کسی کتاب میں بہت پہلے یہ واقعہ نظر سے گزرا تھا جو ہمیشہ یاد تو رہتا ہے لیکن اس کی اہمیت کا اندازہ شاید بڑھاپے میں اب جاکر ہواہے ۔کہتے ہیں ایک دفعہ دو بہت گہرے دوست صحرا میں سفر کر رہے تھے۔ راستے میں باتیں کرتے کرتے دونوں میں کوئی بحث ہوگئی جو بہت طول پکڑتی چلی گئی اور بات اتنی بڑھی کہ وہ آپس میں جھگڑ پڑےاور غصہ میں ایک دوست نے دوسرے دوست کے منہ پہ ایک تھپڑ دے مارا۔
تھپڑ کھانے والا دوست بہت دکھی ہوا مگر کچھ بولے بغیر اس نے وہیں صحرا کی ریت پر لکھا.”آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میرے منہ پہ تھپڑ مارا” اور چل دیا ۔چلتے چلتے ان کو ایک خوبصورت جھیل نظر آئی تو دونوں نے نہانے کا ارادہ کیا۔ اچانک جس دوست کو تھپڑ پڑا تھا وہ جھیل کے بیچ دلدلی حصہ میں پھنس گیا ۔مگر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اس نے دوڑ کر اسے بچا لیا۔ تب بچنے والے دوست نے پتھر پہ لکھا “آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میری قیمتی زندگی بچا لی ” ۔یہ دیکھ کر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور بعد میں جان بچائی اس نے پوچھاکہ “جب میں نے تم کو دکھ دیا تو تم نےمیرے بارے میں صحرا کے ریت پر لکھا تھا اور جب میں نے تمہاری جان بچائی تو تم نے پتھر پہ لکھا ہے ” یہ کیوں؟ تو پہلے دوست نے جواب دیا “جب کوئی آپ کو دکھی کرے یا تکلیف دے تو ہمیشہ اس کی وہ بات ریت پر لکھو تاکہ “درگزر کی ہَوا” اسے مٹا دے اور تم بھی بھول جاؤ ۔۔لیکن جب بھی کوئی آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو ہمیشہ اس کی اچھائی پتھر پہ نقش کرو تاکہ کوئی بھی اسے مٹا نہ سکے ۔پھر آپ کو اسکا احسان بھی ہمیشہ یاد رہے ۔کیونکہ ہمیشہ بھلائی اور اچھائی زندہ رہنی چاہیے جبکہ برائی اور بری بات کو بھلا دینا ہی ہماری فراست اور تدبر کا تقاضا ہوتا ہے ۔کہتے ہیں کہ اچھائی کی صرف ایک اولاد ہے “سکون “اور برائی کے درجنوں بچے ہیں جیسے بدی ،بد نیتی ،بد چلنی ،بد اخلاقی ،بے ایمانی ،بد فعلی،بد نمائی ،بد نامی وغیرہ وغیرہ ان بچوں کو پالنے اور ان کا خرچہ پورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی برائی تو کرنی پڑتی ہی ہے ۔چاہے وہ رشوت ہو،چوری ہو ،فریب ہو ۔سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیوں برائی اور بدی کو اپنے بچوں کی طرح پال رہے ہیں ؟کیوں برائیوں کو ریت پر نہیں لکھ دیتے تاکہ یہ مٹ جائیں ؟
ہمار ا دین ،مذہب، فلسفہ اور سائنس کا یہی اصول اور حکم ہے کہ لوگوں کی برائی کو اچھائی سے دور کریں ۔جس کے لیے عمدہ طریقہ اور زبان کا اچھا استعمال بے حد ضروری ہوتا ہے ۔انسانی جبلت ذرا مختلف اور الٹ ہوتی ہے ۔وہ برائی کو نہیں بھولتا اور ہمیشہ یاد رکھتا ہے ۔جبکہ کسی کی اچھائی اور بھلائی اکثر جلد بھول جاتا ہے ۔ دوسرے آج کے دورمیں اچھائی اور بھلا ئی کے بھی اپنے اپنے معیار قائم ہو چکے ہیں ۔امیر لوگ گھروں میں کم سن بچوں کو ملازم رکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس طرح وہ غریب خاندانوں کو مالی مدد فراہم کر رہے ہیں ۔لیکن اصل اچھائی تو یہ تھی کہ اگر ان کے پاس ضرورت سے کچھ زیادہ ہے تو وہ انہیں اجرت کی بجائے مدد کے طور پر دیتے ۔تاکہ ان کی یہ نیکی پتھر پر لکھی جاتی ۔ہمارا معاشرہ برائی اور اچھائی کے اس معاملہ میں اس قدر آگے جا چکا ہے کہ اب تو زبانی سلام ،ہاتھ ملانا ،گلے ملنے کے لیے بھی لوگ یہ طے کرتے ہیں کہ آپ کتنے کام کے ہیں اور آپ کو کتنا قریب رکھنا ہے اور ان تینوں میں سے کون سی سہولت دی جائے ۔حالانکہ جو آپ کو بہت اچھا لگتا ہو اسے کبھی بھی غور سے مت دیکھو ہو سکتا ہے اس میں کوئی برائی ہو ۔ جو آپ کو برا لگتا ہو اس کو ضرور غور سے دیکھو شاید اس میں کوئی اچھائی سامنے آجائے ۔کہتے ہیں برائی کو خود میں اور اچھائی کو دوسروں میں تلاش کرو یہی سب سے بڑی اچھائی ہوتی ہے ۔ برائی سے رکنا اچھائی کا پہلا قدم ہوتا ہے ۔
کرہ ارض پر معرکہ اچھائی اور برائی ازل سے جاری ہے ۔ انسانی زندگی ایک جنگی صورتحال سے دوچار ہے ۔اس کشمکش کی وجہ سے یہ بے سکونی اور بے یقینی کی کیفیت سے باہر ہی نہیں نکل پارہی ہے ۔اور نہ اچھائی پوری طرح پھیل سکی ہے اور نہ ہی برائی کا قلع قمع ہو پایا ہے۔ حالانکہ خداوند تعالیٰ نے اچھائی کےاچھے نتائج اور برائی کے برے نتائج سے خبردار کرنے کے لیے اپنے بے شمار پیغمبران ،اولیا اللہ اور دانشوروں کو انسانوں کے پاس بھیجا ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ انسان اپنے اپنے پیغمبروں کی تعلیمات اور احکام کو سمجھنے کے باوجود ان پر عمل پیرا ہونے سے گریزاں ہیں اور برائی اور بھلائی کی اس کشمکش سے باہر نہیں نکل پا رہا ہے ۔ہر مذہب اور ہر دین میں ایک بات واضح ہے کہ بھلائی اور اچھائی تب ہی پھیل سکتی ہے جب ہم برائی کو شکست دے پائیں گے ۔ دنیا بھر کے سائنسدان زیادہ تر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار ہیں ۔جن کی شریعت “شریعت حب ” کہلاتی ہے یعنی اگر کوئی شخص آپ کے گال پر طمانچہ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی طمانچے کے لیے اس کے آگے کر دو ” لیکن انہیں پیرو کاروں نے ایسی ایسی خطرناک ایجادات کی ہیں ، جو سکینڈوں میں دنیا کو تباہ کر سکتی ہیں ۔اپنا دوسرا گال طمانچے کے لیے آگے کرنے کی بجائے دنیا کے دونوں گال ہی نوچ لیے ہیں ۔اسی مذہب کے پیرو کار ایک مشہور فلسفی سقراط کا فلسفہ چار باتوں پر مشتمل ہے یعنی اعلیٰ ترین نیکی ،اعلیٰ ترین سچائی ،اعلیٰ ترین اخلاق اور اعلیٰ ترین بول ۔وہ کہتا تھا نیکی اور اچھائی سب سے بڑا علم ہے اور دنیا پر حکومت کرنے کا حق صرف نیک اور اچھے لوگوں کو ہے ۔اس کا دعویٰ تھا کہ ہر انسان کے اندر موجود ضمیر باقاعدہ اُسے با آواز بلند ہمیشہ اچھائی کی تلقین کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے ۔لیکن زیادہ تر لوگ اس آواز کو نہیں سنتے اور اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر سننا بھی نہیں چاہتے ۔جس طرح نیکی اور اچھائی کی تلقین اور برائی سے روکنے پر پیغمبران کو بےشمار اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ایسے ہی اس روحانی فلاسفر سقراط کو یہ سچ کہنے پر زہر کا پیالہ پلا کر خاموش کر دیا گیا ۔وہ برملا کہتا تھا کہ حاکم لوگ اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے عوام کو نیکی اور علم دینے کی بجائے ریاست میں بڑی بڑی عمارات ،بندرگاہیں اور پُل بنانے پر سارے وسائل ان بےجان چیزوں پر لگاتے ہیں ۔اور اس طرح وہ جانداروں کے حقوق سلب کر لیتے ہیں ۔جبکہ نیکی سکھانا اور علم دینا ہی ریاست کا اولین فرض ہوتا ہے ۔کیونکہ علم اچھائی کا راستہ ہے اور برائی کا خاتمہ اچھائی کی جانب لے جاتا ہے ۔
اسلام اور ہمارا دین اس بارے میں بڑا واضح ہے۔ یہ واحد دین اور مذہب ہے۔ جس نے انسان اور اس سے وابستہ تمام معاملات کا مکمل ضابظہ حیات مکمل وضاحت سے بیان کیا ہے۔مسلم معاشرے کے ہر فرد پر اسے فرض کیا ہے کہ وہ کلمہ حق کہے ،نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام یا سلوک ہوتا نظر آے ان کو روکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش کرے ۔کیونکہ ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر “کا فریضہ انجام دینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ یعنی” نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا “جتنی برائی کم ہوگی اتنی ہی نیکی زیادہ پھیلے گی معاشرے میں نیکی کے غلبہ کے لیے برائی کو روکنا ازحد ضروری ہے ۔انسان برائی کے کانٹوں کو راستے سے ہٹاے بغیر نیکی کے پھولوں بھر راستےپر نہیں چل سکتا ۔ہمیں اپنی دنیاوی زندگی کے سفر میں کامیابی کے لیے یہ دونوں کام ساتھ ساتھ کرنے ہوتے ہیں ۔حضرت ابوذر ؒغفاری نے فرمایا “زبان اچھائی کی بھی چابی ہے اور برائی کی بھی لہذا اپنی زبان پر اس طرح مہر لگاے رکھو جس طرح سونے چاندی پر مہر لگائی جاتی ہے “۔ ہم اچھائی اور نیکی کے خواہشمند تو ضرور ہوتے ہیں ۔لیکن برائی سے بچنے یا اسے چھوڑنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اس لیے بزرگ کہتے ہیں برائی اچھائی سے مٹتی ہے اور اچھائی برائی کے خاتمہ سے پھیلتی ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں برائی سے بچنے اور بھلا ئی کرنے کی توفیق عطا فرماے ۔ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی اپنی زندگی میں ہمیشہ لوگوں کی برائی ریت پر لکھیں اور بھول جائیں وہ مٹ جاےُ گی اور اچھائی پتھر پر لکھیں تاکہ وہ ہمیشہ نقش رہے کیونکہ برائی مٹنے اور ختم ہونے کے لیے ہی ہوتی ہے اور اچھائی کو دائمی بقاء حاصل ہوتی ہے ۔اس لیے وہ ہمیشہ یاد رہتی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں