• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • محمد نصیر زندہ کا کلام فکر و فن کے آئینے میں۔۔۔ سید شاہ زمان شمسی

محمد نصیر زندہ کا کلام فکر و فن کے آئینے میں۔۔۔ سید شاہ زمان شمسی

غزل کے مختلف لہجوں اور فکر و احساس کی نئی نئی صورتوں کے باوصف محمد نصیر زندہ کی غزل گوئی کلاسیکی شعراء کے زمانے سے لے کر دورِ حاضر تک مختلف رجحانات کی عکاس ہے۔ وہ کلاسیکیت کے پیرہن میں فکر و شعور کو نئی صورت میں بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ نصیر زندہ صاحبِ اسلوب شاعر ہیں ان کے عکسِ خیال پر معاصر شعراء کا اثر بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ مشکل پسند قاری اور ادب کا گہرا ذوق رکھنے والے احباب ان کی غزلیات میں موجود عمیق منظر ناموں کے قٗفل کھول کر لذتِ حظ اٹھاتے ہیں۔ تصویر میں دہکنے والے عکس کو وہ بڑی خوبصورتی سے زنجیر کرتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ:
عکس تصویر میں دہک رہا تھا
اس کو زنجیر کر رہا تھا میں
استعاراتی خوبیوں سے بھرپور اس شعر میں معنی خیزیت شعر کے قد و قامت کو بلند کر دیتی ہے اور شاعر قاری کے سپرد اپنا خیال کر دیتا ہے تا کہ وہ اپنے تجربے کی روشنی سے نتیجہء فکر اخذ کر سکے۔
میرے غرورِ عشق سے افلاک ڈرتے ہیں
دربارِ مصطفیٰ کا گدا ہو گیا ہوں میں
شاعروں کا دل عموماََ ذاتی طور پر چڑیا کی موت کا غم بھی برداشت نہیں کر سکتا اور یہاں جوشِ بیان میں زندہ صاحب اپنے غرورِ عشق سے افلاک میں اپنا ڈر مسلط کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور اسی نعتیہ فکر میں عاجزی و خاکساری سے دربارِ مصطفیٰ میں سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
انسان زندگی کی ناہمواریوں سے گھبرا جاتا ہے اور اس کی فطرت میں پائی جانے والی کمزوریاں اسے غلط فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اس قسم کے مضطرب لوگوں کو زندہ صاحب عدم آباد میں شمس تعمیر کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ شمس امید کا استعارہ ہے۔ معانی کی افزائش نے اس شعر میں موجود فکری تحریک کو زمین سے اٹھا کر آسمان پر بلند کر دیا شعر ملاحظہ کیجیے گا:
عدم آباد میں اندھیرا تھا
شمس تعمیر کر رہا تھا میں
نصیر زندہ کے اشعار اپنے اندر ایسی گہرائی رکھتے ہیں کہ ہر زمانے میں اور ہر سطح پر متاثر کرنے کی صلاحیتیں ان میں ہیں۔ ان کے اشعار میں کہیں کہیں تصوف کا غلبہ اور عجز و انکساری کی رمق شعر کے حسن کو دوبالا کر دیتی ہے
جہاں موجودہ عہد میں اکثر شعراء اپنی انا پسندی کا دامن پکڑ کے شہرت کے آسمان کی سیر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہیں پر موصوف اپنے فقیرانہ عشق کے ذریعے انا سے رقابت کا اظہار کرتے ہیں شعر دیکھیے گا:
کشکول میں پڑی تھی غرورِ جنوں کی خاک
میرا فقیرِ عشق انا کا رقیب تھا
زندہ صاحب کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ اردو رباعیات پر ان کی گرفت قابلِ تحسین ہے۔ فتح محمد ملک کہتے ہیں کہ ان کی شاعری کا اصل جوہر ہل اتیٰ، مشکل کشاء حضرت علی علیہ السّلام سے والہانہ، گہری اور لازوال محبت سے پھوٹا ہے۔
ممتاز اور صاحب اسلوب شاعر و صدر نشین مقتدرہ قومی زبان افتخار عارف نے محمد نصیر زندہ کی رباعیات پہ مشتمل کتاب”ھل من ناصر ینصرنا” کے مسودے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نصیر زندہ کی رباعیات نظر سے گذر رہی ہیں تو دل سے ان کے لیے دعا نکل رہی ہے،رباعی مشکل فن ہے اور بڑے بڑے اساتذہ نے اس وادی میں قدم رکھنے سے گریز کیا ہے، مگر نصیر زندہ نے بڑی مہارت اور چابکدستی سے اس فن کو نبھایا اور ان کی ریاضت قابل تحسین ہے،۔انھوں نے مزید کہا کہ نصیر زندہ کی رباعیات نے جہان دانش کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے یاد رہے کہ نصیر زندہ کی یہ پانچویں کتاب ہے جو نعتیہ، غزلیہ اشعار اور رباعیات پر مشتمل ہے، اس سے قبل ان کی تین کتابیں رباعیات اور رباعی کے فن پر اہل علم و ہنر سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے۔نصیر زندہ یکم اپریل 1966 میں پیدا ہوئے۔ پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں اور گورنمنٹ ہائی سکول بھلاکھر میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ کتاب ستمبر 2021 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو قلم دوست مطبوعات، گوجر خان نے چھاپا ہے صفحات کی تعداد 176 ہے مطالعہ کرنے کے لیے نہایت دلچسپ طبع زاد نسخہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply