’’خواب لے لو، مسکراہٹ لے لو، خوشیاں لے لو ‘‘
سورج کو گرہن لگ چکا تھا اور وہ اندھیرے میں سدا لگاتے چلا جا رہا تھا۔
تبھی اُسے ایک گاہک اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو اُس کے دل میں امید کی کرن جاگی کہ آج وہ کچھ پیسے کما لے گا اور گھر میں فاقہ ختم ہو جائے گا۔ اس نے جلدی سے تھیلے سے خوشیاں نکالنے کے لیے بازوں کو جنبش دی تو اُسے یاد آیا کہ شہر میں سبھی کے بازو کٹ چکے ہیں اور مسکراہٹوں کا تھیلا کسی پھندے کی طرح اس کے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔ اسی کشمکش میں گاہک کہیں اوجھل ہو گیا۔
سڑک کے کنارے کچھ مسکراتی ہوئی لاشیں پڑی تھیں مگر چلتے پھرتے لوگوں کے چہرے سیاہ پڑہ چکے تھے۔ صدا لگاتے لگاتے وہ شہر سے باہر نکل گیا، ایک جھونپڑی کے باہر بیٹھے شخص نے صدا سننے پر اُسے آواز دی کہ مجھے مسکراہٹ چاہیے اور کچھ خواب۔

اس نے جلدی سے گلے میں لٹکا تھیلا اس کی طرف بڑھایا کہ اس میں سے خواب اور مسکراہٹ نکال لو مگر اُسے ساتھ ہی خیال آیا کہ تم مسکراہٹ کا کیا کرو گے، تم تو اندھے ہو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں