کف ِ سیلاب باقی ہے برنگ ِپنبہ روزن میں
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
ستیہ پال آنند
یقیناً کچھ سبب تو ہے ،حضور اس گریہ زاری کا
کہ یہ مضمون، یعنی خانہ ویرانی پہ جزع فزع
کئی اشعار میں ملتی ہے گویا اک حقیقت ہو
مگر کس گھر کی ہے تصویر یہ بیزار کن منظر؟
خد ا رکھے، کہ عالی جاہ کا گھر تو سلامت ہے
مرزا غالب
ضروری تو نہیں ہے جوں کا توں نقشہ بنا دینا
اسی اک فرق سے تو زندگی اور فن عبارت ہیں
اگر میرا ہی گھر ہوتا تو شاید اس نفاست سے
کبھی بنتی نہ مجھ سے اس کی ایسی ہو بہو تصویر
ستیہ پال آنند
یہی تو فرق ہے ’’گھر‘‘ اور ’’مکاں‘‘ میں، جانتاہوں میں
مگر اک بات تو واضح کریں اے محترم میرے
تصور خانہ ویرانی کاہے سیلاب ہی کیوں کر؟
مرزاا غالب
سمجھنے کی ذرا کوشش کرو ،اے ستیہ پال آنند
یہاں سیلاب تو ہے استعارہ اشک ِ گریاں کا
ستیہ پال آنند
تو یہ سیلاب گویا ٓآنسوئوں کا اس غر ض سے تھا
کہ گھر میں ہر طرف اک خانہ ویرانی کا منظر ہو
کہ جس کو دیکھ کر تسکین ہو ذوق ِ تماشا کی
بُرا ہو اس ’’کف ِ سیلاب‘‘ کا جو اب بھی باقی ہے
برنگِ پنبہ اس منظر میں اب وہ اک رکاوٹ ہے
مر زا غالب
حقیقت میں کف ِ سیلاب کا ایسے مخل ہونا
مجھے خود ’’دور کی کوڑی‘‘سا ہی محسوس ہوتا تھا
مگر اک دفعہ جب لکھا گیا یہ شعر تو میں نے
برنگ ِ پنبہ کو ہی خوبصورت، بر محل سمجھا
ستیہ پال آنند
مگر دیوان کی زینت بنانا کیا ضر وری تھا ؟
کہ گو مہمل نہیں، پر شعر تو بے جان ہے، قبلہ
مرزاا غالب
نہیں سمجھو گے تم اے ستیہ پال آنند ، یہ نکتہ
تصور خانہ ویرانی کا ہے میراث شعرا کی
اسے برتا ہے سب اہلِ سخن نے ہر زمانے میں
یقیناً پُر تصنع ہے مگر اولاد ہے میری
میں اس کو عاق کر دوں؟ جی نہیں! بالکل نہیں، صاحب!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں