• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/Songs of the broken hearted Baghdadسیریز کے گیت موسیقی کی دنیا کا ایک خوبصورت تحفہ(قسط8)۔۔۔سلمیٰ اعوان

سفر نامہ:عراق اشک بار ہیں ہم/Songs of the broken hearted Baghdadسیریز کے گیت موسیقی کی دنیا کا ایک خوبصورت تحفہ(قسط8)۔۔۔سلمیٰ اعوان

آنکھ تو کُھلی ہی دیر سے تھی۔کمرہ ایسا نہیں تھا کہ میں کھڑکیوں پر پڑے پردے جھٹک کر سُورج کی نوخیز آل اولاد کی عمارتوں کے چہرے اور کوٹھوں کے بنیروں پر اُچھل کود سے ویلے کا اندازہ لگاتی۔سو کسی کے پوچھنے پر جانی کہ نماز تو کب کی گل ہوگئی ہے۔باتھ روم بند تھا۔میں نے کھلنے کا انتظار نہیں کیا۔ریسپشن میں آئی۔سیٹ پر وہی بیبا سا لڑکا مروان بیٹھا تھا۔فوراً کل کی کارگزاری پوچھنے لگا۔میں نے سب سے پہلے باتھ روم جیسا اہم مسئلہ اس کے سامنے رکھا اور کہا۔
”ذرا منہ ہاتھ دھولوں تب تمہیں احوال سناتی ہوں۔“
اُس نے رازداری برتنے کا کہتے ہوئے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دیا۔فسٹ کلاس باتھ روم کا دروازہ کھول کر چابی مجھے دیتے ہوئے بولا۔”آتے ہوئے لاک کرتی آئیے۔“
افلاق کا بتایا۔”اوہو بڑا صحیح اور موزوں بندہ ٹکرا ہے۔سمجھ دار،ذہین اور انتہائی شریف۔“
”ارے بیبا اوپر والے کی مہربانی ہے۔بس میرے پاس تو دعائیں تھیں۔“
کل کے گزرے دن کی تفصیل سُنتے ہوئے اُس نے جاننا چاہا کہ کیا وہ آج بھی میرے ساتھ ہوگا۔
”انشاء اللہ ہر روز ہوگا جتنے دن بغداد میں قیام رہے گا۔سوڈالر روز کی ادائیگی میرا پروگرام ہے۔تم بتاؤ یہ مناسب ہیں۔یوں اُس نے تو سرے سے اِس موضوع پر کوئی بات ہی نہیں کی۔میں نے بہتیرا سر مارا کہ وہ کچھ بولے۔کچھ کہے۔بس آنکھوں میں اور ہونٹوں پر دھیمی سی مسکراہٹ لئیے ہنستا رہا۔رات واپس آتے ہوئے سو ڈالر کا ایک نوٹ اس کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
”بالکل ٹھیک ہے۔یوں وہ بہت ذمہ دار ہے لیکن احتیاط ضرور کیجئیے۔زیادہ رش والی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں۔کل صُبح سینڑل پوسٹ آفس کے قریب یوتھ ہوٹل کی عمارت سے ذرا فاصلے پر بم پھٹا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ جانی نقصان نہیں ہوا۔بس عمارت اور قرب و جوار کی دوکانوں،مکانوں کے شیشے ٹوٹے ہیں جن سے چند لوگ زخمی ہوئے ہیں۔شام میں کرادہ میں پھٹا ہے۔اس میں تو خاصا جانی نقصان ہوا۔“
”ہائے مروان سارے منظر میرے گھر کے ہیں۔“ میں نے لمبا سانس کھینچتے ہوئے کہا تھا۔
چائے پانی کی تو کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔نسرین جانے کہاں تھی؟میں نے کنگھی پٹی کی۔تیار ہوئی۔ فرج میں رکھا تربوز کھایا اور بیگ اٹھا کر باہر نکل آئی۔جو وقت میں نے افلاق کو دیا تھامیں لیٹ ہونا نہیں چاہتی تھی۔
ٹیکسی سٹینڈ تک فرلانگ سوا فرلانگ کے فاصلے کو طے کرتے ہوئے آج میں زیادہ پُر اعتماد تھی۔دورویہ دوکانوں کا جائزہ نسبتاََ زیادہ تفصیل سے تھا۔ بڑے بڑے شاپنگ پلازوں اور دوکانوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ریڑھیوں پر بھی نظر تھی۔اپنا اور ان کا موازنہ جاری تھا۔خیر سے صفائی سُتھرائی کے معیار سے لے کر بہت ساری چیزوں میں بہت ساری قدریں مشترک تھیں۔
اِس وقت افلاق کے ٹیکسی سٹینڈ پر ہونے کا کتنے فی صد امکان ہے جیساخیال بریکنگ نیوز کی طرح بار بار سامنے آتا تھا۔
دل اور دماغ دونوں خلاف معمول متفق اور متحد تھے اور دلاسا دیتے تھے کہ وہ ضرور ہوگا۔
کل کے دیکھے گئے منظروں میں آج ایک بار پھر میرے گہرے انہماک کو اگر میری کزن دیکھ لیتی تو کوفت بھرے لہجے میں کہنے سے باز نہ رہ سکتی۔
”کوئی کسر نہیں ہے تیرے پاگل ہونے میں۔ سچّی بڑ ا پتلا حال ہے تیرا اُس لالچی سوانی جیسا جو لسی کے گجے کو پانی کے زور سے چاٹی بنا لیتی ہے۔ تم نے بھی اِن محدود سے منظروں کی تصویر کشی سے دو صفحے بھر لینے ہیں۔“
دو رویہ دوکانوں اور پلازوں پر لوگوں کی آمدورفت شروع تھی۔سیاہ برقعوں کی سڑکوں پر بھرمار تھی۔چیکنگ کے مرحلے بھی زور و شور سے جاری تھے۔چھاتی سے لے کر پاؤں تک ڈیٹکٹر کا جھرلو پھرتا تھا۔ہاں البتہ کل جو ڈر اور خوف لرزا سا رہا تھا وہ آج خاصاکم تھا۔
طمانیت سے لبریز سرشاری سے پُر لہریں سارے شریر میں برقی رو کیطرح دوڑی تھیں کہ آنکھوں کو وہ دلبر سا بچہ نظر آیا تھا۔
میں نے اُس کے بازو پر بوسہ دیااور طمطراق سے اگلی نشست پر یوں بیٹھی جیسے میں بغداد میں نہیں لاہور میں ہوں اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے والا میرا بیٹا غضنفر یا ضیغم ہے۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی میں نے منتدرل الزیدی Muntader-al-zaidiکی اُسی نظم کو پھر سُننے کی خواہش کی۔افلاق ہنسا۔
”بس اسے ہی سنتے جانا ہے۔نہیں آج آپ نئی چیزیں سُنیں گی۔“
پھر گاڑی میں ایک دلکش آواز گونجی تھی۔کیا آواز تھی اور کیا گیت تھا؟سچ تو یہ ہے کہ بول سمجھ نہ آنے کے باوجود آواز کی نغمگی اور مدھر تانوں کی طرح ڈوبتا ابھرتا موسیقی کا رچاؤ اتنی مہلت ہی نہیں دے رہا تھاکہ میں معانی پر غور کرتی۔مجھے لگتا تھا کہ جیسے پھولوں کی بچھی چادر پر بادِصبا ہولے ہولے رقص کرتی ہو۔گیت ختم ہوا تو میں نے ایسی دلکش آواز والا کون ہے؟ اور تھوڑا سا مطلب بھی جاننا چاہا۔
اور مجھے معلوم ہواتھا کہ یہ Give me love کے Songs of the Broken hearted Baghdad سیریز کا ایک گیت ہے اور گلوکار سیدعبود ہے افلاق نے عربی میں گاتے ہوئے اُس کا تھوڑا سا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔
short of dying
How can I get you out of my mind
My agonishing pain and my cries
go on and go on
Every one except me is asleep
I toss and turn
sleep eludes me
عود ا وروائلن کی سنگت۔گیت تو دل میں کُبھا جاتا تھا۔
مزید تفصیل کچھ یوں تھی کہ اِس ٹائیٹل کے ساتھ یہ کارنامہ ہز ماسٹرز وائس گرافون کمپنی نے 1925سے 1929میں انجام دیا تھا۔ کہ عراق پر برٹش قبضے کے دوران موسیقی کے یورپی ماہرین نے میسوپوٹیمیا اور اردگرد کے عرب علاقوں کے لوک گیتوں اور بدلتے رحجانات پر شاعری اور موسیقی کوسُنا تو حیرت زدہ رہ گئے۔یہ اُن کیلئے ایک حیران کن تجربہ تھا۔محبت کے آفاقی جذبے کے ساتھ ساتھ اس میں مختلف قوموں کے مذاہب،انکے مذہبی فرقوں،رسم و رواج،ان کے جذبات اور احساسات کے جو لطیف رچاؤ تھے وہ لاجواب تھے۔تب وہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں گھومے۔بھیس بدل بدل کر لوگوں سے ملتے اور اس اثاثے کو اکٹھا کرتے۔ پھر 2008 میں اس پرانی شراب کو نئی صدی کی مختلف ثقافتی اور کلچرل آمیزش کے ساتھ نئے جام و سبو میں ہونسٹ جانز Honest Jones نے پیش کیا تو یہ گیت دو آتشہ کیا سہ آتشہ بنے۔
گانے سنتے،جگہوں کے بارے میں باتیں کرتے کہیں چھوٹی، کہیں بڑی سڑکوں اور چوراہوں سے گزرتے،اردگرد دیکھتے، کہیں ٹیکسٹائل فیکٹری کے بارے میں سُنتے، کہیں مشینری ورکشاپ کے بارے میں جانتے،کہیں پاور پلانٹ پر بات کرتے،کہیں ٹیچرز ٹرئینگ کالج کی عمارت، کہیں ادھوری صدام گرینڈ مسجد کو دیکھتے اور خود سے کہتے مسجد تو موجود پر صدام غائب۔اب یہ عظیم مسجد کب تکمیل کو پہنچے گی؟ ان سب کے ساتھ جنگ کی تباہ کاریوں کا ناقدانہ جائزہ لیتے لیتے عدن سکوائر سے مرکزی شاہراہ 14 جولائی پر آئے۔
انتظامی لحاظ سے بغداد نو حصّوں میں میں منقسم ہے۔
اعظمیہ، کاظمیہ، رصافہ، کرخ، کرادہ، منصور
نیوبغداد، رشید، صدر سٹی
نو ناموں کوافلاق نے ایک سانس میں گنوا دیا۔مجھے کہنا پڑا۔”بیبا دم تو لو۔“
”اس طرف دیکھئیے۔“اُس نے ایک شاندار بلڈنگ کی طرف اشارہ کیا۔
یہ نیشنل پارلیمنٹ ہاؤس تھا۔
ایک خوبصورت وسیع و عریض عمارت سورج کی روشنی میں چمکتی تھی۔کھجور کے درختوں میں ہنستی تھی۔عمارتیں کتنی بھی خوبصورت کیوں نہ ہوں کِس کام کی؟اگر اندر مرد حُر نہیں بیٹھے۔عاقل نہیں اور ذہنی بلوغت نہیں۔اسلام آباد بھلا یاد آنے سے کیسے چُوکتا؟
یہاں کی تو خیرلٹیا ہی ڈوبی پڑی تھی۔عراقی گورننگ کونسل کے بارے میں جانکاری چاہ رہی تھی کہ سارے دلّے اور بھڑوے ہی ہیں یا کوئی کام کا دانہ بھی ہے۔
افلاق ہنسا تھا۔کام کا دانہ کیسے چلے گا؟ضمیر فروشوں اور بے غیرتوں کے ٹولوں میں۔
ہمارا وہ شہرہ آفاق شاعر سعدی یُوسف سچا اور پکا انقلابی سوشلسٹ نظریات کا حامل گذشتہ آمر کے دور میں بھی باہر تھا اور اب جب وہ ہمارے سکے سو دھرے (خیرخواہ ہمدرد)ہمیں اُس ظالم سے نجات دلانے ہوا کے گھوڑوں پر تیرتے ہماری زمین پر آگئے ہیں۔سعدی یوسف اپنے وطن، اپنے گھر نہیں آسکتاکہ اُس کا نام ناپسندیدہ لوگوں کی فہرست میں پھر سے شامل ہوگیا ہے۔بصرہ اُس کا آبائی شہر ہے اور وہ زمانوں سے پیاسا پھر رہا ہے۔پہلے صدام سے خائف تھا۔اب ہمارے اِن نئے نجات دہندوں نے اُسے بین کردیا ہے۔جنگ کے دوران اُس نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے”تحائف کے تبادلوں“ والی نظم لکھی تو انٹرنیٹ کے ذریعے یہ چند لمہوں میں بغداد اور بصرہ کے قصبوں اور شہروں میں کیا دُنیا بھر کے لوگوں کے ہونٹوں پر تھی۔ذراسُنیے۔
Take the books of your missionaries
and give us paper for poems to defame you
Take your smuggled cigarettes
and give us potatoes.
Take the stripes of your flag
and give us the stars
Take Saddam Hussain
and give us Ibrahim Lincon.
Take what you do not have
and give us what we have
میرے دل نے بڑا بوجھل پن محسوس کیا تھا۔اور خود سے کہا بھی تھا۔جذباتی اور احمقانہ پن ہی ہے نا ہمارا۔ صدام وہ کیوں لیں۔انہیں تو قدرت نے ابراھم لنکن دیا تھا۔اور ہم کون سا تہی دست ہیں۔اتنا بڑا رھنما،اتنا بڑا لیڈر تو ہے ہمارے پاس۔مگر ہم اس کی طرف توجہ دیں۔ تب نا۔
قرآن کی رسی کو مظبوطی سے تھامنا تو ہمارے نصیب میں ہی نہیں۔
اپنے گہرے عراقی شاعر دوست مظفرالنواب کو خود پر عائد پابندی کے بارے میں بذریعہ نظم اطلاع دیتے ہوئے اس نے لکھا تھا۔
”ان کی فہرستیں،میں تھوکتا ہوں اُن پر۔میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اہل عراق جو اِس سرزمین کی تاریخ کے وارث ہیں۔ہمیں اپنی بانس کی معمولی سی چھت پر بھی بڑا فخر ہے۔“
گاڑی تیزی سے مڑی تھی۔
یہاں وہی خوبصورت زوارہ پارک نظرآیا تھا جہاں میں رات آئی تھی۔
”اس وقت دھوپ گو تیز ہے مگر پھر بھی صُبح ہے۔دن کی روشنی میں اند ر ایک نظر ڈالیں گی۔“ افلاق نے میری رائے چاہی۔
سویرے سویرے پارکوں میں گھُس جانے کے خیال سے ہی مجھے کوفت سی محسوس ہوئی اور میں کہہ بیٹھی۔
”رات تو آئے تھے یہاں افلاق۔ بغداد میں اپنی صُبح میں نے باغوں اور پارکوں کی نذر نہیں کرنی۔
گاڑی مڑی۔شاہراہ یفہ Yafaپر چڑھی۔پھر جمہوریہ پل پر آئی۔پل سے نیچے اُتری اور کھٹ سے التحریر سکوائر کے سینے میں گُھس گئی۔پاس ہی الرشید روڈ تھی۔افلاق نے مجھے متوجہ کیا تھا۔
”رات کو ہم یہاں بھی آئے تھے۔“
میں حیرت زدہ سی اِس سارے منظر کو ہونقّوں کی طرح دیکھتی تھی۔رات مشرقی بغداد کا یہ کمرشل حصّہ روشنیوں کے سیلاب میں ڈوباایک انوکھا،نرالا،حیران کُن طلسم بکھیرتا تھا۔اور اب سارے منظروں پر جُھرلو سا پھرا ہوا تھا۔سارا ماحول گرد آلود فضا میں جیسے دھیمے دھیمے سانس لیتا ہو۔دجلا بھی گدلا۔ابونواس روڈ بھی اُس طوائف کی طرح اُجڑی پُجڑی جس کے منہ پر صبح صبح پھٹکار برستی ہے۔عمارتوں کا بانکپن گہنایا سا۔یوں جیسے انہیں کیموفلاج کرنے کیلئے اُن پر پتلی سی مٹی کا کوٹ پھیر دیا گیا ہو۔یہ التحریر سکوائر تھاجس نے رات مجھے سحرزدہ کیا تھا۔
دن اور رات کے روپ میں ایسا تضاد میں نے کہیں نہ دیکھا تھا۔الف لیلیٰ کی طلسمی کہانیوں کا بغداداپنی کہانیوں جیسا ہی تھا۔
رات اور دن کے اِس تقابلی جائزے کے بعد گاڑی سنکSinak برج پر چڑھی،اُتری پھر میوزیم سکوائر کی طرف دوڑ لگا دی۔یہ حیفہ اور ناصرہ سٹریٹ کے درمیانی علاقے میں واقع ہے۔دنیا کی قدیم ترین بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ قبل از تاریخ کی باقیات کا بھی یہاں ہونا اِسے بہت انفرادیت دئیے ہوئے ہے۔
بغداد کا یہ علاقہ کرخ ہے اور زمانوں سے اِسی نام کو سنبھالے ہوئے ہے۔کچھ تھوڑا سا کل مروان نے بتایا تھا میوزیم کے لٹنے لُٹانے اور دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے اجڑنے پجٹرنے بارے۔ کچھ اب افلاق سے سُن رہی تھی کہ حملوں کے دوران اُس کا دروازہ بمباری سے ٹوٹ کر گِرا۔امریکی سپاہی اور اُچّکے بدمعاش بھُوکے کتوں کی طرح اندر داخل ہو گئے تھے۔ نادر شاہکار لوٹ کرلے گئے۔لائبریری کی نایاب کتب فٹ پاتھوں پر پڑی ہوئی ملی تھیں۔یہ لائبریری میسو پوٹیمیاتہذیب پر دُنیا کی بہترین لائبریری ہے جہاں بے شمار زبانوں میں وہ ادوار محفوظ ہیں۔
اس کے حشر نشر بارے سنتی تھی تو بس لگتا تھاجیسے کانوں میں کوئی سیسہ ڈالتا ہو۔
رعب داب والی عظیم الشان عمارت جس کا بیرونی حصّہ بارہ سو سال قبل کے ایک نئے عربی طرز تعمیر کے حُسن سے سجا کھڑا تھا۔عجیب سی بات تھی۔اس کے محرابی صورت دروازے اور راؤنڈ سٹی وال سٹائل والے میناروں کو دیکھتے ہوئے میری نظروں میں اُس اشتیاق،لگن اور دید کی تڑپ تو تھی ہی جو بالعموم کِسی بھی نئے ملک کے تاریخی شہر کی اہم جگہوں اور اہم عمارتوں کو دیکھتے ہوئے آنکھوں سے چھلکتی ہے پر اُن کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں جھانکتاہوا وہ دکھ اور کرب بھی تھا جو بغداد کے چہرے پر لگے زخموں،اُن کے متاثر ہونے کی شدت اور کِس حد تک بحالی ہوئی ہے؟جیسے جائزوں سے بھرا ہوا تھا۔
دروازے کی مرمت کی جا چکی ہے اور زندگی اپنے معمول پر رواں دواں تھی۔ میوزیم کیلئے لوگ بھی بس برائے نام ہی تھے۔
اندر داخل ہونے سے قبل میں نے باہر کے ماحول پر ایک گہری نظر ڈالی تھی۔کجھور کے درخت پاسبانوں کی طرح کھڑے تھے۔ میرے سامنے بڑے میدان تھے جنکی حدبندی قدآور آہنی جنگلوں سے کی تھی۔2003کے بعد اِسے طویل عرصے بعد دوبارہ کھولا گیا تھا۔چلو میری خوش قسمتی کہ میں اسے دیکھ سکی۔مجھے اِس سارے منظر نامے پر دُکھ ویرانی اور اُداسی کی گھمبیرتا کا احساس ہوتا تھا جو دل کومضطرب کرتاتھا۔
دیس میں روز مرّہ کی مسلم امّہ اور تیسری دنیا کے بیچارے مفلوک الحال ملکوں سے متعلق خبروں پر میرے دکھ اور اضطراب سے بھرے احساسات پر میری ممیری خلیری بہنیں ہمیشہ یہی کہتیں۔ارے اس کا حال تو ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ“والا ہی ہے۔
اس وقت میں جب ایسے ہی احساسات کی رو میں بہتی تھی۔میں نے خودسے کہا تھا۔”بھئی اب کیا کروں بس میں ایسی ہی ہوں۔“
”ارے پہلے اندر تو چلوں منہ متھا تو دیکھ ہی لیا ہے۔اب گریبان میں بھی جھانکوں۔“
سیکورٹی کے مراحل طے ہوئے۔داخلی دروازہ ابھی بھی ریت کی بوریوں سے بھرا پڑا تھا۔ دل اندر جا کربھی اُجڑا اُجڑا سا تھا۔ایک پڑھی لکھی قوم کا گھٹیا پن۔چاند پر کمندیں ڈالنے والے ایسے وحشی،ظالم اور انسانیت سے عاری لوگ۔
اور یہاں تو صورت ایسی گھمبیر تھی کہ معاملہ ایک تھوڑی بیسوؤں، قوموں سمیریوں Sumeriansسے اشوریوں Assyriansحطیطیوں،کلدانیوں،پارتھیوں Parthians،ساسانیوں Sassanians،یونانیوں،رومیوں اور عربوں تک کے کچے چٹھوں، ان کے پھلنے پھولنے اور اُجڑنے کی نشانیوں کے ساتھ محفوظ تھے۔ دُنیا کے ٹھیکیداروں کو اِن پتھر کے ٹکڑوں اور مجسموں کا فکرتھا۔ایک دہائی تھی۔نوادرات کے ماہر اور امریکن کلچرل کونسل کے اراکین پینٹاگون اور برطانیہ سے کہتے تھے۔
”بھئی اپنے ہتھیار،اوزار اور ایجادات ٹیسٹ کرنا چاہتے ہو۔شوق سے کرو۔دنیا کو تھوڑی سی تڑی لگانی ہے۔لگا دو۔اچھا ہے ذرا خودسر سی ہو رہی ہے۔ہوش میں آجائے گی۔پر سُنو۔گلیاں عراقی لاشوں سے پٹ جائیں پرواہ نہ کرنا۔سڑکیں ان کے خون سے سُرخ ہو جائیں ہونے دینا۔معصوم بچوں اور عورتوں کیلئے بغداد اکیسویں صدی کا کربلا بن جائے بننے دینا۔بس احتیاط رہے کہ بغداد میوزیم کا بال بیکا نہیں ہوگا۔یہ ہر طرح محفوظ ہونا چاہئیے۔
پر سامیوں اور ٹامیوں نے ذرا پروا نہ کی۔بمباری سے عمارت اور صحن کو آگ سے بچانے کی بھی بس واجبی سی کوشش ہوئی۔گوروں اور نیٹو لوگوں کے ساتھ ساتھ پرانے عراقی پاپیوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع مل گیا۔انتہائی قیمتی مجسموں پر رالیں ٹپکیں، کچھ سمندر پار، کچھ گھروں اور محفوظ جگہوں پر کہ ذرا امن ہوجائے تو پیسے کھرے کرنے کا سامان ہو۔
گرینائٹ کے سفید چبوترے پر کھڑا مجسمہ میسوپوٹیمیا کیAssyrian تہذیب کی نمائندگی کرتا تھا۔
سیکورٹی کے مراحل طے ہوئے۔ میں اندر داخل ہوئی تھی۔وسیع و عریض صحن جو ابھی حفاظتی انتظامات،فوجی گارڈوں،آہنی رکاوٹوں اور ریت کے بوروں سے بنی دیواروں سے لیس نظر آتا تھا۔صحن کی مغربی سمت عراقیوں کی دیوار کے ساتھ کی گئی قلعہ بندی ابھی بھی نظر آتی تھی۔
میوزیم کی عمارت اور مرکزی گزرگاہ سے بڑے ہال میں داخلے سے اس کے بین الاقوامی معیار کا اندازہ ہوتا تھا۔انسانی چہروں پر چارٹانگوں والے شیروں جیسے حُلیے والے دیوہیکل جانور دیواروں میں نصب کِس خیال کے نمائندہ تھے۔ طاقت اور شہہ زوری کے۔ افلاق سے یہی معلوم ہوا تھا۔ کمروں کا پھیلاؤ اندر ہی اندر وسیع و عریض ہالوں کی صورت میں پھیلتا چلا جاتا تھا۔
دس ہزار 10000سال سے بھی زیادہ میسو پوٹیمیا تہذیب کا ہر عہداپنے نمائندوں کے ساتھ اٹھائیس گیلریوں،تہ خانوں،ہالوں،سیکنڈ فلور اور گراؤنڈ فلور کے کمروں کے شیلفوں،الماریوں،سٹینڈوں پر سجا ہوا ہے۔افلاق سے میں نے ساری تفصیل سُن کر کہا تھا۔
”بھئی جی تو چاہتا ہے ایک ایک کمرے میں گھسوں۔عراقی تاریخ انسانیت کی تاریخ،سلطنتوں کے عروج و زوال کی داستانیں۔پر ایک وقت کی کمی اور دوسرے کم ہمتی۔ اتنی تہذیبوں کے درمیان تو یوں بھی مت وج جانی ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply