عقل بڑی یا بھینس

عقل بڑی یا بھینس
محمود شفیع بھٹی
پچپن میں جب کسی بڑے سے تعارف ہوتا اور محترم جب پوچھتے کہ کونسی جماعت میں ہو تو بتایا جاتا کہ فلاں جماعت میں پڑھتا ہوں۔ اکثر تعارف کے بعد یہی سوال ہوتا تھا کہ ”عقل بڑی یا بھینس ؟” تو آگے سے پچپن کی معصومیت جواب دیتی کہ بھینس۔ اس جواب کے بھی کئی محرکات ہوتے تھے۔ دماغ سائز کو ملحوظ خاطر رکھتا ، دماغ رقبے کو ملحوظ خاطر رکھتا تھا۔ اس لئے سائز بھینس کا بڑا ہوتا ہے تو جواب بھی یہی آنا ہوتا تھا کہ بھینس۔ حالانکہ بھینس کے گلے میں رسی عقل کی بدولت ہی پڑی ہوتی ہے، بھینس کو اپنے اشاروں سے چلانا عقل کی بدولت ہوتا ہے لیکن پچپن ،پچپن ہی ہوتا ہے۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف! چند سوشل میڈیائی بندوں کو گزشتہ ہفتے اسلام آباد سے اغواء کیا گیا۔ الزام ایجنسیز پر لگایا گیا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ متعلقہ افراد کیا تھے؟ یہ افراد لبرل نظریات کے حامل اور انسانیت پسند تھے۔ چلو جی مان لیا یہ انسانیت پسند تھے لیکن وہ کونسا طرز عمل تھا جس کی وجہ سے ریاست اور مذہب کی رٹ چیلنج ہوئی؟ وہ کونسی بات تھی جس نے قابل دماغوں کو پابند سلاسل کیا؟ اکیلے انکے نظریات نہیں تھے، اکیلی انکی تحریریں نہیں تھیں۔ دراصل ایک سوچ جو لبرل نظریات کا لبادہ اوڑھ کر ریاست،مذہب اورمولوی پر تنقید کررہی ہے۔ یہ گمشدگیاں اسی بات کا شاخسانہ ہیں۔
میں پروفیسر سلمان حیدر کی گمشدگی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور جب وہ لاپتہ ہوۓ میں بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھا۔ لیکن جب سے”بھینسا” بند ہوا ہے سماجی رابطے کی تمام سائیٹس پر ماتم کی کیفیت ہے۔ ہر بنده جو اپنے آپکو لبرل کہتا ہے ماتم کناں ہے۔لیکن اس دوران لاپتہ افراد کے متعلق کوئی بات نہیں کررہا ۔ ہر بندہ بھینسے کے جانے کا غم منا رہا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ وہ صفحہ جس نے مذہب کو ٹارگٹ کیا، جس نے ریاست کی رٹ چیلنج کی، اس کو کیسے سلیمان حیدر سے منسوب کیا جارہا ہے؟ سلمان حیدر خالص لبرل شخص ہیں ۔وہ دہرئیے نہیں کہ مذہب کو اڑانے کا ایسا اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کریں۔ بات کچھ اور ہے، پروفیسر کے نظریات کو کندھا بنا کر مذہب کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آج وہی پچپن والی ذہنیت جاری ہے لبرلز بجاۓ سلمان حیدر کی ذات اور کاموں پر بات کریں۔ہر طرف بھینسا،بھینسا کی رٹ لگائے ہوۓ ہے۔ بھینس ہو یا بھینسا اس کی افزائش ہی قربانی کے لئے ہوتی ہے اور اگر بھینسا کسی غیر مسلم کے گھر پیدا ہو تو اس کی بلی چڑھائی جاتی ہے۔اس لئے مذہبی لوگوں کو قربانی مبارک ہو اور مذہب پر تنقید کرنے والوں کو بلی مبارک ہو۔ جب تک نظریات کا کندھا غلط بندوق کے لئے استعمال ہوگا ایسے واقعات ہوتے رہیں۔ اس لئے بجاۓ بھینس کو بڑا کہنے کے عقل کو بڑا کہیں اور فسادات سے بچیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply