ملک پاکستان میں سیاسی شورش کا بازار روز اول سے ہی گرم رہا ہے، سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر اپنی سیاسی وفاداریاں بدلتے آئے ہیں، بر صغیر میں موروثی اور خاندانی سیاست کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر پاکستان میں تو خاندانی سیاست پیشے سے زیادہ ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، بعض اوقات تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی خاندان سے وابستہ افراد ایک ہی حلقے سے مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہو کر الیکشن لڑتے ہیں، مطلب کہ بہ ہر طور اقتدار ان پر انہی کے خانوادے کی گرفت رہے، اسی وجہ سے پاکستان کا سیاسی نظام چند خاندانوں کے زیرِ اثر ہے، حد تو یہ ہے کہ جمہوریت کی داعی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں ان کی جماعت کے اہم عہدوں پر ان کے خاندان کے لوگ ہی براجمان ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ ان سیاسی جماعتوں نے نئی سوائے اپنے خاندان عزیز و اقارب کے کوئی متبادل سیاسی قیادت تیار ہی نہیں کی ہے، ایسے میں ان سیاسی اداکاروں سے، مثبت اور عوامی بقاء کی سیاست کی امید رکھنا کسی مصدقہ بانجھ سے اولاد نرینہ کی امید کے مترادف ہے،پورے ملک کے سیاسی منظر نامے کی یہی صورتحال ہے، اور تقریباً ہر ایک سیاسی جماعت میں اقرباء پروری عروج پر دکھائی دیتی ہے، جنوبی پنجاب پاکستان کا ایک ایسا خطہ ہے کہ، جس کی محرومیوں میں دن بدن اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے، جنوبی پنجاب کے انفراسٹرکچر کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، دنیا چاند اور مریخ کو تسخیر کرنے میں مصروف عمل ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے باسی اس جدید دور میں بھی اپنے مریضوں کو اونٹ ریڑھیوں، گدھا گاڑی اور چنگچی رکشوں میں لاد کر ہسپتال پہنچاتے دکھائی دیتے ہیں، جنوبی پنجاب میں موجود اکثر و بیشتر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اپنے پاس تشویشناک حالت میں پہنچنے والے مریضوں کو نشتر ہسپتال ملتان ریفر کرنے فرائض سرانجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
تو صحت کی سہولیات کا اندازہ تو اسی امر سے لگایا جاسکتا ہے، جنوبی پنجاب کا روڈ نیٹ ورک نہ ہونے کہ برابر ہے، انڈس ہائی وے جو کہ پنجاب سندھ اور بلوچستان کو آپس میں ملاتی ہے اور اس پر سے بیش بہا ٹریفک رواں دواں ہوتی ہے، وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جب کہ دوسری طرف ایم ایم روڈ المعروف قاتل روڈ جو کہ کراچی سے پشاور تک کی اہم ترین شاہراہ ہے، وہ بھی بدترین صورتحال سے دو چار ہے، ایم ایم روڈ جنوبی پنجاب کے بسنے والوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب اور المیے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، اب تک سینکڑوں حادثات کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں، جب کہ یہ اس شاہراہ کی صورت حال میں کوئی بہتری نہیں آ سکی ہے۔
جنوبی پنجاب میں تعلیم جیسی اہم اور بنیادی ضرورت کے حالات بھی کچھ خاص قابل ذکر نہیں ہیں، تعلیم چاہے پرائمری، مڈل، سیکنڈری، ہائر سیکنڈری یا یونیورسٹی کی سطح کی ہی کیوں نہ ہو، اہم اور بنیادی سہولیات کا فقدان ہی دکھائی دے گا، ضلع مظفر گڑھ اور بھکر میں گورنمنٹ کی یونیورسٹی سرے سے ہی موجود نہیں ہے۔
جبکہ ضلع لیہ جس کی پہچان ہی یہاں کی تعلیم اور ذہانت ہے، اس میں چند سال قبل معرض وجود میں آنے والی یونیورسٹی آف لیہ، بہت سی مشکلات اور چیلنجز سے نبرد آزماء ہے، اب تک کوئی ایک بھی وائس چانسلر مستقل طور پر اپنی سیٹ پر براجمان نہیں رہ سکا، آج سے کچھ روز قبل ایک بار پھر ڈاکٹر دین محمد زاہد وائس چانسلر نے اپنا چارج سنبھالا ہے جن کی متوقع طور ہر 6 ماہ کی تعیناتی ہے، ابھی تک یونیورسٹی آف لیہ کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے جا سکے ہیں، یہ یونیورسٹی اوائل سے ہی مالی مسائل کا شکار ہے جو کہ خطے کے لوگوں کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
ضلع لیہ کی سول سوسائٹی، تاجر برادری، وکلاء و ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن، اور صحافی برادری نے 2016 میں لیہ ڈویژن بناؤ تحریک کا باضابطہ آغاز کیا تھا، اس تحریک کا یک نقاطی ایجنڈا یہی تھا کہ، ضلع لیہ کو ڈویژن بنا کر اس کی تاریخی حیثیت کو بحال کیا جائے، ان یہی مطالبہ رہا ہے کہ، تونسہ اور کوٹ ادو کو ضلع بنا پر لیہ کے ساتھ ملا دیا جائے اور لیہ کو ان کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بنایا جائے۔
تونسہ اور کوٹ ادو کو ضلع کا درجہ دیا جا چکا ہے، اب ضلع لیہ کی عوام امید کر رہے ہیں کہ، جلد از جلد لیہ کو ڈویژن بنایا جائے تاکہ، اس علاقے کی ترقی کا آغاز ہو سکے، حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل اپنے عروج پر ہے، سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ، اس بار یہ سیاسی جماعتیں اور آزاد حیثیت میں لڑنے والے سیاستدان جنوبی پنجاب کی عوام کی بہتری اور اس علاقے کی ترقی کے پیشِ نظر، کیا منشور پیش کرنے جا رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب کی عوام باشعور ہو چکے ہیں، ان کی محرومیوں نے ان کو حصول علم کی طرف راغب کر دیا ہے، یہ الیکشنز صرف وعدوں اور دعووں کی بنیاد پر لڑنا اب کی بار اتنا آسان نظر نہیں آتا، اور اگر بات لیہ کی عوام کے حوالے کی جائے تو تاریخ شاہد ہے کہ، جس بھی سیاستدان نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اسے لیہ کی عوام نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رد کرکے اس کی سیاست کو دفن کردیا ہے،
لیہ کے قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے پانچ حلقوں سے بہت سے نامور سیاستدان سابقہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی بھی سیاسی پنجہ آزمائی کرنے میدان میں اتریں گے، مگر ضلع لیہ کا الیکشن بہت مشکل ہوگا، ضلع لیہ کی عوام کے چند اہم مطالبات ہیں، جن کو ہر ایک امیدوار، گروپ، پینل اور سیاسی جماعتوں کو مدنظر رکھنا ہی ہوگا، سب سے اولین مطالبہ یہ ہے کہ لیہ کو جنرل الیکشن کے فوری بعد ڈویژن بنایا جائے، لیہ میں میڈیکل یونیورسٹی بنائی جائے اور انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ، ایم ایم روڈ کو ون وے بنایا جائے، چوک اعظم کو تحصیل کا درجہ دیا جائے، یونیورسٹی آف لیہ کے تمام مسائل کو مکمل طور پر حل کیا جائے اور اس یونیورسٹی کو بین الاقوامی سطح کی یونیورسٹی بنایا جائے، لیہ تونسہ پل کو جلد از جلد تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں پر مؤثر حفاظتی انتظامات و اقدامات کے پیشِ نظر پل کے دونوں اطراف میں پولیس اور رینجرز کی مستقل تعیناتی کی جائے تاکہ نقص امن کے خدشے سے محفوظ رہا جاسکے۔
لیہ ضلع کے امن و امان کو یقینی بنایا جائے، لیہ میں سیوریج، صفائی ستھرائی اور سٹریٹ لائٹس کے نظام کو مؤثر بنایا جائے، ضلع لیہ کے باشعور شہریوں کہ یہ تمام مطالبات نہایت اہم ہیں، اور یقیناً آمدہ انتخابات میں جتنے بھی متوقع امیدوار اور سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں ان سب کو یہ تمام مطالبات اپنے منشور کا حصہ بنانے ہی ہونگے تبھی ان کی کامیابی ممکن ہو پائے گی،
اس بار جنوبی پنجاب اور خاص طور پر ضلع لیہ سے انتخابات میں فتح کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ، جنوبی پنجاب کے باسیوں کے لیے کوئی عملی اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں