یادیں۔۔حمیرا گُل خان

تم؟۔۔
کیوں آئی ہو تم یہاں؟
میں ۔۔۔ تمھاری تنہائی مٹانے، تم سے ملنے، تم سے باتیں کرنے آئی ہوں؟
مگر مجھے ابھی تنہا رہنا ہے، مجھے اپنی تنہائی کسی کے ساتھ نہیں بانٹنی۔ کسی سے نہیں ملنا۔ کسی سے کوئی بات نہیں کرنی۔ یہ وقت میرا ہے، صرف میرا۔ ۔۔اس لمحے مجھے کچھ نہیں سوچنا۔ مجھے بس سکون سے آنکھیں بند کر کے اس خاموشی کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس کرنا ہے۔ ابھی کوئی مجھے آواز نہ دے، کسی کام کی جلدی نہ ہو۔ میرے گرد لوگوں کا ہجوم نہ ہو، شور نہ ہو۔ بس ان گزرتے ہوئے لمحوں میں تھوڑا سا وقت ہو، جو میرا ہو۔۔۔
بولو۔۔۔۔ کیوں آئی ہو تم یہاں؟ کس نے بلایا ہے تمھیں ؟ میرے زخم کرید کرآخر کیا لطف ملتا ہے تمھیں ؟
میں۔۔۔۔ ارے نہیں، نہیں ۔۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں، میں اس لیے تو نہیں آئی یہاں۔ میں نے سوچا تھوڑی دیر مل بیٹھ کر ماضی کے اوراق پلٹیں گے۔
ماضی۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔ عجیب بات ہے۔
کیوں، اس میں عجیب بات کیا ہے؟ کیا تمھارا کوئی ماضی نہیں۔
ہے، بالکل ہے۔ لیکن اس ماضی میں درد ہے، گھٹن ہے۔ کچھ نہ    ملنے کہ کسک ہے، تو کہیں مل کر بچھڑنے کا دکھ ہے۔ کہیں اپنوں کی جفائیں ہیں اور کہیں غیروں کے ستم ہیں۔ اس ماضی میں غموں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی تو نہیں ہے ایسا جو راحتِ دل کا سامان ہو۔۔۔
تو کیا تم مایوس ہو گئے ہو؟
مایوس؟۔۔
ہاں مایوس ۔۔۔ کیا یہ مایوسی کی باتیں نہیں؟

مجھے لگا ہم مل کر کچھ وقت ساتھ بتائیں گے تو تم کو خوشی ہوگی، مگر۔۔۔۔۔
کس بات کی خوشی ؟ تم کیوں میرے حال میں آکر میرے ماضی کے اوراق پلٹتی ہو؟ کیوں میرے اپنے اور پرائے کے دیے  ہوئے زخموں پر جما کھڑنڈ نوچ کر ان کو پھر سے تازہ کرتی ہو؟ اور یہ سب کرنے کے بعد یہ بھی چاہتی ہو کہ اپنے ہی آنسوؤں سے اپنے زخموں پر مرہم بھی لگاؤں۔ جاؤ یہاں سے اور مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔
میں تو آتی ہوں کہ مل کر   شامیں گزاریں ۔۔۔ اچھا میں پھر آؤں گی
اس نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا۔ کمرے میں خاموشی کا راج تھا۔ اس کی وحشت کی ساتھی “یادیں” اس کی تنہائی میں دخل اندازی  کر کے جا چکی تھیں۔ باہر سے آتی آوازیں اس پر چھائے جمود پہ ضربیں لگا رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے ماضی سے حال میں داخل ہو رہا تھا  اور اپنے اندر کی خاموشی کو باہر سے آتی ہوئی آوازوں میں دم توڑتے ہوئے دیکھ رہا  تھا۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یادیں۔۔حمیرا گُل خان

Leave a Reply