گئے دنوں کی یادیں (6)۔۔مرزا مدثر نواز

رمضان ہی شاید وہ ایک مہینہ ہے جس میں ہم کچھ کام ٹائم ٹیبل کے مطابق کرتے ہیں حالانکہ یہ تو یاد دہانی کی ایک ٹریننگ ہے کہ باقی ماہ بھی ایسی ہی ترتیب سے گزارے جائیں۔ ہمارے بچپن کے دنوں میں رمضان کیلنڈر کا کوئی خاص رواج نہیں تھا‘ افطاری کے وقت مولانا صاحب نے مسجد سے آواز دینی کہ فقیرہ ریڈیو آن کر کے آواز اونچی کر دو۔ جونہی ریڈیو پر افطاری کا اعلان ہونا‘ مسجد کے سپیکر سے بھی اعلان کر دیا جاتا کہ روزے دار روزہ افطار کر لیں‘ بعد میں اور ابھی تک اس کام کے لیے ایک سائرن بجایا جاتا ہے۔ رمضان کے شروع میں تراویح پڑھنے والوں میں خوب جوش و خروش ہوتاجس میں چھوٹے بچے بھی کسی سے کم نہ تھے‘ دن گزرنے کے ساتھ تعداد بھی کم ہوتی جاتی جس میں دوبارہ آخری عشرہ میں بتدریج اضافہ ہوتا۔ بچوں کے تراویح پڑھنے کا طریقہ عموماً یہ ہوتا کہ جونہی پہلی رکعت میں قاری صاحب رکوع میں جاتے‘ سب بچے بھی اس وقت نماز میں شامل ہو جاتے‘ اس سے پہلے پیچھے بیٹھے رہتے یا صحن میں جا کرباتیں کرتے۔ اس کے علاوہ شرارتیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہتیں جیسا کہ ایک دوسرے کو نماز میں تھپڑ مار دینا‘ دھکا دے دینا‘ سجدے میں کہنیاں مارنا‘ سردیوں میں تراویح ختم ہونے سے پہلے بند جوتوں میں ٹھنڈا پانی ڈال دینا وغیرہ وغیرہ۔

ان دنوں مسجد میں اکٹھے بیٹھ کر افطاری کرنے کو باعث برکت تصور کیا جاتا تھا اور گردونواح  کے لوگ بھی ثواب کی خاطر افطاری کا سامان مسجد بھجوا دیتے جس میں گھر پر پکائی گئی دیگ کے میٹھے و نمکین چاول‘ مٹھائی‘ کھجوریں‘ پھل‘ سموسے و پکوڑے وغیرہ شامل ہوتے۔ افطاری کے وقت مسجد میں کافی رش ہوتا جس میں اکثریت بچوں کی ہوتی‘ بچوں کو عموماًَ کچھ سامان دے کر ایک طرف بٹھا دیا جاتا اور بڑے ایک طرف بیٹھ جاتے‘ ان دنوں ہمارے محلہ کی مسجد میں باقاعدگی سے روزہ افطار کرنے والے بزرگان تادم تحریر اس جہان سے پردہ فرما چکے ہیں‘ معبود برحق ان کی مغفرت فرمائے۔ افطاری کا سامان اتنا وافر ہوتا تھا کہ اس وقت موجود تمام لوگ سیر ہو کر کھا سکتے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بڑے و چھوٹے کی تمیز کے بغیر آنکھوں کی بھوک کے ہاتھوں اور رمضان کی تعلیمات کے برخلاف زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی چاہ میں تھوڑی ہی دیر میں چھینا جھپٹی میں تمام چاول و دوسری اشیاء فرش پر بکھر جاتیں اور کسی کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔فجر کی نماز سے پہلے اور بعد میں مسجد میں کلام پاک کی تلاوت کرنے والوں کا بے پناہ رش ہوتا اور ایک ماہ میں لوگ کئی بار ناظرہ سے مکمل کرتے۔ چھوٹے بچوں کو اعتکاف بیٹھنے کا بھی بہت شوق ہوتا ہے‘ محلے کے کافی لڑکے ایک دفعہ رمضان میں اکٹھے اعتکاف بیٹھے‘ کچھ نے ایک‘ دو یا پھر تیسرے دن بستر اٹھا کر گھر کی راہ لی‘ بڑی مشکل سے ان میں سے ایک نے دس دن پورے کیے۔ سردیوں میں سکول سے دسمبر کی چھٹیاں ہوتیں تو رمضان میں فجر کی نماز کے بعد تمام دوستوں نے آبادی سے دور نکل جانا اور کسی جگہ بیٹھ کر آگ تاپنا اور سورج نکلنے پر گھر کی راہ لینی‘ آہا وہ بھی کیا دن تھے اور کتنے اچھے دن تھے!
دس محرم پہلی امتوں کے لیے بھی ایک فضیلت کا دن تھا اور اسی دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی گئی۔ یہود سے مشابہت ختم کرنے کے لیے محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ آئندہ سال ہم دس محرم کے ساتھ ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھیں گے۔ ملت بیضاء کے لیے حرمت والے مہینے محرم و یوم عاشور کی اہمیت اور احترام اور بھی بڑھ گیا جب نواسہ ختم الرسل‘ سردار نوجوانان جنت نے معرکہ حق و باطل میں اسلام میں سب سے اعلیٰ رتبہ و مقام یعنی شہادت کو سینے سے لگایا‘ خلافت و کاروبار حکومت میں ولی عہدی کی نفی کی اور تاقیامت آنے والے دین اسلام کے پیروکاروں کو یہ تعلیم دی کہ باپ کے بعد بیٹا یا کوئی دوسرا رشتہ دار حکومت نہیں سنبھال سکتا بلکہ خلیفہ و امیر حکومت صرف اور صرف مسلمانوں کے باہمی مشورے سے منتخب کیا جا سکتا ہے‘ حق کے لیے کھڑے ہونے والوں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں‘ ماریں کھانی پڑتی ہیں‘ مخالفتیں مول لینی پڑتی ہیں‘ جان دینی پڑتی ہے لہٰذا اگر کوئی یہ خیال کرے کہ اگر وہ حق کی بات بھی کرے اور سامنے سے آنے والے زبان و آہن کے تیروں سے بچا بھی رہے تو یہ ممکن نہیں۔ یہ سب کچھ اتنا ہی آسان ہوتا تو چاروں امام شہادت کے رتبہ پر فائز نہ ہوتے اسی لیے تو فرمایا گیا ہے کہ سب سے افضل جہاد ظالم و جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔نوّے کی دہائی میں عاشورہ کے دن کو اس طرح منایا جاتا تھا کہ لوگ بڑے اہتمام سے پھلیاں و مخانے‘ ٹافیاں و دیگر اشیاء بچوں میں بانٹنے کے لیے خریدتے‘ گڑ والے میٹھے چاول پکاتے‘ میٹھا شربت بناتے اور بزرگ خواتین یہ چیزیں لے کر گھر کے دروازے پر بانٹنے کے لیے بیٹھ جاتیں۔ بچوں کے جھنڈ و ٹولیاں گلیوں میں شور مچاتے یہ نیاز یا اشیاء وصول کرتے اور مختلف قسم کے فقرے دہراتے جیسا کہ ”مائی مائی مینوں گنج دے تینوں اللہ پتر پنج دے“ وغیرہ وغیرہ۔

Advertisements
julia rana solicitors

عصر کے بعد زیادہ تر لوگ قبرستان کا رخ کرتے اور اپنے پیاروں کی قبروں پر مٹی ڈالتے‘ کچھ اگر بتیاں‘ موم بتیاں و دیئے جلاتے۔ پتا نہیں قبر پر مٹی ڈالنے کے لیے صرف عاشورہ کا دن ہی کیوں مخصوص کیا جاتا ہے اور اگر بتیوں‘ موم بتیوں و دیئے جلانے و پھول بکھیرنے کی بجائے مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ (جاری ہے)

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply