“مکالمے” کے انٹرویوز، ان کی لطافتیں اور تشنہ کامیاں

شرکت کرنا ہمارا”مکالمہ کانفرنس” میں (آخری قسط)
لاہور کی “مکالمہ کانفرنس ” کی حکایت تو طویل ہو سکتی تھی ،لیکن ہم اسے کلوز کیے دیتے ہیں کہ اب کراچی والی مکالمہ کانفرنس شروع ہوا چاہتی ہے، اور لوگوں کو نئے” برینڈ” کو انجوائے کرنے کی سہولت دینی چاہیے۔ سو ہم دوسرے سیشن کی کاروائی کو مختصرا بیان کر کے یہ سلسلہ بند کرتے ہیں:
دوسرا سیشن انٹرویوز پر مشتمل سیشن تھا،جن لوگوں کے انٹرویوز یا ان سے متعلق کچھ باتیں یاد رہ گیئں ، ان میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی ،عارف خٹک ، انعام رانا، ثاقب ملک ،وقاص خان ، عاصم اللہ بخش، ژاں سارتر ،حکیم فاروق سومرو اور صاحبِ سیکس اور سماج شامل ہیں۔پہلا انٹرویو ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب کا تھا، آپ فاضل آدمی ہیں ،اور مختلف دینی امور میں بڑی اہم اور ماہرانہ آرا کا اظہار کرتے رہتے ہیں ، لیکن اس انٹریو میں ژاں سارتر کے اہم سوالات کے جوابات میں لگتا تھا کہ وہ ذرا گھُٹےگھُٹے سے ہیں، حالانکہ روٹین میں وہ مولویوں سے اتنا نہیں ڈرتے۔شدت پسندی کے خاتمے سے متعلق سوال پر انھوں نے یہ عام فہم اور سادہ سا جواب دیا کہ شدت پسندی ایک ایس ایم ایس سے ختم ہو سکتی ؛جنھوں نے اس کو شروع کیا ہے ، وہ طے کر کے ایک میسیج کر دیں تو ختم ہو جائے گی۔استاد کی کارکردگی سے متعلق انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ جو بندہ کہیں کا نہیں ہوتا ،وہ استاد بن جاتا ہے، ساتھ ہی انھوں نے فرقہ ورارنہ ہم آہنگی کے حوالے سے ہائی ٹیک یونی ورسٹی میں اپنے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح پہلے ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے والے اب اس سوال کو پرِ کاہ کے برابر حیثیت نہیں دیتے کہ نماز پڑھانے والا کون ہے!وہ جس کو آگے کھڑا کریں ، لوگ اس کے پیچھے نمازپڑھنے کو تیار ہوتے ہیں ۔دینی تعلیم اور مساجد کے حوالے سے اچھے سٹف کی اہمیت پرزور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ذرا مجھے راجپوت گھرانوں کے بچے دیں پھر دیکھیے گا دینی مزاج کیسے بدلتا ہے!ہاشمی صاحب کے اس ارشاد پر ہمیں خوش گمانی ہوئی کہ ہاشمی صاحب ہم سے امپریس ہو گئے ہیں ( بشرطیکہ ان کو پتہ ہو کہ منج بھی راجپوت ہوتے ہیں) تاہم ہم سے نہیں توا نعام رانا سےتو ضرور ہی امپریس ہوئے ہوں گے ، کیوں کہ ہاشمی صاحب کے کاغذات میں انعام رانا کی بس یہی خوبی ہے کہ وہ رانے ہیں ،حالانکہ ہم سے رابطہ کیا جاتا تو ہم ان کی کچھ ایکسٹرا خوبیوں سے بھی آگاہ کر سکتے تھے۔
دوسرا انٹرویو سوشل میڈیا کے رومانٹک نوعیت کے معروف لکھاری جناب عارف خٹک صاحب کا تھا۔ ان سے انٹرویو لیتے ہوئے انعام رانا نے سوال کیا کہ جب آپ لکھنا شروع کرتے ہیں تو شرم پہلے قلم کو آتی ہے یا کاغذ کو؟ اس پر خٹک صاحب کچھ زیادہ ہی شرما گئے اور شرم سے ہنستے ہوئے مائیک کے ساتھ ایک سائیڈ کو لڑھک گئے ،ان کا جواب تھاکہ وہ کسی سوال کے جواب میں پہلی دفعہ لا جواب ہوئے ہیں، اس سوال پر ان کی رومانٹک ادا حاضرین کو بہت بھائی اور پورے حال سے تالیوں اورقہقہوں کی آوازیں آنے لگیں۔ویسے اگر غور کریں تو کہا جا سکتا ہے کہ جو معاملہ اس موقعے پر حاضرین اور خٹک صاحب کا تھا ، وہی لکھتے وقت ، کا غذ قلم اور خٹک صاحب کا ہوتا ہوگا، کہ یہ شرم سے لڑھک جاتے ہوں گے اور کاغذ قلم تالیاں بجاتے اور قہقہے لگاتے ہوں گے۔بہر حال خٹک صاحب کے انٹرویو سے اندازہ ہوا کہ رومانس اور خوش مزاجی کے پیچھے ایک بڑا سنجیدہ اور صاحبِ درد عارف خٹک چھپا ہوا ہے،جبھی تو ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ ہنسیں نہ تو پاگل ہو جائیں ،بعض جملوں اور سوالات پر ان کے ردعمل سے ہمیں اس کرب کا اندازہ ہوا جو مزاح کی پتلی دیوار کے پیچھے ان کی آنکھوں سے چھلکا پڑ رہا تھا۔
حکیم فاروق سومرو صاحب نے ایک نعتیہ قطعہ اور کچھ مزاحیہ اشعار سے حاضرین کو محظوظ کیا ۔ کانفرنس کے منتظمین سے ہمارا یہ گلہ ہے کہ انھوں نے شاعری کا سیشن رکھا ہی تھا تو ذرا طویل کرتے ، یعنی اور لوگوں سے بھی شاعری سنی جا سکتی تھی۔ مثلاً اگر اس سیشن میں ہمیں بھی موقع دیا جاتا تو ہم تقریر کے آخر میں زبردستی اپنے اشعار سنا کر حاضرین کی سمع خراشی نہ کرتے ، منتظمین کو اگر ہمارے اشعار سنانے پر شکایت ہو توہم انھیں ادلے کے بدلے کا محاورہ یاد دلانے کے ساتھ ساتھ ایک شاعرِ بے نوا کے قصۂ عاشقی کی طرف متوجہ کریں گے کہ:
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اگر مزاحیہ شاعری ہی درکار تھی تو ہم مزاحیہ شاعری بھی کر سکتے ہیں ، اور اس نوعیت کی کئی چیزیں تیار بھی کر رکھی ہیں، تاہم اگر ہمیں ہماری مزاحیہ شاعری عین موقع پر دستیاب نہ بھی ہوتی ،تو ہم اس قبیل کے شاعر ہیں جن کی سنجیدہ شاعری بھی بوقتِ ضرورت مزاحیہ شاعری کا کام دے سکتی ہے۔
سیک سیمینار کے حوالے سے معروف شخصیت جناب ثاقب ملک صاحب کو ہم تو کافی میچور آدمی سمجھے ہوئے تھے ، “مکالمہ کانفرنس ” میں انھیں دیکھا تو کھلا کہ وہ نوجوان بلکہ بچے ہیں ، البتہ ان کی باتیں واقعی میچور تھیں۔عائشہ اذان کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ مکالمے کے رسپانس کو دیکھ کر انعام رانا سے جیلس ہو رہے ہیں ، کہ رانے نے اتنے شارٹ نوٹس پر سیک کے مقابلے میں زیادہ کامیاب اور بڑا پروگرام کر لیا۔انعام رانا کے بارے میں ثاقب ملک کا کہنا تھا کہ اس میں تو کوئی خوبی نہیں ،بس ماں کی دعا اسے اونچا اٹھائے پھر رہی ہے۔
کے پی کے کے نوجوان قلم کار وقاص خان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ جے یو آئی سے تعلق رکھتے ہیں ، حالانکہ دیکھنے میں وہ پی ٹی آئی کے لگتے تھے۔(اس لیے کہ ان کا حلیہ ایک کھلنڈرے سے نوجوان کا ساتھا)۔ اس حلیے کے ساتھ جے یو آئی سے تعلق کو جسٹیفائی کرتے ہوئے وقاص خان نے کہا کہ جے یو آئی صحیح معنی میں ایک سیکو لر جماعت ہے ۔ اس کے سیکولر مزاج کی وضاحت کرتےہوئے انھوں نے مثال دی کہ اس نے تقسیم ہند کے مسئلے پر ہندؤں کا ساتھ دیا تھا۔وقاص خان کی تحریر پر کے پی کے کی حکومت نے کسی مسئلے کو ایڈریس کیا تھا، اس پر بات ہوئی کہ یہ تو آپ کی مخالف جماعت تحریک انصاف کو کریڈت جاتا ہے ،تو انھوں نے کہا لیکن اس مسئلے پر توجہ تو جے یو آئی کے بندے نے دلائی تھی نا، لہذا جے یوآئی کا کریڈٹ اپنی جگہ ہے۔ تحریک انصاف پر وقاص خان نے ایک جملہ کسا تو حاضرین میں موجود پی ٹی آئی کے دوستوں نےآواز اٹھائی ،جسے وقاص خان نے جے یو آئی کی “سیاسی بصیرت” سے کام لیتے ہوئی” 1973ء کے آئین کی روشنی میں اصولی موقف ” اپناتےہوئے حل کر لیا، اور کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی۔
انعام رانا سے انٹرویو لیتے ہوئے جناب ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا، کہ آپ کا سیاست میں آنے کا تو پروگرام نہیں ؟انعام رانا نے کہا کہ نہیں! دراصل اس قبیل کے ان کے شوق زمانۂ طالب علمی سے ہیں۔ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے انعام رانا سے اپنے تعلق کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً دو سال پہلے ان سے تعلق بنا ، جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا گیا، تو خالد محمود صاحب نے سوال کیا کہ انٹرویو تو رانا صاحب کا اس کو کرنا چاہیے تھا جو ان کو بیس سال سے جانتا ہو ، تو عاصم اللہ بخش صاحب نے از راہِ تفنن کہا کہ تھوڑی دیر سے جاننے والا اسی لیے بلایا گیا ہے کہ زیادہ باتیں نہ نکلیں۔حاضرین کی طرف سے انعام رانا سے فرمایش ہوئی کہ اپنی تحریر “دادا کے نام خط ” سنائیں۔ انعام رانا نے “جمہوریت بہترین انتقام ہے” کے وزن پر اپنی داستانِ حیات سے علم کی اہمیت واضح کی کہ کس طرح انھوں نےاپنے دادا کی دی ہوئی موٹیویشن کے نتیجے میں پڑھ لکھ کر اس انگریز کے پوتےکو اس کے اپنے وطن برطانیہ میں اپنا ملازم رکھ کر انتقام لے لیا، غالباً جس کے دادا نے سنہ 43ء میں ہوشیار پور کی ڈپٹی کمشنری کے دوران ان کے دادا کے گھوڑے ہتھیائے تھے۔
صاحبِ “سیکس اور سماج” نے اپنے انٹرویو میں سوسائٹی میں مردوں کی طرف سے عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا مسئلہ ڈسکس کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں عورت کوکم تر و حقیر مخلوق سمجھا جاتا ہے، ان کو کوئی عزت نہیں دی جاتی ، مرد میں عورت کو دبا کر رکھنے کا مزاج اس قدر غالب ہے کہ شادی کے پہلے روز ہی قلعہ فتح کرنے والے مجاہد کا سا انداز نظر و عمل لے کر بیوی کے پاس جایا جاتا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے ایک دل چسپ بات یہ کی خواجہ سراؤں کوان کے زنانہ پن کی بنا پر نشانۂ تضحیک بنایا جاتا ہے۔بہر حال “سیکس اور سماج” اور صاحبِ “سیکس اور سماج ” میں سے کوئی چیز ایسی سامنے نہیں آ سکی جو بہت سے لوگ اس عنوان کے اندر چھپی محسوس کر رہے تھے، کئی لوگ تو محض اس عنوان کے ہاتھوں مجبور ہو کر “کانفرنس” میں آئے تھے کہ چلو ان کی کچھ الجھنیں دور ہوں گی اور کھلے ماحول میں سیکس کو پورے سماج کے تناظر میں سمجھنے بلکہ دیکھنے میں مدد ملے گی ، مگر وہ ہاتھ ملتے رہ گئے : اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ، دل کے ارماں آنسوؤں میں بَہ گئے، ہم سیکس اور سماج کے ہنگاموں میں بھی تنہا رہ گئے۔
حافظ صفوان صاحب اور دیگر حضرات کے انٹرویوز اور دیگر چیزیں بھی تھیں (جو ہوتیں تو یقیناً مزے کی ہوتیں)، مگر وہ وقت کی کمی کی نذر ہو گئیں۔
چھ بجے کے بعد کانفرنس ختم ہوئی تو انعام رانا نے حاضرینِ ہال کو چائے سموسوں کی دعوت دی اور ہم رانا صاحب سے اجازت لے ک ڈائوتو اڈے کی طرف لپکے،کیوں کہ ہم کو ساڑھے چھ بجے والی گاڑی پہ جانا تھا، اس کے بعد والی گاڑیوں کا ٹائم تو آپ کو پتہ ہی ہے ہم نے محض ٹائم پاس کرنے کے لیے پوچھا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply