لڑکپن کا عشق یاد نمبر 87۔۔منصور مانی

 سرکاری بس صبح کے اُس سمے خالی تھی ، میں اُن کے ساتھ تھا، ہم نے ایک خالی سیٹ دیکھی اور اُس پر بیٹھ گئے، میں کھڑکی کی جانب بیٹھا تھا، موسم میں خُنکی تھی، وہ میرے برابر میں بیٹھ چُکیں تھیں ، میری نظریں سیاہ چپلوں سے جھانکتے سفید گلابی مائل حسین پیروں پر جمی تھیں ، پیر کا انگوٹھا ہلکا سا اُٹھا ہوا تھا اور انگلیاں ایک شان ِ بے نیازی  سے  سر نیہواڑے پڑی تھیں، میں بہت انہماک سے بس کی چال پر ہلکورے لیتے پیر دیکھ رہا تھا کہ اچانک دو سیاہ پیر دو پٹی کی چپل میں میرے سامنے آ کر ٹھہر  گئے، پیر گندے اور میل سے چیکٹ تھے، میں نے ناگواری سے سر اُٹھایا۔۔۔ کنڈیکٹر تھا، اپنے نسوار سے آلودہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کرایہ مانگ رہا تھا، میری جیب میں کل سات روپے تھے، اس سے پہلےکہ وہ اپنے پرس کو ہاتھ لگاتیں ، میں نے پھرتی سے سات روپے کنڈیکٹر کے ہاتھ میں تھما دیے!

یہ بھی پڑھیں : لڑکپن کا عشق۔یاد نمبر39۔منصور مانی

اُس نے میری جانب دیکھا اور بقایا ایک روپے کی ریز گاری میرے ہاتھ میں دھر دی! ہم صدر جا رہے تھے۔۔۔!

سرکاری لال بس ،فراٹے بھر رہی تھی، ابھی کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام لگنے میں پچیس برس کی دوری تھی! دسمبر کا ایک حسین دن تھا، اور تاریخ میرے دل پر نقش جمانے کے لیے پر تول رہی تھی، اُنھیں صدر میں کسی دُکان سے کتابیں لینی تھیں، بس کی کھڑکی میں شیشہ نہیں تھا، باہرکاموسم بہت نکھرا نکھرا تھا سڑکوں کے درمیاں لگے پیڑ جھوم رہے تھے، سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، کھڑکی سے آنے والی سرد ہوا سے مجھے سردی لگ رہی تھی ، باہر دوڑتے بھاگتے مناظر کی یکسانیت سے اُکتا کر میں نے کھڑکی سے نظریں ہٹا دیں اور اُن کی جانب دیکھا، کالے رنگ کی شال چہرے پرآگے تک آئی ہوئی تھی ، اُن کے چہرے کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے کسی اندھیری سرنگ میں کوئی چاند بیٹھا انہونے خواب بُن رہا ہو۔۔ ناک کی صرف پھنگ کھڑکی سے آنے والی سرد ہواؤں  سے گلابی پڑ چکی تھی، سُتواں ناک میں پڑا ہیرے کا پتھر بے جان تھا،۔۔۔

انھوں نے میری جانب دیکھا اور کہا۔۔ سردی لگ رہی ہے؟

میں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔ انہوں نے اپنی گود میں پڑے کالے کوٹ کو میری جانب بڑھا دیا اور کہا یہ پہن لو، پھر کہنے لگیں ، تم گھر سے ایسے کس طرح آ گئے؟

میں نے جواب دیا سائکل پر، !

انہوں نے اپنی مخروطی انگلیوں کوچٹخاتے ہوئے میرے سر پر ایک چپت مارتے ہوئے کہا ، ارے پاگل میرا مطلب تھا کہ کوئی سوئیٹر یا جیکٹ پہنے بغیر کیوں آ گئے۔۔۔ اچھا چلو یہ پہنو۔۔۔۔

میں نے ان کے ہاتھوں سے کالا کوٹ لیا اور پہن لیا، کوٹ میں پرفیوم سے زیادہ ان کے بدن کی خوشبو آ رہی تھی، یہ مہک مجھے مد ہوش کر رہی تھی، بے اختیاری میں ، میں نے اُن کا گداز ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا، میرے گندمی ہاتھ اُن کے سفید گلابی ہاتھوں میں آ کر سیاہ پڑ گئے تھے، انہوں نے میری جانب دیکھا ایک شرارت اُن کے لبوں پر مچل رہی تھی، میں نے اپنا ہاتھ کھینچنا چاہ۔۔ نازک گرفت خاصی مضبوط تھی!

یہ بھی پڑھیں : یادیں۔۔حمیرا گُل خان

رات کی بے رنگیوں میں ہم بچھڑ نہ جائیں دوست

ہاتھ میرے ، ہاتھ میں دے اور یہاں سے چل کہیں!

انہوں نے ایک شرارت سے شعر گنگنایا، مجھے بس کی کھڑ کھڑاہٹ میں کچھ سمجھ آیا اور کچھ نہیں ، میں نے ایک پھنسی پھنسی سی آواز میں کہا ۔۔کیا؟

انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میرے ہاتھ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کچھ نہیں!

میں اُن کے کان کی لو سے لٹکتی ہوئی بالی کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔۔ یہ کچھ نہیں کیا جواب ہوتا ہے؟ کبھی کبھی کچھ نہیں ۔۔ ہی سب کچھ ہوتا ہے! بس ادراک کا در وا ہونے میں برسوں کی مسافت جھیلنی پڑ جاتی ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

(مانی جی، میں عوام)

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لڑکپن کا عشق یاد نمبر 87۔۔منصور مانی

Leave a Reply