بلاوا/عاطف ملک(1)

مسافر کئی دہائیوں سے منتظر تھا ، مگر بلاوا نہیں آیا۔

ان دہائیوں میں مسافر گرد گرد کی خاک چھانتا رہا،  اورجہاں بھی گیا وہاں کی ارض پر قبلہ رُو ہوکر سجدہ ریز ہوا۔ زمان و مکان الگ الگ تھے۔

اندرون سندھ میں ایک بے نام سی  مسجد تھی، مسافر بوسیلہ روزگار وہاں سے گزرا۔ مسافر  فضائیہ میں ریڈار پر کا م کرتا تھا اور مواصلاتی کنکشن کی ریکی پر تھا۔  مسجد کا واحد دروازہ صحن میں کھلتا تھا اور آگے تین دروازے  ایک مستطیل کمرے کوجاتے تھے اور  کمرے  کے درمیان    میں محراب   تھی  ، کوئی برآمدہ نہ تھا، کوئی گنبد نہ تھا، ۔ کوئی لاؤڈ سپیکر نہ تھا، وضو خانہ تک نہ تھا۔  مسجد کے باہر لگا ہینڈ پمپ وضو  کے لیے استعما ل ہوتا تھا۔

گرمی بلا کی تھی، اور مسافر  ہینڈ پمپ پر نہاتے شخص کے فارغ ہونے کے انتظار میں تھا کہ اس کے بعد وضو کرسکے، ایک نظر چار جانب ڈالی۔  مسجد کے ساتھ کچھ دکانیں تھیں، ایک چائے کا ہوٹل جس پر لگی ڈش کی  مدد سےآتے  پروگرام لوگوں کو بیٹھنے پر مجبور رکھتے  اور چائے کا دھندہ چلتا رہتا۔  ایک ٹائر پنکچر کی دکان  تھی جس کے کونے میں دھرے سلنڈر سے ہوا بھرنے کے لیے  نکلتا پائپ  بے ترتیب  آلودہ ِ خاک پڑا تھا۔ اس کے ساتھ کی دکان موٹر مکینک کی تھی  ۔ گاڑیوں کے گندے تیل سے زمین سیاہ تھی اور بُو پھیلی تھی۔ مکینک کی شلوار قمیص  پر سیا ہ دھبے اس کی محنت کے نشان کے طور پر روشن تھے۔

مسجد میں اکیلے نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو مکینک کو ساتھ کھڑا پایا۔ کہنے لگا کہ اگر  ایک ڈانگر ی جیسی تونے پہنی ہے مل جائے تو میرے کپڑوں کی عمر بڑھ جائے گی۔ مسافر نے فوجی ٹرک پر رکھے اپنے بیگ میں سے ڈانگری نکال کر اُس کے حوالے کی۔

ایک سال بعد بعین وہی جگہ تھی، مسافر سجدہ ریز ہوا۔ اٹھا تو  وہی مکینک ڈانگری پہنے ساتھ کھڑا تھا، کہنے لگا کہ پچھلے سال ایک ڈانگری تو نے دی تھی ۔ ایک اور مل  جائے تو بدل بدل کر پہن پاؤں گا۔ مسافر نے اپنے بیگ میں سے ڈانگری نکال کر اس کے حوالے کی۔  اندرون سندھ کی وہ جگہ ِموجود مسافر  کے لیے اب غائب ہے، بس یاد کی صورت ایک پرچھاواں ہے۔

مسافر نے ایک نماز کےٹو پہاڑ کی راہ میں ایک اگلو میں پڑھی تھی۔ اِگلو تریسٹھ کلومیٹر لمبے بالتورو گلیشر کے اوپر ایستادہ تھا۔ تاحدِ نظر برف کی سفیدی آنکھ کی پتلی پر اپنا نقش ڈالے  ہوئے تھی۔  کوہ قراقر م کے پہاڑ سفید اُجلے کھڑےتھے۔ کچھ دیر بعد دور کسی چوٹی سے ایوالانچ  کی آواز پہاڑوں پر گونجتی تھی، ایک پہاڑ سے سر  پٹخ کر آواز دوسرے پہاڑ کی جانب لپکتی تھی۔ مسافر نے ٹھنڈے پانی کے  بھرے لوٹے سے وضو کیا۔ برف چار سو تھی، پانی بھی برف سے کشید کیا جاتا تھا۔ مسافر سجدہ ریز ہوا۔ رخ وہی تھا جو اندرونِ سندھ کی ایک گم نام مسجد  میں سخت گرمیوں میں تھا۔

راہ سیاچین کو جاتا تھا اور اگلو میں چار سپاہی   رہتے تھے۔ مسافر کو بھی ایک کونا میسر آیا۔رائفلز ایک کونے میں پڑی تھیں۔ اگلو اندر سے سیاہ رنگ تھا۔ تیل کے چولہے نے سفید اگلو  کے اندر اپنا رنگ ثبت کیا تھا، ویسے ہی جیسے برف نے سپاہی دلشاد کے پاؤں کی انگلیوں پر فراسٹ بائیٹ کے ذریعے اپنی مہر ہمیشہ کے لیے لگادی تھی۔ سپاہیوں کے لیے مسافر خوشی کا باعث تھا کہ اُس راہ پر  بھولے بھٹکے بھی نہ آتے تھے۔ اپنے  محدود راشن سے سپاہیوں نے مسافر کو مہمان جانا۔

اگلے دن ناشتے کے بعد   بغلگیر ہو کررخصت چاہی تو  مسافر نے  سفر سے قبل راولپنڈی راجہ بازار  سے خریدا سیلوں والا ٹرانسسٹر سپاہی دلشاد کے حوالے کیا  کہ کوہ قراقرم کے پہاڑوں  کو عبور کرتا کسی ریڈیو سٹیشن پر چلتا گیت اُسے برف کے ریگزار سے دور خانیوال کے کسی گاؤں لے جائے گا، تو شاید کچھ لمحوں کے لیے فراسٹ بائیٹ کے شکار پیر کا خیال اس کے ذہن سے نکل جائے۔

بالتورو گلیشئر کی وہ جگہ ِ موجود مسافر  کے لیے اب غائب ہے، بس یاد کی صورت ایک پرچھاواں ہے۔

مسافر جرمنی میں ڈورٹمنٹ  شہر کے مین ریلوے اسٹیشن  کے قریب  جمعے کے دن مسجد  کی تلاش میں نکلا۔ پتہ لگا کہ قریب ایک ترک مسجد ہے۔ سردی بلا کی تھی کہ گلیاں برف سے اٹی تھیں اور درجہ حرارت کسی منفی عدد کے ساتھ لپٹا تھا۔ راہ  پوچھتے اور ڈھونڈتے مسافر  ایک گلی میں جانکلا جس  کے سِرے پر دس دس فٹ کی تین سلاخ دار دیواریں  ایک دوسرے سے جڑی کھڑی تھیں ۔ گلی کی عمارتیں کنکریٹ کے بلاک تھے ،جن پر جابجا  گریفٹی ہوئی تھی، سیاہ، سفید، سرخ سیاہیوں میں الفاظ نیم دائروں کی شکل میں ایک دوسرے میں در آئے تھے۔ پتہ لگا کہ یہ گلی بادشاہی مسجد کے قریب کے محلے کی مانند ہے، رات جاگتی ہے دن سوتا ہے۔ مسافر نے دیکھا کہ  گلی کی کچھ عمارتوں  کی نچلی منزل پر قدآور شیشے کی کھڑکیاں ہیں، نچلا حصّہ پوری طرح نصب ہے اور اوپر کا نصف کھل پاتا ہے، اوپر گلی تک شیڈ لگا ہے، ایسا ہی جیسا کریانے کی دکان پر  گاہگوں کو دھوپ  اور بارش سے کچھ بچاؤ دے۔

منزل کی خبر ہو تو  راہ کے منظر   ریل کی کھڑکی سے نظر آتے نظارہ ہیں، راہ رو گزرتا چلا جاتا ہے، رکتا نہیں۔

مسافر  مسجد کی تلاش میں اگلے منظر میں داخل ہوگیا۔ چلتے چلتے ایک   گلی میں پہنچا کہ مسجد اس گلی میں کہیں چھپی تھی۔گلی میں  تمام عمارتیں مستطیل ڈبوں کی مانند تھیں، ڈبے جن کی چوڑائی کم اور اونچائی زیادہ تھیں۔ ان ڈبوں میں شیشے کی  بڑی کھڑکیاں تھیں  جو  اندر کی جانب وی کی شکل میں معمولی کھلتی تھیں۔  مسافر چلتا رہا، ایک  تین کھڑکیوں کی عمارت کے آخر میں دروازے کے اوپر ایک بورڈ لگا تھا۔ بورڈ پر ایک مینار اور اس کے ساتھ سبز گنبد  کی شکل کی پہچان نے مسجد کی راہ بتلائی۔

مسافر نےزمینی منزل کے وضو خانے میں نلکہ کھولا تو پانی کو یوں سرد پایا کہ اس کے آگے کوئی احساس باقی نہ تھا ۔ مسجد گرم پانی کا خرچ نہیں اُٹھا سکتی تھی اور مسافر سفر میں تھا۔ مقامی تو اپنے گھروں سے وضو کر کے آتے  تھے۔  مسافر نے ہاتھ دھوئے  تو انگلیاں ٹھٹھر گئیں، کلی  کی تو دانت بج اُٹھے، منہ دھویا تو ناک سُن ہوگئی،  ہاتھ میں پانی اٹھانے کی سکت نہ تھی، سو نلکے سے بہتے پانی کے نیچے بازو  رکھ دیا،   بازو احساس سے عاری ہوا۔ گو ہَوا اور پانی  سرد تھے، مگر مسافر  ملال میں نہ تھا  بلکہ خیال میں تھا کہ   امتحان ہے۔

دوسری منزل پر مسافر مسجد میں بچھے قالین پر بیٹھ گیا، کمرہ گرم تھا۔جمعہ کا خطبہ  شروع ہوا تو خطیب نے ترک زبان میں بیان دیا۔ مسافر یک دم افسردگی کے سائے میں  تھا۔ گھر سے دوری، ماحول کی اجنبیت، زبان کی لاعلمی سب یک دم حملہ آور ہوئے، مسافر حملے کی تاب نہ لاسکا۔

اتنے میں خطیب بیٹھا اور پھر اٹھ کر عربی کا خطبہ شروع کیا

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِیْنُه وَنَسْتَغْفِرُه وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئاٰتِ أَعْمَالِنَا

مسافر یک دم  پُرسکون ہوگیا۔ یہ الفاظ  وہ  بچپن سے سُن رہا تھا، اُس لمحے   مسافر کا سفر رُک گیا۔ ڈورٹمنٹ شہر کی  وہ مسجد مسافر کے لیے سرگودھا   شہر کی حامد شاہ کی مسجد سے بغلگیر ہو گئی جہاں مسافر نے بچپن میں کئی جمعوں میں یہی خطبہ سُنا تھا۔

مسافر گھر میں تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

( جاری ہے)

Facebook Comments

عاطف ملک
عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے شعبہ کمپیوٹر سائنس میں پڑھاتے ہیں۔ پڑھانے، ادب، کھیل، موسیقی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے، اور آس پاس بکھری کہانیوں کو تحیر کی آنکھ سے دیکھتے اور پھر لکھتےہیں۔ اس بنا پر کہانیوں کی ایک کتاب "اوراقِ منتشر" کے نام سے شائع کی ہے۔ کچھ تحاریر درج ذیل لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں۔ www.aatifmalikk.blogspot.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply