علاقائی، نسلی، مذہبی، مسلکی، یا دیگر کسی عصبیت کی وجہ سے پیدا ہونے والا سخت اور متشدد رویہ رکھنے والے تمام افراد شدت پسندی کی تعریفوں پر پورا اترتے ہیں۔ لیکن زیر نظر تحریر میں ہم تجزیہ کریں گے ان میں سے صرف مذہبی شدت پسندی کا کہ مقصود اس کلام کا صرف یہ پہلو ہے۔ جب مذہبی تقدس کے زیر اثر کوئی فرد کسی رائے، خیال یا واقعے پر مشتعل ہو کر جان لینے یا دینے پر اتر آئے تو ہم اسے مذہبی شدت پسند کہیں گے۔ ایسا کوئی بھی خیال جو کسی فرد کو اس قدر مشتعل کرے کہ وہ انسانی جان، مال اور عزت کی حرمت کا تصور ہی بھول جائے اس کا پھیلاؤ روکنا چاہیے ۔
معلوم ا نسانی و مذہبی تاریخ میں یہودیوں کے ہاں شدت پسندی کے ثبوت خود بائبل میں موجود ہیں۔ عیسائیت نے بھی مقدور بھر شدت پسندی کو فروغ دیا۔ کلیسا کی جانب سے دی گئی سزاؤں اور یہودی بادشاہوں کی جانب سے اہل حق کو مصلوب کرنے کے واقعات کی جانب ضمنی اشارہ کافی ہو گا۔ مسلمانوں کے ہاں بھی مذہبی شدت پسندی کسی نہ کسی جگہ موجود رہی۔ لیکن اس کے ابتدائی مظاہر ہمیں امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل پر ڈھائے جانے والے حکومتی مظالم کی صورت میں ملتے ہیں۔ جو خالصتاً مذہبی شدت پسندی کا نتیجہ تھے۔ اس شدت پسندی کی وجہ سے ہی آخر کار مسلمانوں کو محکومیت اور زوال کا سامنا کرنا پڑا۔
مذہبی شدت پسندی بھی مختلف متشدد رویوں میں سے ایک رویہ ہے۔ مذہبی شدت پسندی کی تعریف یہ ہو گی کہ وہ شدت پسندانہ رویہ جس میں اہل جبہ و دستار ملوث ہیں۔ یا وہ سخت اور متشدد رویہ جس کے اثبات کے لیے آپ کو مذہبی کتب سے دلائل لانا پڑیں۔ اس روئیے کے اظہار کا باقاعدہ مقام تو مخالف نقطہء نظر کے علماء ہیں لیکن ممبر پر تشریف فرما خطیب صاحب اپنے ہم خیالوں میں اس کی ترویج شروع کر دیتے ہیں۔ مناظروں اور مجادلوں کی للکار میں مخالفین کو ممبر پر بیٹھے بیٹھے جہنم کا ٹکٹ دے دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف مخالفین کی صفوں میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک شعلہ بیان خطیب موجود ہوتا ہے۔ یوں یہ خطیبانہ چنگاری پورے گھر کو شعلوں میں گھیر لیتی ہے۔مذہبی حوالے سے یہ بات عملی مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر و بیشتر شدت پسندانہ رجحان رکھنے والوں کی زندگی نفاق اور ریاکاری سے بھر پور ہوتی ہے۔ وہ جس روئیے کی تبلیغ کرتے ہیں عملاً اس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ وہ حسن خلق اور رحمت اللعالمین کے قصے سنا کر مجمعے کو وجد میں لاتے ہیں اور آخر میں مسلمانوں سے مالی یا جانی تعاون کی دردمندانہ اپیل کر کے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔
ایک خوبصورت ترین عہد ہم نے ان متشدد خطیبوں کی جنگوں میں جھونک دیا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں مناظروں کے باوجود آج تک سب کے کوے چٹے ہیں۔ ایک دوسرے پر فتوؤں کی گولا باری کی جاتی رہی لیکن بقول جون ایلیا کہ تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری میں سب برابر ہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو مذہبی شدت پسندی کی جڑیں مذہبی کتابوں سے کہیں زیادہ متشدد خطیبوں کے مادی مفادات سے جڑی ہوتی ہیں۔ جن کو مذہبی کتب کے حوالوں سے غذا فراہم کی جاتی ہے۔ ان جڑوں سے نکلنے والے درخت کا ثمر نفرت، تعصب، جنگ، فساد، تفرقہ بازی وغیرہ ہے یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہب کو معاشی مفادات کے لئیے استعمال کرنے والا ہر خطیب مذہبی حوالے سے مذہبی شدت پسند ہے۔
مذہبی شدت پسندی کا جس انداز سے آج ہمیں سامنا ہے مجھے نہیں لگتا کہ ماضی کے کسی شخص کو اس طرح شدت پسندی سے سابقہ پڑا ہو۔ مذہبی شدت پسندی بھی ہر دور میں رہی ہو گی فی زمانہ ہمیں مذہبی شدت پسندی کی جڑیں گزشتہ تین صدیوں کے دوران لکھی گئی مذہبی کتب میں ملتی ہیں۔ لیکن اس پر سوال یہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ کتابیں تو کب سے موجود تھیں۔ اتنے عرصے تک ایسا کیوں نہ ہوا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس شدت پسندی کا شکار لوگ پہلے بھی موجود تھے لیکن وہ انفرادی سطح پر اپنے مسلک و مذہب کے حوالے سے متشدد تھے۔آج وہ منظم گروہوں کی شکل میں موجود ہیں۔ اجتماعیت اور تنظیم سے شدت پسندی کو پنپنے کے لیئے سازگار ماحول میسر آیا۔ مذہبی شدت پسندی کے اولین نمونے برصغیر پر انگریزی اقتدار کے زمانے میں ہی سامنے آ ئے۔ جب ہر گام پر مناظروں کا بازار گرم ہو گا تو پھر ایسی فکر کا پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے جو شدت پسندانہ رویئے کو جنم دے۔
مغلوں کے آخری اور انگریز کے ابتدائی زمانے میں ایسا مذہبی لٹریچر تیار ہوا جس نے آنے والے زمانوں کے مسلمانوں کو مزید ذیلی گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے قبل یہاں مسلمان صرف دو بڑے گروہوں میں منقسم تھے ایک گروہ خود کو اہل تشیع اور دوسرا خود کو اہلسنت کہلواتا تھا۔ جب کے اسی زمانے میں بھی صوفیاء۔ صلحا۔ علماء مجددین۔ مجتہدین۔ سب لوگ موجود تھے لیکن مجموعی طور پر فکری وحدت کا غلبہ تھا آہستہ آہستہ مناظرہ بازیوں نے رنگ لانا شروع کیا تو انیسویں صدی کے اختتام تک صورت حال یہاں تک پہنچ گئی کہ خود کو اہلسنت کہلوانے والے گروہ کے مزید ذیلی گروہ بن چکے تھے۔ فریقین کے پاس ایک دوسرے کے کفر کی تحریری شہادتیں موجود تھیں۔
اس اجمال کی تفصیلات جاننے کے لئیے ابو الکلام آزاد کی کہانی پڑھ لیں جس میں وہ اپنے والد محترم کے مذہبی رجحانات سے ان کے متشدد رویئے کو واضح کرتے ہیں۔ یا اس زمانے میں لکھے گئے وہ فتاویٰ دیکھ لیجیئے جن میں مشہور علماء نے ایک دوسرے کی تکذیب کی۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران مسلکی تعصب کی پیدا کردہ شدت پسندی مسلسل بڑھتی چلی گئی۔ اس دوران دنیا میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں۔ قیام پاکستان سے پہلے مسلکی تعصبات نے ہندوستان بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سلفی اثرات بھی یہاں پہنچ چکے تھے۔ دیوبند اور بریلی سے احناف کے دو گروہوں کا ظہور ہوا۔ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے نوے فیصد عقائد یکساں تھے۔ ان کے تفردات حاضر ناظر اور نور بشر جیسے غیر اہم اور فروعی مسائل پر مشتمل تھے لیکن مناظرہ بازیوں اور ایک دوسرے پر کفر و شرک اور گستاخی کے الزامات کا اس قدر پرچار ہوا کہ عام مسلمان یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ان گروہوں کے تمام عقائد الگ الگ ہیں۔ لہٰذا جنت کے حصول کے لیئے کسی ایک فرقے میں شامل ہونا لازم ہے۔
الغرض عام مسلمان کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔ ہر گروہ کے داعی جنت کو اپنی وراثت سمجھنے لگے۔ انہی حالات میں پاکستان کا قیام ہوا۔ قیام پاکستان کے دوران جب مسلمانوں۔ سکھوں اور ہندوؤں کے مابین تعصب کی آگ بھڑکی تو مسلمانوں کے مسلکی اختلافات پس منظر میں چلے گئے اور عارضی طور پر مشترکہ دشمن کے خوف نے انہیں متحد کر دیا۔ مذہی شدت پسندی نے اس موقع پر جو گل کھلائے ان سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ قیام پاکستان کے دوران ہونے والا قتل عام بھی مذہبی شدت پسندی کا ہی شاخسانہ تھا۔ بہر کیف مسلمانوں کے مابین اتحاد بھی اگلی چند دہائیوں کے اندر پارہ پارہ ہو گیا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں