پاکستان کی حقیقی شیرنی۔۔سہیل احمد لون

2017ء کا اختتام ہوا سیاست کے ”کھیل“ میں گزشتہ برس پارلیمنٹ ہاؤس سے زیادہ سڑکوں، چوراہوں، سپریم کورٹ کے احاطوں اور ٹی وی ٹاک شوز پر سیاسی میدان پُر رونق رہے۔ ایک وقت تھا جب فلموں کے ڈائیلاگ ضرب المثل کا درجہ اختیار کر لیتے تھے اب یہ کام فلم سٹوڈیو سے نکل کر سیاسی سٹوڈیو ز میں منتقل ہو چکا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی فلم کا کوئی ڈائیلاگ گزشتہ برس اتنا مقبولیت حاصل نہ کر سکا جتنا مقبول ”گو نواز گو“ ، ”روک سکو تو روک لو“ ، ”مجھے کیوں نکالا؟“ اور ”پین دی سری“ جیسے الفاظ نے شہرت پائی اور سوشل میڈیا کا ٹاپ ٹرینڈ بنے۔کھیلوں کے میدان کافی مدت سے ویران ہیں گزشتہ برس ”ریلو کٹوں اور پھٹیچر“ کھلاڑیوں نے قذافی سٹیڈیم لاہور میں میچ کھیل کر دنیا ئے کرکٹ کو مثبت پیغام دیا جس کے بعد خواہ ایک میچ کے لیے ہی سہی سری لنکن ٹیم نے بھی آکر کھیلنے کی جرات کا مظاہرہ کیا۔

اس سال کے آخر پر جاری ہونے والی آئی سی سی رینکنگ کے مطابق پاکستان کی T20میں ورلڈ رینکنگ میں پہلا نمبرجبکہ ون ڈے انٹرنیشنل میں چھٹا اور ٹیسٹ کرکٹ میں ساتواں ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے اس کے علاوہ پاکستان کن کن کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہا ہے عوام کو اس لیے پتہ نہیں چلتا کیونکہ حکومت کی طرح میڈیا بھی کرکٹ کو ہی شفقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حکومتی اور میڈیا کے سوتیلے سلوک کی وجہ سے آج ہاکی، سکوائش، سنوکر اور ریسلنگ جیسے کھیل جن میں پاکستانی کھلاڑی حکمرانی کرتے تھے زوال کا باعث بن گئے۔

ریسلنگ میں ہمارا خطہ رستم زماں گاما پہلوان سے لے کر جھارا ٗ گوگا گوجرانوالیہ ٗ عبد المجید ماڑو ایشین چیمپیئن ٗ شیدا پہلوان چیمپیئن  منیلا ٗ عظیم جمی چیمپیئن ایشیا اورکالا پہلوان ہیرو نمبر 1جیسے نامور پہلوانوں نے ہر دور میں بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھا۔ جھارا پہلوان کی وفات کے بعد ریسلنگ بھی دفن ہو گئی۔ انسانی حرکات وعادات میں نسل اور جینز کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی شازیہ کنول بٹ جن کا تعلق رستم زماں گاما پہلوان کے خاندان سے ہے اور انہوں نے اس تعلق کو ثابت بھی کردیا ہے۔ پیشہ وارانہ مہارت ضروری نہیں کہ مرد میں ہی نسل در نسل منتقل ہو۔

گزشتہ  برس کا اختتام شازیہ کنول بٹ اور پاکستان کے لیے کم از کم ریسلنگ کے میدان میں اتنا برا نہیں رہا۔ روس کے شہر ماسکو میں منقعد ہونے والی  ماس ریسلنگ ورلڈ کپ کے لیے شازیہ کنول بٹ نے پاکستان کی نمائندگی کی جہاں ستر ممالک کے ریسلرز نے حصہ لیا۔ شازیہ کنول بٹ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ریسلنگ کے کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ  میں حصہ لیا۔ شازیہ کنول بٹ نے 2013ء میں ویٹ لفٹنگ اور پاور لفٹنگ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔2013ء میں پہلی مرتبہ نیشنل ویٹ لفٹنگ میں حصہ لیا اور کانسی کا تمغہ جیتا۔ جنوبی پنجاب کے شہر وہاڑی سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی نے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجایا۔ جنوبی پنجاب میں عورتوں کے لیے فیڈریشن کی طرف سے کوئی باقاعدہ جم، ویٹ لفٹنگ کلب اور خاتون ٹرینر کی کوئی سہولت میسر نہیں۔

شازیہ کنول بٹ کے بڑے بھائی سہیل بٹ بھی ریسلنگ اور پاور لفٹنگ میں پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ انہوں نے گھر میں ہی محدود وسائل اور فٹنس کے جدید آلات کی سہولیات کے بغیر ہی اپنی بہن کی ٹریننگ کی۔ شازیہ کنول بٹ کی محنت، لگن اور جنون کا ثمر یہ نکلا کہ 2015ء میں عمان میں ہونے والی وومنز ایشن پاور لفٹنگ میں پاکستان کے لیے سونے کا تمغہ 142کلو گرام کی کیٹیگری میں جیت کرپہلی مسلم خاتون ایشن چیمپیئن بنی۔گاماپہلوان کے خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے بیگم کلثوم نواز نے انہیں تین لاکھ روپے بطور انعام دیے جس کے شازیہ کنول بٹ نے فٹنس کے کچھ آلات خرید لیے تھے۔ عمان میں کھیلے گئے وومنز ایشن پاور لفٹنگ گیمز میں انتظامیہ نے ان کے حجاب پہن کر ویٹ اٹھانے پر اعتراض کیا جس پر شازیہ کنول بٹ نے کہا کہ وہ حجاب کے بغیر ویٹ اٹھانے نہیں آئیں گی۔ جس کے بعدانتظامیہ کی ایک طویل میٹنگ ہوئی اور شازیہ کنول بٹ کے احتجاج کی وجہ سے ایک نیا بین الاقوامی قانون بن گیا کہ حجاب پہن کر بھی ویٹ لفٹنگ، پاور لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا جا سکے گا۔

پاور لفٹنگ میں ایشن چیمپین بننے کے بعد شازیہ نے ریسلنگ کی تربیت بھی شروع کر دی۔ ماسکو میں ہونے والے ماس ریسلنگ ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے لیے شازیہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن یا ریسلنگ فیڈریشن نے کسی قسم کی مالی معاونت نہ کی۔ اپنی فیملی اور دوستوں کی مالی مدد سے وہ روس تک پہنچی، صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد 10گھنٹے بھوکا رہنا پڑتا کیونکہ اتنے وسائل نہ تھے کہ تین وقت کا کھانا اور پینے کے لیے وافر مقدار میں پانی خرید سکتیں۔ماسکو میں جس سستے سے ہوٹل میں قیام کیا وہاں قریب حلال فوڈ خریدنے کی کوئی سہولت نہ تھی،حلال فوڈ کے لیے ہوٹل سے ٹیکسی پر جانا پڑتا جسے وہ صرف 24 گھنٹے میں ایک مرتبہ یعنی رات کے کھانے کے لیے affordکر پاتے۔ بھوکے پیٹ شازیہ کا چوتھی پوزیشن پر آنا کسی سونے کے تمغے سے کم نہیں۔

وہ اس وقت بھی پاور لفٹنگ اور ریسلنگ کی تربیت کے جدید آلات سے محروم ہیں۔ 2018ء فروری میں روس میں دوبارہ پاس ریسلنگ کے لیے پاکستان کی نمائندگی کر نے جارہی ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ گرین شرٹ پہننے کے باوجود سرکاری سرپرستی سے محروم ہیں۔ پاکستان کا کوئی ادارہ کیا اس قابل نہیں کہ ان کو ملازمت کی آفر کر ے تا کہ ان کو  اپنی خوراک کا مسئلہ تو حل ہوتا نظر آئے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کرکٹ کے کھلاڑی جہاں بھی کھیلنے جائیں ان کو بزنس کلاس میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ دیے جایئں، فائیو سٹار ہوٹل میں قیام اور بہترین خوراک کے ساتھ ان کی سیر و تفریح کا بھی خیال رکھا جائے۔ اس کے برعکس ایک خاتون ریسلر اور پاور لفٹر کو قرضہ لے کر سستی ترین ائیر لائن میں سفر کرکے حصہ لینا پڑتا ہے۔ اگر حکومتی سرپرستی اور میڈیا کی پذیرائی صرف کرکٹ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تو حسین شاہ جیسے باکسر، شہباز احمد، سمیع اللہ، حسن سردار، شہناز شیخ جیسے ہاکی کے لیجنڈز، جھارا جیسے پہلوان، جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے سکوائش کے عظیم کھلاڑی، محمد یوسف اور محمد آصف جیسے سنوکر کے چیمپیئن قوم دیکھنے سے محروم ہی رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

کھیل او ر فن و ثقافت کے ذریعے ہم دنیا میں اپنا  سافٹ امیج دوبارہ بحال کر سکتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب 1988ء میں وزیر اعظم بنیں  تو یہ ہمارے لیے ایک اعزاز کی بات تھی کہ وہ پہلی مسلم خاتون تھیں جو کسی اسلامی ملک کی سربراہ بنی۔شازیہ بھی پہلی مسلم خاتون ہیں جو ایشن چیمپیئن بنی اور پاکستان سے پہلی خاتون ریسلر کا اعزاز بھی اب تا حیات ان کے نام کے ساتھ جڑا ر ہے گا۔شازیہ نے اب تک وہ کر دکھایا ہے جو نون لیگ کی شیرنیوں، پیپلز پارٹی کی جیالیوں اور تحریک انصاف کی ٹائیگریسز نے نہیں کیا۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ جنوبی پنجاب کے چھوٹے شہروں میں بھی کھیلوں کے فروغ کے لیے فنڈز مہیا کرے۔ پاکستان پاور لفٹنگ فیڈریشن کو بھی کم از کم اپنے کھلاڑیوں کا کسی بیرون ملک مقابلے کے دوران رہائش، کھانے اور سفری سہولیات دینے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے۔پاکستان کی اصل شیرنی کو اگر مناسب سہولیات اور سرکاری سرپرستی ملے تو 2020ء میں پاور لفٹنگ میں 185کلو گرام کی کیٹیگری اور وومن ماس ریسلنگ میں سونے کے تمغے یقینی ہوں گے، مگر مالٹا ٹرین شاید ہمارا سب کچھ روند کر گزر جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply