مقدمہ: رضوانہ تشدد کیس/اعزاز کیانی

پاکستان میں اس وقت جو دوسرا مسئلہ زیر بحث ہے وہ ایک جج کی اہلیہ کا کمسن ملازمہ پر تشدد, رضوانہ تشدد کیس, کا مسئلہ ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ملزمہ کو آج عدالت پیشی پر, ضمانت خارج ہونے پر, گرفتار کر لیا گیا ہے اور ممکن ہے آج ہی جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا جائے۔

 

 

 

 

یہ صرف کسی ایک جج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس نوع کے مختلف واقعات اس سے پیش تر بھی سامنے آ چکے ہیں۔ سن صغیر یا کم سنی کی ملازمت دراصل پاکستان کا عام سماجی مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کا بنیادی سبب مہنگائی کا بالائی حدوں کو چھونا اور عام غربت ہے۔ چنانچہ پاکستان میں متعدد جگہوں پر , ورکشاہوں و دکانوں, ملوں و فیکٹریوں, گھروں و دفاتر , مزدوروں و مستریوں کے ساتھ, ان کمسن بچوں و بچیوں کو ملازمت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ استحصال و تشدد ان بچوں کی زندگیوں کا گویا جزو لازم ہے۔

میرے نزدیک یہاں بنیادی طور پر دو اہم غلطیاں کی جساتی ہیں ۔
پہلی غلطی کے مرتکب دراصل والدین ہوتے ہیں جو بچوں کو کمسنی میں ملازمت پر مجبور کرتے ہیں۔ میرے نزدیک والدین کو کسی طور بچوں کو ایسی ملازمت پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ اگر بالفرض اس بات کی اشد ضرورت پیدا ہو گئی ہے مثلاً افراد خانہ کثیر ہیں اور فرد واحد کی ملازمت کثرت کی کفالت کو ناکافی ہے یا بچے نے اسکول و مدرسہ چھوڑ دیا ہے اور ظن غالب ہیکہ یہ آوارہگردی جیسی کسی قبیح عادت کا شکار ہوجائے گا لہذا اسکی ملازمت یا کسی عملی ہنر کی تعلیم ازبس لازم ہے , تو ان مذکورہ یا ان جیسی دیگر صورتوں میں والدین کو چاہئیے کہ بچے جب تھوڑی سمجھ بوجھ کی عمر کو پہنچیں تو انہیں اوّل  کسی جاننے والے یا قابل اعتبار فرد کے ہاں, معقول اجرت پر , ملازمت پر رکھیں یا گھر کے قرب و جوار میں کسی جگہ ملازمت ہر رکھیں جہاں نہ صرف انکی متواتر نگرانی ہوتی رہے بلکہ وہ شام کو واپس گھر بھی آ سکتے ہوں۔ اچھی عمر کو پہنچے ہوئے (یانوجوانوں) کے برخلاف یہ کم سن بچے نہ صرف یہ کہ خاموشی یہ تشدد سہتے ہیں بلکہ ان پر تشدد کرنا بھی نسبتاً سہل ہوتا ہے, نیز یہ کمسن بچے ملازمت چھوڑنے یا تبدیل کرنے جیسے فیصلے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔

دوسری بنیادی غلطی ان مالکان کی ہے جو بچوں پر تشدد کرتے ہیں۔ اس کے بھی دراصل دو ہی اسباب ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے ہاں دراصل بنیادی اخلاقیات کا شدید فقدان ہے۔ لہذا یہاں ملازمین کو زر خرید غلام متصور کر لیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تشدد دراصل “حاکمانہ نفسیات ‘ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ متشدد شخص کی نفسیات کی تہہ میں دراصل یہ خیال کارفرما ہوتا ہے کہ میں گویا مختار کُل ہوں اور کوئی فرد و ادارہ میری باز پرس کا مجاز نہیں ہے۔
دوسرا سبب قانون کی سست روی یا مناسب تر الفاظ میں قانون کا عدم نفاذ ہے۔ یہ دیرینہ المیہ ہے کہ یہاں “بڑے” ہر قانون سے بڑے ہیں اور حکام و افسران بالا ہر قانون سے ” بالا” ہیں۔
قانون کا عدم نفاذ جرائم کو آسان کر دیتا ہے اور قانون کا بے لاگ اطلاق جرائم کو روکنے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply