دلہن — وہ بھی روڈ پرا

دلہن — وہ بھی روڈ پرا
دلہن کا نا م سننے ہی سب سے پہلے دما غ میں عورت کا تصو ر ہی آتا ہے۔۔کیو نکہ کہ لفظ دلہن عو رت سے منسو ب ہے۔۔مگر دلہن کے نا م پر ہما رے سا تھ کچھ یوں ہوا۔۔
پتہ نہیں لو گ گر میو ں میں شا دی کیسے کر لیتے ہیں ہم سے تو سفر نہیں ہو تا۔۔خا ن پور سے ہما ری چچا ذاد بہن کی شا دی کی اطلاع ہم سب پر بم بن کر گری۔۔کہ اب شا دی میں کون جا ئے گا اور جا نا اس لیے بھی ضر وری تھا کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے چچا سے ہما ری صلح ہو ئی تھی اور اب امی پھر ایسا کچھ نہیں چا ہتی تھی۔۔مگرمسئلہ یہ تھا کہ اتنی گر می میں شاد ی پر جانے کے لیے کو ئی بھی رضا مند نہیں تھا۔۔سب کی با ہمی مشو رے سے قرعہ میر ے ،میری کزن اور بھا ئی کے نا م نکلا۔۔مرتے کیا نہ کرتے امی کا سختی سے حکم تھا سو جا نے کے لیے حا می بھر نی پڑ ی۔۔ہم تینو ں نے مشورہ کیا کہ کل صبح جلد ی نکل جا ئیں گے۔۔
دو سر ے دن صبح سو یرے اللہ کا نا م لیکر ہم گھر سے نکل گئے۔۔ا ڈے تک پہنچتے پہنچتے ہم پسینے میں بھیگ چکے تھے۔۔خیر گا ڑی کے چلتے ہی ذرا ہو ا لگی تو کچھ سکون ملا۔۔خا ن پور کے بس سٹا پ پر پہنچ کر گاڑی نہ ہو نے پر ہما رے تو طو طے اڑ گئے۔۔آدھا گھنٹہ گا ڑی کا ا نتظا ر کر نے کے بعد جب ہم گا ڑی میں بیٹھے تو یہ سنتے ہی کہ گاڑی کا اے سی خر اب ہے ۔ہما رے تو او سان خطا ہو نے لگے۔کیو نکہ کہ سو رج کا منہ ہما ری سا ئیڈ تھا اور اپنی پوری آب و تا ب کے ساتھ وہ ہما راامتحا ن لے ر ہا تھا۔ہم دل ہی دل میں شا دی والی کز ن کو کو سنے لگے۔۔ہما را سا رہ دھیان راستے پر تھا کہ کب ختم ہو گا اور ہم گھر پہنچیں گے۔۔آدھی مسا فت طے کرنے کے بعد ہما رے دل کو تسلی ہوئی کہ چلو منزل اب قر یب ہے۔۔مگر ہا ئے رے قسمت۔۔۔اچانک گاڑی ایک زور دار جھٹکے سے رک گئی۔۔تھو ڑی دیر بعد پتہ چلا کہ گاڑی خراب ہو گئی ہے۔۔ٹائم لگے گا۔۔ہم تو پا نچ منٹ میں ہی پسینے میں نہا گئے تھے۔۔بھا ئی کو کہا پتہ نہیں کتناٹائم لگے، ہم کو ئی اور گاڑی آئے تو اس پر بیٹھ جا تے ہیں۔۔دور سے آتی بس اس وقت ہمیں کسی مر سیڈیز سے کم نہ لگی۔۔۔اور ہم بس میں سوار ہو گئے۔۔
ہم نے دل ہی دل میں شکر ادا کرتے ہو ئے ایک نظر بس کا معا ئنہ کیا تو بے ا ختیا ر ہنس پڑے۔۔کیو نکہ بس کو رنگ بر نگے مو تیوں اور مالا ؤں سے ایسے سجا یا گیا تھا جیسے کو ئی دلہن کو سجا تا ہے۔۔ایسا نہیں کہ ہم کبھی بس میں نہیں بیٹھے تھے مگر یہ کچھ انو کھی ہی بس تھی۔۔اس بس کی تزئین و آرائش دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے کو ئی سجی سجا ئی دلہن ہو۔بس کی سجا وٹ میں موتیوں اور پھو لو ں کے سا تھ ساتھ دلہن کو اوڑھانے والے دوپٹے بھی شا مل تھے۔اور کچھ اس طر ح کے فقر ے جگہ جگہ لکھے نظر آئے۔
بچوں کو دلہن کی سجا وٹ سے دور رکھا جائے۔
دلہن کے پھو ل اور موتیوں کو چھیڑ نے سے گر یز کیا جائے۔۔
برائے مہر با نی دلہن کو گند ہ کر نے سے پر ہیز کیاجائے۔۔
چلتی کا نا م دلہن ہے۔۔
جو دلہن کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا پکڑا جا ئے گا اسے نیچے اتا ر دیا جا ئے گا۔۔
اپنی عزت اپنے ہاتھ۔۔
اور ایک جملہ پڑھ کر تو میری ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے۔۔لکھا کچھ یو ں تھا کہ۔۔
دلہن کو لات اور مکہ ما رنے والوں کے خلا ف سخت قا نونی کا ر وائی کی جا ئے گی۔۔
ابھی ہم ان فقروں کے مزے لے ر ہے تھے کہ دلہن ایک سٹا پ پر رک گئی۔۔کچھ مسافر اپنی منزل پر اتر گئے۔۔اور کچھ نئے سوار ہو گئے۔۔دلہن میں تو پہلے سے ہی بیٹھے کی جگہ کم تھی مسا فروں کے لیے اب تو یہ کھچا کھچ بھر گئی تھی۔ایک تو گر می او پر سے لوگوں کی اتنی بھیڑ میرا تو دم گھٹنے لگا۔جگہ کی کمی کے با عث ہر دو منٹ بعدپا س کھڑی عورت میر ی گود میں بیٹھ جا تی اور پھر میرے گھو رنے پر اسے احسا س ہو جا تا کہ وہ سیٹ نہیں میری گود ہے۔۔مگر ڈرائیور اس با ت سے قطعی بے خبر کے پیچھے کیا ہو ر ہا ہے مزے سے بس چلا ر ہا تھا ۔۔ اس کا انداز مجھے تلملا گیا۔۔میں نے کہا بھائی ذرا گاڑی تیز چلائیں کیو نکہ گر می بہت ہے اور آپ نے اتنے لوگوں کو بھی بس میں چڑ ھا یا ہو ا ہے۔۔اس نے منہ بنا کر ذرا سا گر دن پیچھے مو ڑتے ہو ئے مجھے طنز یہ لہجے میں کہا با جی یہ دلہن ہے چلے گی تو مٹک مٹک کے اس کا یہ جواب مجھے تپا گیا مگر سوائے خاموشی کہ میر ے پا س اور کو ئی چا رہ نہ تھا۔۔آرام سے ہلکورے لیتی چلتی دلہن کا سفر اس گر می میں ایک صبر آزما کا م تھا۔۔ گر می سے شرابورجسم میں اس وقت جا ن سی آ گئی جب دلہن خان پور سٹا پ پر رکی۔۔
اپنی منزل مقصو د پر اترنے سے پہلے میں نے ایک نظر پھر سے دلہن کو دیکھا اور سوچنے لگی کہ ان ڈرائیور کے لیے تو یہ گاڑیا ں ہی ان کی دلہن ہیں کیو نکہ ان کی زند گی کا بیشتر حصہ تو ان کے ساتھ گذر جا تا ہے۔۔
بس کی سجا وٹ اور اور ٹھمک ٹھمک کر چلنے کا انداز ہمیں کسی دلہن سے کم نہ لگا۔۔کیو نکہ اتنے پیا ر اور خلوص سے تو کو ئی دلہن کو بھی نہیں سجا تا۔۔

Facebook Comments

عاصمہ روشن
ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی عاصمہ روشن نے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹر کی ڈگری کیساتھ ساتھ اردو میں بھی ماسٹر کیا ہے اور ابھی ایم فل کی طالبہ ہے -پڑھنے اورلکھنے کی کوشش بچپن سے ہیں- غیر سرکاری اداروں کیساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور اس وقت شعبہ صحافت سے وابستہ ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply