مَیری کرسمس/محمود اصغر چوہدری

گزشتہ دنوں کرسمس کے موضوع پر ایک چینل پر لائیو پروگرام میں شرکت کی تو ہم بڑے جوش و خروش سے اسلامی حوالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہےتھے کہ اسلام کس طرح غیر مسلموں سے حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے اور قائداعظم کے پاکستان کے ویژن میں ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی تھی مگر ہمارے یہ دعوے اس وقت دھرےکے دھرے رہ گئے جب پروگرام میں پاکستان سے شامل ایک مسیحی بہن نے بتایا کہ وہ لوگ کرسمس کے سلسلے میں اپنے گھر کو سجاکر رات کو سوئے ہی تھے کہ اگلی صبح ان کے محلے والے ان کی سب سجاوٹیں اٹھا کر لے گئے تو ہمارا سر شرم سے جھک گیا کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کچھ شہری اکثریتی مذہب کے ماننے والے شہریوں سے باقاعدہ ہراسانی کا شکار ہوں وہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں مذہبی پابندیوں پر آواز کیسے اٹھا سکتے ہیں۔

بھلا ہو مفتی منیب کا کہ انہوں نے اس سال کرسمس کی مبارکباد دینے کو جائز قرار دیتے ہوئے ایک تفصیلی کالم لکھ دیا ہے اور قرآن وحدیث کے حوالوں سے انتہا پسندی کا چورن بیچنے والوں مذہبی تاجروں کا منہ انہی کی زبان میں بند کرایا ہے ،ورنہ ہم تو گزشتہ کئی سال سے ان انتہا پسندوں کو سمجھاتے تھک گئے کہ اخلاقیات کا تقاضا  یہ ہے کہ آپ اپنے دوستوں ، کولیگز اور معاشرے کے دیگر افراد کو ان کے تہواروں کی نہ صرف مبارکباد دیں بلکہ ہوسکے تو انہیں تحفے بھی دیں ۔

اٹلی میں رہتے ہوئے جب کوئی شخص ہمیں یہ بتاتا کہ میری کرسمس کہنے کا مطلب ہوتا ہے “خدا نے بیٹا جنا “تو ہمیں ہنسی بھی آتی تھی اور ہم اسے اس شک کا فائدہ دیتے تھے کہ اس بے چارے کو انگریزی نہیں آتی اور کسی انتہا پسند نے اس کے ذہن میں نفرت کا وائرس ڈال دیا ہے لیکن ہمیں برطانیہ آکر پتہ چلا کہ جن لوگوں کو برطانیہ میں رہتے ہوئے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں انہیں بھی ابھی تک اتنی انگریزی نہیں آئی کہ وہ میری اور ہیپی کا مطلب نہیں سمجھ سکےاور ایسی مبارکباد دینے کو گناہ سمجھتے ہیں تو ہمیں یقین آگیا کہ نفرت کا وائرس جب برین میں داخل ہوجاتا ہے تو انسان کسی بھی لفظ کو کاؤنٹر چیک کر نے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس مسیحی بہن کو بھی ہم نے یہی دلیل دی کہ آپ کے گھر سے کرسمس کی سجاوٹیں اٹھانے والوں کا کوئی قصور نہیں ہےان کو صرف آپ کے تہوار سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن میں نفرتوں کے ایسے وائرس ڈالے گئے ہیں کہ وہ اپنے ہی ہم مذہب کے ماننے والوں سے بھی کچھ تشریحات کی بنا پر نفرت کرتے ہیں ۔ وہ میلاد کے جلوس میں بم دھماکہ کر دیتے ہیں وہ محرم کے جلوس پر پتھراؤ کردیتے ہیں اور ان کا مسئلہ یوم آزادی کی تقریبات سے لیکر سندھ ڈے تک اور بلوچ نوجوانوں کے رقص سے لیکر پنجاب کے بیساکھی میلے تک ہر تہوار میں مین میخ نکالتے ہی رہتے ہیں آپ اپنا دل چھوٹا نہ کریں پاکستانیوں کی اکثریت امن پسند ہے اور آپ کی خوشیوں میں برابر کی شریک ہے ۔ صرف پاکستان ہی نہیں بیرون ملک بھی ہم سب سے اچھے تعلقات بنانے میں پہل کرتے ہیں ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے پریس کلب آف پاکستان یوکے کے پلیٹ فارم کے تحت چرچ میں جا کر اپنی مسیحی برادری کے ساتھ کیک کاٹا ۔ انہیں مبارکباد دی اور انہیں تحفے پیش کئے ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ جہالت نظر زیادہ آتی ہے ۔ اور اچھائی تشکیک کے دھند لکوں میں واضح نظر نہیں آتی ۔ واٹس ایپ اور سوشل میڈیا گروپس میں ایک فوٹو شاپ بے عقلی کی بات بہت جلدی وائرل ہوجاتی ہے جس میں ہر بات کو گناہ کہا گیا ہے لیکن مفتی منیب جیسے عالموں کے کالم پڑھنے کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے ۔ وہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں ”’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اُن (یحییٰ علیہ السلام) پر سلام ہو جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کی وفات ہوگی اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے ، (مریم:15)۔ عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’اور مجھ پر سلام ہو جس دن میں پیدا کیا گیا اور جس دن میری وفات ہوگی اور جس دن میں (دوبارہ) زندہ اٹھایا جاؤں گا، (مریم:33)‘‘۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت، یومِ وفات اور قیامت کے دن اُن کے اٹھائے جانے کی نسبت سے اُن پر سلام بھیجا اور اِسی نسبت سے عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ پر سلام بھیجا۔”
جس دن پر قرآن سلام بھیج رہا ہے اس دن کی  مناسبت سے  ہم یہ جہالت پھیلا رہے ہیں کہ اس دن کی مبارک باد دینا بھی گناہ کہہ رہے ہیں تو ہمیں اپنے علم پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہیے
میری طرف سے تمام عالم انسانیت کو میری کرسمس۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply