صحافت کی کہانی/شہناز احد

گزشتہ دنوں کھانے کی ایک تقریب میں کچھ دوست جمع تھے اور ایک چینل سے نکالے جانے افراد، ان کی بے بسی اور صحافیوں کی سوئی  ہوئی  تنظیموں کا تذکرہ ہورہا تھا۔ اس تذکرے میں بہت سے تذکرے خود بخود نکلتے چلے گئے ۔ جیسے مالکان کا اپنے ملازمین کے ساتھ اس سلوک کا بڑا سبب یہ ہے کہ اب صحافیوں کی تنظیمیں غیر فعال اور بانجھ ہوگئی  ہیں۔ جو افراد ان نام نہاد تنظیموں سے وابستہ بھی ہیں وہ مالکان کی جیبوں میں سانس لیتے ہیں اورمختلف نوعیت کی مراعات کے چکر میں وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں۔ پی ایف یو جے کے اتنے ٹکڑے ہوئے  ہیں کہ کون کہاں گرا کسی کو خبر نہیں۔

پاکستان میں ویسے تو صحافت اور سیاست دونوں کا حال ہمیشہ سے پیسہ پھینک تماشا  دیکھ والا رہا ہے۔ جب سے اصلی صحافت پر نزع کا عالم طاری ہے  بےچاری کے سارے انداز ہی بدل گئے  ہیں۔ آج سڑکوں، گلیوں میں مائیک لے کے پھرنے والے بھی صحافی ہونے کے دعویٰ دار ہیں۔ جو نہیں جانتے کہ یہ راہ پُر خار کہاں سے شروع ہوئی  اور گم نام راہوں میں کیا کیا ہوتا رہا۔

کھانے کی اس تقریب کے دوران مجھے صحافی/ دوست نضیرا اعظم کی کتاب “ پوری کہانی-صحافیوں کی زبانی” یاد آگئی۔ یہ کتاب انھوں نےایک اور صحافی دوست اخلاق احمد کی سنگت میں لکھی ہے۔ گو کہ کتاب کا گھونگھٹ اٹھے کافی سے زیادہ دن ہو چکے ہیں شاید اس پر کہنے سننے کا یہ ہی وقت مقرر تھا۔

یہ کتاب پندرہ صحافیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ ان سب کا تعلق صحافت کے مختلف ادوار سے ہے۔ ان میں سے چند ایک تو صحافت کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ جیسے محمود شام، آئی  اے رحمان،حسین نقی،محمد ضیاالدین وغیرہ۔

ان افراد میں پاکستان کی صحافت اور سیاست کی اتنی تاریخ بند ہے کہ لکھیں یا بولیں تو اَن  گنت کتابیں جنم لے سکتی ہیں۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ کتاب مکمل ہونے تک آئی  اے رحمان اور ضیاالدین دنیا میں نہ رہے۔

انٹرویوز پر مشتمل اس کتاب کی اچھی بات یہ ہے کہ سب نے اپنے اپنے دور کی بہت سی ان کہی باتوں کا تذکرہ کرکے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

جیسے آئی  اے رحمان نے کہا”صحافت کو درپیش مشکلات اس وقت سے ہیں جب سے ہماری ریاست نیشنل سکیورٹی اسٹیٹ بنی ہے۔ اس صورت حال میں صحافت کا دائرہ کار سکڑ گیا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر قدغن لگ جاتی ہے۔ ہماری کوئی  تحریر انڈیا میں شائع ہوجاۓ تو ہماری شامت آجاتی ہے حالانکہ ہم نے وہ انڈیا کے لئے نہیں لکھا ہوتا ہے۔ آج کا صحافی حکومت کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کر سکتا۔ صحافت کی مجبوریوں کی بات کرتے ہوۓ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہماری حکومت نےچین کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی  تنقیدی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ اہل گوادر کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ انھیں گوادر سے نکالا جارہا ہے لیکن کوئی  آواز بلند نہیں کر سکتا”۔

ہر دور کے باغی حسین نقی کے خیالات کتاب میں کچھ یوں درج ہیں” آج کی صحافت کا حال نہ پوچھیں، پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کے صحافت اب گھی ملوں کے مالکان،اسٹیٹ ایجنٹس ،اور مختلف کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ میں آگئی  ہے۔ ہر چینل پر لعنت ملامت کے علاوہ کوئی  ٹھوس گفتگو نہیں ہوتی۔ہر چینل پر ایک “ واچ ڈاگ” بیٹھا ہے جس کو صحافت کی الف ،ب نہیں آتی۔ اٹھارہ بیس لوگ ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر ہر چینل پر  باری باری آتے ہیں۔ حالات حاضرہ پر وہ لوگ گفتگو کر رہے ہوتے ہیں جنھیں نہ سیاست کی تاریخ پتا ہے نہ جغرافیہ”

کتاب کے پچیس صفحات پر پھیلا حسین نقی کا انٹرویو خاصہ دلچسپ ہے۔
پاکستانی صحافت کے بہت ہی معتبر اور طرح دار صحافی محمد ضیاء الدین کی گفتگو بھی کتاب کا حصہ ہے۔ گو کہ ضیاء الدین کا سارا صحافتی وقت انگریزی صحافت میں گزرا ہے اور انگریزی صحافت کرنے والا صحافی اس ملک کی صحافت میں ہمیشہ خوش حال اور معتبر رہا ہے۔

ضیاء الدین کی خوبی یہ تھی کہ ان میں موجود مزاحمتی صحافی ہمیشہ زندہ رہا۔ جس کا اندازہ ان کے کتابی انٹرویو کے ان جملوں سے کیا جاسکتا ہے “ضیاء الحق کو ہم سے دشمنی ہوگئی  تھی، ہمیں دیکھ کے ان کی شکل بگڑ جاتی تھی”۔ اپنے انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ سب جانتے ہیں “بے نظیر وزیر اعظم بننے کے لئے بہت سے سمجھوتے کر کے آئی  تھیں۔ہم ان کے منہ پر تنقید کرتے تھے اور وہ سنتی تھیں۔ اس ضمن میں ایک قصہ بیان کرتے ہوئے  انھوں نے بتایا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد وہ صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔ ان پر بے تحاشا  تنقید ہو رہی تھی۔ میں اور ایاز میر بھی شامل تھے۔ ہم نے کہا کہ آپ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئر مین اپنے سسر کو بنادیا اور برابر میں ایک کمرہ اپنے شوہر کو کاروبار کے لئے دے دیا۔“ ضیاء نے بتایا کہ وہ سنتی رہیں، دفاع کرتی رہیں لیکن نہ تو غصہ کا اظہار کیا نہ دشمنی باندھی۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ “ نواز شریف نے صحافت میں پیسے کا بے دریغ استعمال کیا۔ دائیں بازو کے صحافیوں کی اعانت کی اور انھیں آگے بڑھایا۔ان کے وقت میں نواۓوقت کا گروپ جی ایچ کیو کے ساتھ تھا اور جنگ مکمل طور پر مارکیٹ کے ساتھ۔”

ضیاء الدین کا انٹرویو نوے کی دہائی  کے بھونچال کو سمیٹے بیس کی دہائی  کے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔
کتاب میں چھ دہائیوں سے زیادہ کا وقت کوچہ صحافت میں صبح شام کرنے والے محمود شام صاحب کا انٹرویو بھی ہے۔ ان کی باتوں کا تذکرہ یہاں نہیں کروں گی کہ انھوں نےخود پر  اور ملک پر گزری   حالت  بہت تفصیل سے اپنی سوانح حیات “شام بخیر” میں بیان کی  ہے۔ صحافت کس ،کس کوٹھے چڑھی اُتری،کب کس نے گھونگرو باندھے یا کھولے،کس نے آنچل کھینچا تو کون قدموں تلے آیا۔ یہ سب شام جی کی کتاب میں ہے۔

نضیرا نے صحافت کی اس کہانی کو مجھ سمیت مجیب الرحمان شامی ،ناصر زیدی،مظہر عباس،نزیر لغاری، مہناز رحمان،شمیم اکرام ،فوزیہ شاہد،رباب عائشہ، انور سن راۓ،وسعت اللہ خان سب کی زبانی قلم بند کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کتاب کی اچھی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں سب بول رہے ہیں سواۓنضیرا اعظم اور اخلاق احمد کے، دوسو بہتر صفحات کی یہ کتاب اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ ہر ایک نے اپنی بات کہتے ہوۓ گزرے وقت کے واقعات کو جان دیدی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply