داعیانہ اسلوب کیا ہے ؟۔۔منصور ندیم

حرم رسوا ہوا، پیر حرم کی کم نگاہی سے۔۔

دنیا میں ہر شخص کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے اور کسی نہ کسی درجے میں وہ اپنی شخصیت میں ندرت و انفرادیت رکھتا ہے اور اس کا اسلوب خواہ وہ تحریر کا ہو یا تقریر کا، وہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے انسان اپنی شخصیت کے ذریعے دوسروں کی سوچ پر اثر انداز ہوتا ہے۔ جب وہ لکھتا ہے یا بولتا ہے تو اس کا ذہن اور مزاج، الفاظ و عبارات میں منتقل ہو جاتے ہیں اور اس کی شخصیت اپنا عمل شروع کر دیتی ہے۔ یعنی وہ عملی طور پر اپنے بیان سے اپنی شخصیت کا اظہار کررہا ہوتا ہے ۔

مشہور مفکر ڈاکٹر بوفان ( Doctor Buffon) کا کہنا ہے کہ
“یعنی اسلوب خود انسان ہے” اس تعریف سے ڈاکٹر بوفان کی مراد یہ ہے کہ مقرر یا لکھاری کی شخصیت اپنے تمام نشیب و فراز اور رنگ و آہنگ کے ساتھ الفاظ یا تحریر میں منتقل ہوجاتی ہے۔ انداز اسلوب اصل میں انسان کی “ذہنی آواز” ہے۔

سوشل میڈیا کی ہر فرد تک رسائی نے جہاں علم و معلومات کی اک نئی دنیا دکھائی ہے، وہاں ہمارے معاشرے کے مختلف فورمز نے اسے ابلاغ کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ یہاں مذہبی و صوفیانہ خیالات، معاشرتی موضوعات، مذہبی روایات اور اخلاقی تعلیمات کی تبلیغ بھی نظر آتی ہے چونکہ یہ روش اس موجود زمانے کے معاشرتی متشدد رجحانات کے مطابق ہی ہے ۔ میرا گلہ بھی آج ان لوگوں سے ہے جو دین کا علم اٹھانے کے دعوے کے ساتھ مگر اپنے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس زمین کو اپنے فتوؤں سے کسی کو بھی داخل اسلام نہیں رہنے دیں گے۔ مبلغ اسلام سے شہرت یا دعوت کے داعی کی حیثیت رکھنے والے ہی اگر تُرش روئی، اور سخت اسلوب کو اپنی خُو کر لیں تو آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ کیا یہ وہی رویہ ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کی آبیاری فرمائی تھی۔ کیا واقعی یہ لوگ وارث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہلوانے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو راہنما ماننے کے لیے آمادہ نہیں۔ دین کی حفاظت کفر کے فتوؤں سے نہیں،داعیانہ مزاج سے ہوتی ہے۔ وہ مزاج اللہ کے پیغمبر جس کا کامل نمونہ ہوتے ہیں۔

ایسا کیوں لگتا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کرنے والا اپنے مخاطب یا سوال کرنے والے کے جذبات کا احترام کر نے کے لئے تیار ہی نہیں ہے اور دعوت دینے کے لیے مناسب اسلوب کا انتخاب کرنے اور جو مثالی طریقہ انبیاء کرام علیہ السلام نے اختیار کیا وہ شفقت ، نرمی ، دانائی اور عمدہ نصیحت، جس سے مخاطب آپ کے لیے اپنے دل کے دروازے کھولے، جب داعی دعوت الی اللہ کا دعویٰ  کرے تو کم ازکم اس میں صبر کا وصف بھی ہونا چاہیے۔ بجائے یہ کہ حقیقی داعیانہ اسلوب اختیار کریں ، بلکہ مخاطب کے سوال میں وہ قرآن کی سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کی آیت کے حصے اپنے مطلب کی تفہیم دیتے ہیں۔

( الْجَاهِلُونَ قَالُو سَلَامًا) ترجمہ: “جب انہیں جاہل لوگ مخاطب ہوتے ہیں تو وہ سلام کہہ (کر گزر جاتے) ہیں۔‘‘
کیا واقعی اس آیت کی تشریح کے مطابق سوال کرنے والے کی بابت یہ آیت ہے ؟ یا جن کی ذہنی استعداد جہلاء میں سے ہوں یہ ان کے لئے ہے۔ یہ معاملہ تو یقینا جہلاء کے لئے ہی ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ ایک بہت بڑے فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے تھے، انہوں نے جو علم وحکمت کے موتی شریعت سے سمجھے، انہیں اپنے شعروں میں نہایت خوبصورت انداز میں ہوں لکھا :

يخاطبنـي السفيـه بكـل قـبـح : فأكـره أكــون لــه مجيـبـا
يزيـد سفاهـة فـأزيـد حلـمـا : كعـود زاده الإحـراق طيـبـا​

کہ ’’جاہل اور بے وقوف شخص مجھے ہر برے انداز سے پکارتا ہے، لیکن میں اس کے باوجود اسے (برا) جواب دینا ناپسند کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی جہالت (گالم گلوچ) میں جتنا بڑھتا رہتا ہے، میرے حلم میں اتنا ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے، جیسے کہ عود (خوشبو دار لکڑی) جتنا جلتی ہے زیادہ خوشبو بکھیرتی جاتی ہے۔‘‘

میرا دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں سے یہ کہنا ہے کہ جب تک دعوت دینے کا تقاضا دلیل کے ساتھ‘ برہان کے ساتھ پورا نہیں کیا جائے گا‘ تو سوال کرنے والا طبقہ آپ کا کوئی اثر قبول نہیں کرے گا. جیسے قرآن حکیم یہود ( یعنی اعلی ذہنی استعداد والوں کے لئے) کو کھلا چیلنج کرتا ہے:

قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ (البقرۃ)
’’(اے نبیﷺ ! ان سے) کہہ دو کہ اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو.‘‘

اگر اس سوال پیش کرنے والے کو اس اعلیٰ  علمی و فکری سطح پر مدلل طور پر آپ دین کی دعوت پیش نہیں کریں گےتو اس معاشرے میں اندھی عقیدت کی پیروی کرنے والے عمومی سطح پر تو ضرور کامیاب ہوجائیں گے، مگر اجتماعی سطح پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی،لہذا یہاں ہدایت آئی: اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ ’’اے نبی! (لوگوں کو) حکمت کے ساتھ اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دیجیے‘‘۔اس حکمت کے ساتھ جس کے متعلق ایک مقام پر فرمایا: وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا ؕ (البقرۃ:۲۶۹) ’’اور جس کو حکمت و دانائی ملی‘ اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی (بہت خیر مل گیا)‘‘۔ مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بعض داعیان نے اس ’’حکمت‘‘ کو رد عمل اور سختی کی حکمتِ عملی کے طور پر اپنا لیا ہے۔ یقین کیجیےجو لوگ کسی بھی مذہبی ہستی کا مذاق بناتے ہوں، جن کا مقصد ہی استہزاء ہو۔ ان کو حقیقتاً اہمیت مت دیں۔ مگر سنجیدہ سوال یا تشکیک کی بنیاد پر بات کرنے والوں کے لئے دل نرم رکھیے۔ ان کے لئے ہی ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَقُلْ سَلٰمٌ۝۰ۭ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۔(الزخرف:۸۹)
’’اچھا ، اے بنی، ان سے در گزر کرو اور کہو سلام ہے تمہیں، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا‘‘۔
یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو، بس سلام کرکے ان سے الگ ہو جاؤ۔

کیا ہمارے موجود داعیان اپنے اسلوب بیان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت دین کے لئے مختلف اختیار کردہ وسائل نہیں جانتے کہ سب سے زیادہ جس ذریعہ کا استعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ملتا ہے، وہ ہے زبان، جب کوئی بات بالمشافہ کہی جاتی ہے تو اس میں صرف الفاظ ہی نہیں ہوتے،بلکہ بولنے والے کی آواز، آواز میں شامل اس کے جذبات، اس کے چہرے کے نقوش اور اس کے اعضاء کے حرکات و اشارے، یہ ساری چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں، اسی لئے فوری طور پر مخاطب اس کا خصوصی اثر لیتا ہے، آواز کا زیروبم اور صوتی آہنگ بھی دلوں کے تار کو چھیڑ نے میں معاون بن جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطابات میں یہ بات پوری قوت کے ساتھ پائی جاتی تھی، اور مخاطب پر اس کا پورا اثر ہوتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے لئے زبان کے ساتھ قلم کو بھی ذریعہ بنایا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد رسالت میں اس وقت کے تمام مقتدرہ علاقوں کے امراء کو دعوتی خطوط روانہ کیے تھے، کچھ روایات کے مطابق تقریبا چار سو دعوتی خطوط لکھے گئے تھے، روم و ایران سے لے کر چین تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی خطوط پہنچے، یہ خطوط نہ صرف اپنے داعیانہ اسلوب میں حکمت کا نمونہ ہیں۔ بلکہ زبان و ادب کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ تھے، حدیث کی متداول کتابوں میں بھی ان میں سے کئی مکتوبات نقل کئے گئے ہیں، اب تو بعض مکتوبات کی اصل بھی دریافت ہوگئی ہیں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حدیث میں ان خطوط کا مضمون جس طرح نقل کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح اس دستیاب ہونے والے اصل خط کی عبارت ہے، یہاں تک کہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ پر مشتمل مہر مبارک کی جو ترتیب کتب حدیث میں مذکور ہے، وہی ترتیب اس دستیاب ہونے والے خط میں بھی ہے۔

ان دعوتی خطوط کے مضمون کے سلسلہ میں ایک بڑی ہی قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ روم کو جو خط لکھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عظیم الروم‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی ’’روم کی عظیم شخصیت” ظاہر ہے کہ یہ انتہائی توقیر و احترام کا کلمہ ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ایک کافر و مشرک کے لئے اتنا پُر توقیر کلمہ کیوں کر استعمال کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہاں کے لوگ ان کو اسی طرح سے مخاطب کرتے ہیں، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان خطوط میں مدعو کی عزت نفس کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے، اور تعلیم دی ہے کہ اگر دوسرے مذہب اور قوم کے رہنما سے خطاب کیا جائے تو ان کے حلقہ میں ان کا جس طرح نام لیا جاتا ہے، اسی طرح نام لینا چاہیے۔

افسوس کہ آج ہمارے داعیان اسلام کے طرز اسلوب کی اخلاقی سطح اتنی گرگئی کہ وہ اپنے مسلک و مشرب کے اختلاف کی وجہ سے بھی مخالف دبستان فکر، گروہ یا رائے رکھنے والے کے ساتھ تنابز بالالقاب کرنے لگتے ہیں، اور انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ اس کو اپنی دین داری کا تقاضا سمجھتے ہیں، چہ جائیکہ غیر مسلموں کے ساتھ، بلکہ اپنوں کو ہی فوری رد عمل میں الحاد کا الزام لگا دینا یا یہ کہنا کہ ہم آپ کی نیت جانتے ہیں ۔ اے کاش ! ہم سمجھ سکیں کہ ہمارا یہ عمل دین داری نہیں ہے، بلکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے ناروا سلوک اور حد سے بڑھی ہوئی ظلم وزیادتی کو سہتے ہوئے مکہ کے لیے واپس ہوئے تو سارا جسم زخموں سے چور تھا اور ایڑیوں کے زخم سے دونوں جوتے خون سے لبریز تھے۔ آپ جب “قرنُ الثّعالب‘‘ کے مقام پر پہنچنے تو یکایک آسمان کی طرف سے بادلوں نے آپ پر سایہ کردیا۔ آپ نے نگاہ اوپر اٹھائی تو دیکھا کہ بادل میں جبریل علیہ السلام جلوہ فرما ہیں، اور وہ کہہ رہے ہیں، ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے رب نے وہ سب کچھ سن لیا ہے جو آپ کی قوم نے آپ کی دعوتِ اسلام کے جواب میں کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو میرے ساتھ بھیجا ہے۔ آپ جو حکم دیں گے، وہی وہ کرے گا‘‘۔

اتنے میں پہاڑوں کے فرشتے نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا اور بولا، ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ جو چاہیں حکم دیں۔ اگر آپ کہیں تو میں انہیں طائف کے دونوں پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دوں گا‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں ،نہیں، میں تم کو ایسا کرنے کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا، کیونکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو مجھ پر ایمان لائیں گے اور میرے لائے ہوئے دین کو حرزِ جاں بنائیں گے‘‘۔

غزوۂ حنین کے بعد طائف کا محاصرہ کم وبیش بیس دن جاری رہا ، شہر فتح نہ ہوسکا تو ا پنے بعض صحابہ کرامؓ کے مشورے کے بعد حکم دیا کہ محاصرہ اٹھا لیاجائے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا، آپؐ انہیں بددعا دیں، آپؐ نے بددعا کے بجائے انہیں یہ دعا دی۔
اللّٰہم اِھدِ ثقیفاً و انت بہمْ۔ (سیرۃ النبیؐ ،ج۔۱:۳۸۶،ص)
’’اے اللہ،ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں توفیق دے کہ میرے پاس حاضر ہوجائیں‘‘۔
بنوثقیف کے لیے آپؐ کی مذکورہ بالا دعا اس بات کا مظہر ہے کہ آپ کے دل میں اپنے مخاطبین کے لیے خیرخواہی کا بے پناہ جذبہ تھا۔ اسی جذبۂ خیرخواہی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان کیا ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا۔(سورۃ الکہف،۱۸: ۶)
’’تو اے نبیؐ، شاید تم ان کے پیچھے کے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو، اگر وہ اس بات (قرآن کریم) پر ایمان نہ لائے۔
بعینہ یہی بات سورہ ’’الشعراء‘‘ کے آغاز میں فرمائی گئی ہے۔
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۔ (سورۃ الشعرآء۲۶: ۳)
’’اے نبیؐ، شاید تم اِس غم میں اپنی جان کھودوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمہ وقت اپنی امت کے لئے رو رہا تھا، آج اسی کے دین کے دعوہ بر داعیان کے محراب و منبر سے یہ عمل کیوں نہیں ہوتا؟ دین اگر واقعی ایسا سوزِ دل ہے تو اہلِ داعیان کے ہاں اس کی جھلک، الا ماشااللہ، کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ دین اگر دعوت ہے تو اسلام سے صرف و صرف اخراج کے فتوے کیوں؟ دین اگر اسوہ ِ حسنہ کا بیان ہے تو علم برداران مذہب کی طبیعت میں اتنی سختی کیوں؟ دین اگر رحمت ہے تو اسلام کے نام پر انسانوں کی تکذیب و تکفیر کرنے والے لکھاریوں یا مقرروں کے حق میں حمایت کیوں؟ ہر روز سوشل میڈیا پر کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ یہ سب سوالات، صف بستہ سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔سوچ کی سطح کے اختلافات ، توہین و تنقیص کیوں بن جاتے ہیں کیوں صرف ہم اپنے افکار کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں، یہ عمل تو خود اللہ کی قضا و قدر اور اعلی حکمت کی توہین کے برابر ہے۔ کہ ہم اپنی سوچ سے ذرا الگ سوچنے والوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر دائرہ اسلام کے دائرے سے باہر کھینچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply