ جدن بائی  شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں تو وحیدن بائی  ان سے ملنے اپنی بیٹی نواب بانو کے ہمراہ چلی آئیں۔

ابھی نواب بانو صرف نو برس کی تھیں کہ وحیدن بائی  کی وفات ہو گئی۔ وحیدن بائی  تب تک نامور گلوکارہ بن چکی تھیں اور محبوب صاحب کی فلموں میں بھی کام کر چکی تھیں۔ اداکارہ جیوتی بھی ان کی رشتہ دار تھیں۔

پھر حالات نواب بانو کو فلمی دنیا میں لے آئے تو ان دنوں راجکپور اپنی مشہور زمانہ فلم برسات میں نرگس کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ جدن بائی  نے کہہ سن کر فلم برسات کی کہانی میں تبدیلی کروائی  اور نمی کو اس فلم میں ایک اہم کردار کے ذریعے نہایت شاندار طریقے سے لانچ کرنے کا پروگرام طے کیا گیا۔ یوں محبوب صاحب اور جدن بائی  کی بدولت نواب بانو عرف
نمی کی یہ پہلی فلم ہی سخت دھماکہ خیز اور کامیاب ثابت ہوئی ۔ نمی عمر بھر نرگس اور جدن بائی  کی احسان مند رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھارت کی فلمی دنیا میں کئی بڑی ہیروئینوں کی آپس میں بہت دوستیاں رہی ہیں۔ ان میں مینا کماری اور نرگس کی دوستی بطور ضرب المثل مشہور ہے۔ یہ دونوں نامور ہیروئین اس زمانے میں ٹاپ پر ہونے کے باوجود کسی قسم کے مقابلے بازی پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔ اسی طرح نور جہاں اور ثریا نے بھی اپنی دوستی نہایت بردباری اور وضعداری سے نبھائی۔ ان دونوں ہیروئینوں کی وجہ شہرت ان کی گلوکاری اور اداکاری دونوں فیلڈز میں کامیابی کی بدولت تھی۔ یہ دونوں اپنی فلموں کے گانے خود گایا کرتی تھیں۔ انمول گھڑی میں دونوں نے ایک ساتھ کام کیا اور اس ساتھ نے ان کی لازوال دوستی کو بھی جنم دیا تھا۔
ہم رب العزت سے دعاگو ہیں کہ وہ ہزاروں مغموم چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والی ان تمام اہم ہستیوں کی مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply