پختون اور بلوچ پڑھنے والے/یاسر جواد

ہم وسطی پنجاب کے رہنے والے لوگ بلتستان سے لے کر جنوبی پنجاب، اور سندھ و بلوچستان کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے۔ شمالی علاقوں میں ہر سال لاکھوں لاہوریے اور گوجرانوالیے وغیرہ جاتے ہیں، مگر عموماً وہی چیزیں کھا پی کر واپس آ جاتے ہیں جو پنجاب سے ہی منگوائی گئی ہوتی ہیں۔ مری اور نتھیا گلی میں تمام لاہوری  قسم کے پکوان ملتے ہیں۔ اِسی طرح وہاں کے ڈرائیوروں اور دکان داروں کے سِوا   شاذ ہی کسی کے ساتھ انٹرایکشن ہوتا ہو گا۔ ہم اُنھیں ’’پاپی لوک پہاڑاں دے‘‘ کہتے ہیں، اور وہ نجانے کیا کیا کہتے ہوں گے۔

یہ چیز ہمارے ادب کو بانجھ بنائے ہوئے ہے، اور ہماری عقل کو تنگ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بلوچ کس بات پر ہنستے اور روتے ہیں، کس بات پر متعجب ہوتے اور غصے میں آتے ہیں، ان کی نظر میں موت اور زندگی کے کیا معنی ہیں۔ یہ قطعی لاتعلقی اور ناواقفیت بہت سی سہولیات پیدا کرتی ہے۔ مثلاً اس کی وجہ سے کسی بھی گروہ کو dehumanize کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے مخالف گروہ کو بھی اپنے جیسے انسان مان لیں تو پھر اُس کا استحصال بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب آپ جدید دور کی طرح کارپٹ بمبنگ کرتے ہوں تو دشمن کی چیخیں بھی نہیں سن پاتے اور اُسے یوں ہلاک کرتے ہیں جیسے ویڈیو گیم میں بلاؤں کو کیا جاتا ہے۔

تہذیب کی کہانی کی بدولت میرا براہِ راست رابطہ تربت، کیچ، لسبیلہ، گوادر اور دیگر علاقوں کے نوجوانوں سے ہوا۔ اگر آبادی کے تناسب کو ذہن میں رکھ کر بات کی جائے تو بلوچ نوجوانوں میں پڑھنے اور غوروفکر کا جتنا شوق ہے، پنجابی نوجوانوں میں اُس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہو گی، جبکہ سارے بلوچستان کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اور وہ آبادی بہت حد تک غریب بھی ہے۔

کسی تربتی یا کلمتی نے درخواست کی کہ ایک کاپی سنبھال کر رکھ لوں، اور پھر ہر ایک دو ہفتے بعد یاد کروایا کہ سنبھالے رکھوں۔ کسی نے ایک ایک دو دو ہزار کر کے قیمت پوری کی، کسی نے اس ڈر سے پیشگی بھجوا دی کہ کہیں بعد میں تنگی نہ آ جائے، کسی اور نے زیادہ اصرار کیا تو میں نے کتاب بھیج دی، مگر اُس نے موقع ملتے ہی ادائیگی کر دی۔ ایک دوست سے میں نے کہا کہ میں آپ کو اپنی طرف سے بطور تحفہ بھیج دیتا ہوں کیونکہ آپ کا ہاتھ تنگ ہے۔ وہ ناراضگی سے بولا، نہیں، مجھے خرید کر پڑھنی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کے برعکس لاہور میں زنگر برگر کھاتے اور ایک پہیے پہ دو دو لاکھ روپے کے بائیک چلا کر کھمبوں سے ٹکراتے ہوئے نوجوان تفریح اور حماقت کا غالب مزاج رکھتے ہیں۔ جو پنجابی نوجوان پڑھنے لکھنے کا شغف رکھتے ہیں، وہ انگلش ہی پڑھتے ہیں، مگر صرف ایلف شفق اور پائلو کوئیلہو قبیل کی کتب۔ ول ڈیورانٹ پروجیکٹ نے مجھے بلوچوں کے علاوہ پختون نوجوانوں کا بھی مداح بنایا ہے۔ کوئی پارا چنار، مردان، شنکیاری، سوات وغیرہ کا نوجوان جتنا پُرفکر دماغ رکھتا ہے، وہ حیران کرنے کو کافی ہے۔ اُن کے مقابلے میں ہمارے پنجابی نوجوان سیاسی اور علمی اعتبار سے بانجھ ہیں۔
یوں لگتا ہے کہ وہ ڈی ہیومینائزیشن کے عمل سے بچ گئے ہیں، اور ہم انجانے میں اِس کا بہت گہرائی تک نشانہ بن چکے ہیں۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply