منکی پاکس، کیا جاننا ضروری ہے۔۔ڈاکٹر عمار بیگ

یہ 1958 کا واقعہ ہے۔ سائنسدانوں نے تحقیق کے لیے خوبصورت بندروں کی دو ٹولیاں پال رکھی تھیں۔ انھیں مختلف مفروضوں کی پڑتال اور ادویات کے اثرات کے لیے استعمال کیا جاتا۔ اچانک ان بند روں کی کالونی میں چیچک جیسی بیماری پھیل گئی۔ ان کے جسموں  پر پھوڑے نمودار ہوئے اور ساتھ ہی انہیں بخار بھی ہو گیا۔ اس بیماری کو منکی پاکس (Monkey pox)کا نام دیا گیا۔چند ہفتوں بعد زیادہ تر بندر صحت مند ہو گئے۔

پاکستان میں نسبتاً نئے عارضے “منکی پاکس” کو لے کر بڑی لے دے ہو رہی ہے۔ کووڈ ا 19کے ڈر سے لوگ لا شعوری خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ قومی ادارہ برائے صحت نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ہوائی اڈوں پر اترنے والے مسافروں کی چھان بین کا انتظام و ضع کیا جائے ۔ یہ بیماری کتنی موذی ہے ؟ کیا یہ وباء کی شکل اختیار کر لے گی؟ ہماری زندگیوں پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں ؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

چیچک نما بیماری میں علیل ہونے والے بندر صحت مند ہو کر پھر سے اُچھلنے کودنے لگے ۔ یہ بیماری نظر انداز ہو گئی۔ پھر آیا سال 70 کا۔ 1970 میں جمہوریہ کانگو میں چکن پاکس (لاکڑا کاکڑا) کے خاتمے کی مہم کے دوران منکی وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا۔ یہ انسانوں میں اس وائرس کی موجودگی کا پہلا واقعہ تھا۔ ابتدائی دنوں میں یہ بیماری براعظم افریقہ کے ملکوں ، جمہوریہ کانگو،لائبیریا، سائبیریا، سنٹرل افریقہ وغیرہ تک محدود تھی۔ بعدازاں منکی پاکس کے واقعات پالتو جانوروں کی درآمد والے ملکوں امریکا، برطانیہ، اسرائیل اور سنگاپور وغیرہ میں بھی ظاہر ہوئے۔

منکی پاکس چیچک کی طرز پر پھیلنے والی بیماری ہے۔ اس کی ابتداء  کے واضح  شواہد نہیں ہیں مگر غالب امکان یہ ہی ہے  کہ یہ وائرس بندروں اور کترنے والے جانوروں یعنی چوہوں ،گلہریوں وغیرہ میں پرورش پاتا ہے۔یہ جانوراس کے ممکنہ میزبان ہو سکتے ہیں۔ انسانوں میں اس کا پھیلاؤ  متاثرہ شخص یا جانورسے براہ راست رابطے سے ہوتا ہے۔

وائرس انسانی جسم میں بذریعہ پھٹی ٹوٹی جلد، سانس کی نالی، آنکھوں، کان یا ناک کی جھلی اور جنسی تعلق سے پھیلتا ہے۔ جانوروں کے انسانوں میں کاٹنے، دانت اور خراش لگنے وغیرہ سے انٹری کرسکتاہے۔ اس کے علاوہ یہ متاثرہ شخص کے زیر استعمال اشیاء جیسے کہ کپڑے، تولیہ، ٹوتھ برش، شیونگ کٹ وغیرہ کے استعمال سے بھی پھیل سکتا ہے۔

اس کی علامات میں بخار، پٹھوں کی اینٹھن ، سر درد، کمر درد اور طبیعت کا بوجھل پن وغیرہ شامل ہیں۔ بخار ہونے کے بعد جسم پر پھوڑے نما دانے ظاہر ہوتے ہیں جو پھیلتے ہوئے چہرے اور ہاتھ پاؤں تک پھیل جاتے ہیں۔ یہ تکلیف دہ ہو سکتے ہیں لیکن 14 سے 21 دن میں از خود زائل ہو جاتے ہیں اور مریض بغیر کسی دوا کے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پھوڑے کھرچنے کی صورت میں اپنے  نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

کیا ہمیں کورونا جیسی ایک اور وباء کا سامنا ہے۔ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ابھی تک برطانیہ میں اس بیماری کے 100 سے بھی کم مریض سامنے آئے ہیں جن میں سے کسی کی بھی موت واقع نہیں ہوئی۔

منکی پاکس کی کوئی مخصوص ویکسین نہیں ہے۔ چیچک پر ویکسین 80 سے 85 فیصد کارگر ہے۔ انٹی وائرل اور بخار کی شدت کم کرنے والی ادویات منکی پاکس کے علاج میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔ پاکستان میں اس کے پھیلاؤکو روکنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں ۔حکومت اس سلسلے میں ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر اسکریننگ ڈیسک لگا رہی ہے۔ جہاں مبینہ مریضوں کو چھانٹی کر کے الگ کر لیا جائے گا اور انہیں صحت مند ہونے تک آئسولیشن میں رکھا جائے گا۔
عام لوگوں کو کیا کرنا چاہیے؟

عام لوگوں کو اپنی نارمل زندگی گزارنی چاہیے۔ افواہوں پر کان دھرنے چاہئیں  نہ ہی خوف کی فضا قائم کرنی چاہیے۔ بالفرض آپ کا کسی مریض سے کانٹیکٹ ہو بھی جاتا ہے تو ہر پچاس کانٹیکٹس میں سے صرف ایک ہی متاثر ہوتا ہے اور وہ بھی دو سے تین ہفتوں میں از خود ٹھیک ہو جاتا ہے۔

یہ بہت کم متعدی بیماری ہے جس کا پھیلاؤ بھی   کم ہی  ہے۔ اس کے پھیلنےکے راستے بہت محدود ہیں۔ صرف اس وائرس سے اموات ہونے کی ابھی تک باقاعدہ سائنسی گواہی نہیں مل سکی ہے ۔ اس لیے ہراس پھیلانے سے گریز کریں۔ باقاعدگی سے ہاتھ دھوئیں۔ متاثرہ شخص سے جسمانی تعلق سے گریز کریں۔ صحت مند غذائیں کھائیں اور نارمل زندگی گزاریں۔

سماجی رابطوں کی ویب گاہوں پر غیر مستند خبریں پھیلانے سے گریز کریں اور خوامخواہ کے خوف میں مبتلا مت ہوں۔ آپ کا کورونا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو منکی پاکس تو آپ کے ہم جولی بندروں کا تحفہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیسبُک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply